ہماری مت ماری گئی ہے – جاوید چوہدری
الطاف گوہر بیوروکریٹ تھے‘ صحافی تھے اور دانشور تھے‘ میں روز ان کے پاس جاتا تھا اور ان کی گفتگو سے لطف اٹھاتا تھا‘ میں نے ایک دن ان سے پوچھا ’’سر آپ لوگ جہاں دیدہ‘ پڑھے لکھے‘ عقل مند اور تجربہ کار تھے‘ آپ کے سامنے 1971 میں ملک ٹوٹ گیا لیکن آپ لوگ اسے بچا نہیں سکے۔
آپ کو چاہیے تھا آپ سیاست دانوں کو بھی سمجھاتے‘ عدلیہ کے پائوں بھی پکڑ لیتے اور فوج کو بھی آئین کے دائرے میں لے آتے‘ آپ لوگوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟‘‘ گوہر صاحب اداسی میں اپنے لمبے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگے۔
وہ بڑی دیر تک انگلیوں سے کنگھی کرتے رہے اور پھر نرم آواز میں بولے ’’جاوید ہماری مت ماری گئی تھی‘ ہم بوکھلا گئے تھے‘ کنفیوز ہو گئے تھے اور جب ہماری آنکھ کھلی تو آدھا ملک ہمارے ہاتھ سے جا چکا تھا‘‘ وہ رکے‘ مزید چند منٹ کنگھی کی اور پھر بولے ’’بیٹا یہ یاد رکھو جب انسان کی مت ماری جاتی ہے تو وہ دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن اسے نظر نہیں آ رہا ہوتا‘ وہ سن رہا ہوتا ہے لیکن اسے سنائی نہیں دے رہا ہوتا اور وہ سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہی ہوتی اور ہمارے ساتھ 1971 میں یہی ہوا تھا۔‘‘
الطاف گوہر دنیا میں نہیں رہے لیکن مجھے آج اس ملک میں 1971 جیسی صورت حال نظر آ رہی ہے یوں محسوس ہوتا ہے پوری ریاست کی مت ماری گئی ہے‘ ہم ایک ایسا جہاز بن چکے ہیں جو تیزی سے نیچے گر رہا ہے لیکن کوئی پائلٹ اسے بچانے کے لیے تیار نہیں‘ ہم سب کنفیوژن میں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
ملک میں خوف ناک آئینی بحران ہے لیکن کوئی ادارہ اس بحران سے نبٹنے کے لیے تیار نہیں‘ یہ سب اپنی اپنی گردن بچانے میں مصروف ہیں جب کہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں اگر جہاز گر گیا تو صرف مسافر نہیں مریں گے ہم بھی ان کے ساتھ ہی مارے جائیں گے مگر یہ اس کے باوجود آنکھیں نہیں کھول رہے‘ شاید من حیث القوم ہماری مت ماری گئی ہے‘آپ پنجاب کو دیکھ لیں‘ یہ12 کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے۔
پورے براعظم یورپ میں کسی ملک کی آبادی 12کروڑ نہیں لہٰذا پنجاب اگر ملک ہوتا تو یہ دنیا میں 12واں بڑا ملک ہوتا لیکن اس میں 27دنوں سے کوئی حکومت نہیں‘ عثمان بزدار نگران وزیراعلیٰ ہیں‘یہ بے اختیار ہیں‘ حمزہ شہباز اسمبلی میں مار کٹائی کے بعد وزیراعلیٰ بن چکے ہیں لیکن گورنر ان سے حلف نہیں لے رہے‘ وفاقی حکومت نے صدر کو گورنر ہٹانے کی سمری بھجوا دی لیکن صدر نے چمکتے دانتوں کے ساتھ گورنر کو گورنر ہائوس میں بیٹھے رہنے کا حکم دے دیا۔
لہٰذا ایک وزیراعلیٰ فارغ ہو کر پھر رہا ہے اور دوسرا منتخب ہو کر سڑکوں پر گشت کر رہا ہے اور یوں 27دنوں سے 12 کروڑ لوگوں کے صوبے میں کابینہ ہے اور نہ ہی وزیراعلیٰ اور مجال ہے کسی کو شرم آتی ہو‘ ایسے حالات تو آج افریقہ کے انتہائی پس ماندہ ملکوں میں بھی نہیں ہوتے‘ دوسرا عمران خان ایک مراسلے کا جھنڈا اٹھا کر سڑکوں پر پھر رہے ہیں‘ قومی سلامتی کمیٹی کی دو میٹنگز ہو چکی ہیں۔
سفیر اسد مجید کو بھی بلا کر پوچھا جا چکا ہے لیکن کسی جگہ کوئی سازش‘ کوئی دھمکی نہیں نکلی‘ ملک کے مقتدر ترین ادارے اور اعلیٰ ترین کمیٹی دو بار یہ معاملہ کلیئر کر چکی ہے لیکن عمران خان نہیں مان رہے اور یہ کنفیوژن میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں لیکن انھیں کوئی روک بھی نہیں رہا‘ یہ اگر جوڈیشل کمیشن بنوانا چاہتے ہیں تو آپ بنا دیں۔
عدالت فیصلے کی ذمے داری لے لے اور ساتھ ہی یہ عبوری حکم جاری کر دے کمیشن جب تک فیصلہ نہیں کرتا کوئی فریق میڈیا‘ جلسے یا سوشل میڈیا پر اس موضوع پر بات نہیں کرے گا‘ یہ معاملہ بھی نبٹ جائے گا‘ ملک میں کنفیوژن کی فضا ختم ہو جائے گی اور آخر میں کمیشن سب کی سن کر فیصلہ کر دے‘ ہم جانتے ہیں یہ معاملہ پاکستان کی ساری سفارتی اور معاشی چولیں ہلا دے گا لیکن ہم اس کے باوجود اسے طول دے رہے ہیں‘ کیوں دے رہے ہیں؟ مجھے سمجھ نہیں آ رہی‘ شاید واقعی ہماری مت ماری گئی ہے۔
آپ مت کا اندازہ کر لیجیے ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے ملک میں حکمرانی کس کی ہونی چاہیے؟ آئین سپریم ہے‘ پارلیمنٹ سپریم ہے‘ سپریم کورٹ سپریم ہے‘ فوج سپریم ہے یا پھر لانگ مارچ‘ دھرنے اور سڑکیں سپریم ہیں؟ ہم آج تک یہ تعین بھی نہیں کر سکے‘ آپ مہربانی فرما کر ایک ہی بار یہ فیصلہ کیوں نہیں کر دیتے ریاست کی اصل طاقت کس کے پاس ہوگی؟ یہ ملک اگر پارلیمنٹ نے چلانا ہے تو پھر اسے چلانے دیں۔
فیصلے اگر آئین کے تحت ہوں گے تو پھر آئین کو باپ مان لیں اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ سپریم ہوگا تو پھر سپریم کورٹ کو مائی باپ مان لیں اور اگر ملک فوج نے چلانا ہے تو پھر ایک ہی بار یہ ذمے داری فوج کو سونپ دیں تاکہ ملک میں استحکام تو آ ئے‘ ہمارے سامنے چین‘ ایران‘ کیوبا کی مثالیں موجود ہیں‘ کیوبا میں 1958 میں انقلابی حکومت آئی اور یہ لوگ 64برسوں سے جیسے تیسے ملک چلا رہے ہیں اور ملک چل بھی رہا ہے۔
چین نے 1949 میں سوشل ازم کو اپنا آئین اور ون پارٹی سسٹم کو اپنا سیاسی نظام بنا لیا اور یہ آج معاشی سپر پاور ہے‘ ایران میں اصل طاقت علمائے دین کے ہاتھ میں ہے اور یہ ملک بھی جیسے تیسے چل رہا ہے‘ وہاں کسی چیز کی قلت نہیں لیکن ہم 75 برسوں میں ملک میں کسی ایک سپریم ادارے کا تعین نہیں کر سکے لہٰذا ہم آج بند گلی میں کھڑے ہو کر دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں‘ کیا ملک اس طرح چل سکتے ہیں؟
یہ 22 کروڑ لوگوں کا ملک ہے اور اسے 75 برس ہو چکے ہیں لیکن ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے ہماری توانائی کی ضرورت کتنی ہے اور ہم نے یہ ضرورت پوری کیسے کرنی ہے؟ ملک میں ایک ہفتے سے زیادہ پٹرول نہیں ہوتا‘ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 36 ہزار 16میگا واٹ ہے‘ ہم پیدا18 ہزار 31میگاواٹ کر رہے ہیں اور شارٹ فال 7 ہزار 468میگاواٹ ہے‘ زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم ہمیں امپورٹ کرنی پڑتی ہے‘ 70 فیصد دالیں ہم باہر سے منگواتے ہیں‘ ہم آج تک کوکنگ آئل کے لیے سویا بین‘پام‘ سورج مکھی اور کینولا پیدا نہیں کر سکے۔
ملک میں کل 40 چھوٹے بڑے دریا ہیں لیکن ہم پانی کو بھی ترس رہے ہیں‘ سولائزیشن دس ہزار سال پرانی ہے مگر سیاح نہ ہونے کے برابر ہیں‘ دنیا کی 50 بلند ترین چوٹیوں میں سے 19 پاکستان میں ہیں لیکن کوہ پیما آ جاتے ہیں تو ہم ان کے سر اتار دیتے ہیں‘ ملک کو موٹرویز یا میٹروز کی ضرورت ہے یا نہیں ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کرسکے‘ ملک کا سیاسی نظام کیا ہونا چاہیے ہم آج تک یہ فیصلہ بھی نہیں کر سکے۔
الیکشن کس نے کرانا ہے یہ بھی طے نہیں ہوا‘ آرمی چیف کا تعین کیسے ہو گا؟ یہ فیصلہ بھی تاحال نہیں ہو سکا‘ ہمارے کس ملک کے ساتھ کیسے تعلقات ہونے چاہییں ہم آج تک یہ بھی فیصلہ نہیں کر سکے‘ مذہبی اور قانونی آزادی کہاں تک ہونی چاہیے اور یہ کہاں پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے ؟یہ بھی طے نہیں ہوا‘ موسیقی حلال ہے یا حرام ہے‘ تصویر ہونی چاہیے یا نہیں ہونی چاہیے۔
مسجد ریاست نے بنانی ہے یا لوگ بنا کر اس میں تقریریں شروع کر دیں گے ہم نے یہ فیصلہ بھی نہیں کیا‘ کرپشن کیا ہے اور اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟ یہ فیصلہ بھی نہیں ہو سکا اور سیاسی جماعتوں کے لیے فارن فنڈنگ کی گنجائش ہے یا نہیں‘ یہ طے ہونا بھی باقی ہے لہٰذا ہم پھر اس ملک کو ملک کیسے کہیں گے اور یہ کیسے چلے گا؟
میں بار بار عرض کر رہا ہوں اور میں مرنے تک عرض کرتا رہوں گا آپ مہربانی فرما کر چند بڑے فیصلے کر لیں‘ آپ کم از کم بیس سال کے لیے ترقیاتی اور معاشی پالیسی طے کر دیں‘ ملک میں رہنے اور آنے والے دونوں کو معلوم ہونا چاہیے پانچ سال بعد ٹیکس کی شرح اتنی ہو گی تاکہ کمپنیاں اور لوگ پلاننگ کر سکیں اور ہم یہ فیصلہ بھی کر لیں ہم نے فلاں سال تک اتنے ڈیمز‘ سڑکیں‘ اسپتال‘ اسکول اور یونیورسٹیاں بنانی ہیں اور یہ جب شروع ہوں گی تو یہ وقت پر ختم ہوں گی اور بیوروکریسی اور عدلیہ دونوں ان کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گی۔
ہمیں کم از کم خوراک کے معاملے میں بھی ہر لحاظ سے خودکفیل ہونا چاہیے‘ ہم جو بھی کھائیں اپنا کھائیں‘ خوراک باہر سے امپورٹ نہیں ہونی چاہیے‘ پٹرول کا استعمال بھی کم سے کم کردیں‘ آپ فیصلہ کر لیں 2030تک پاکستان کی تمام گاڑیاں اور موٹرسائیکل الیکٹرک ہو جائیں گی‘ آپ تعلیم کو بھی فنی تعلیم پرشفٹ کر دیں‘ 80 فیصد طالب علموں کو ہنر سکھائیں‘ ڈگری نہ دیں۔
آپ بے روزگاری پر پابندی لگا دیں‘ ملک میں اٹھارہ سال کے بعد کوئی شخص بے روزگار نہیں ہوگا‘ یہ کچھ نہ کچھ ضرور کمائے گا اور جو خلاف ورزی کرے اسے جیل میں بند کریں یا پھر کسی فیکٹری میں زبردستی بھرتی کرائیں اور وہ جب تک کوئی ہنر نہیں سیکھ لیتا وہ جیل میں رہے یا مفت کام کرے‘ ریاست ایکسٹینشن پر پابندی لگا دے‘ کوئی سرکاری ملازم وہ خواہ فرشتہ ہی کیوں نہ بن جائے وہ وقت پر ریٹائر ہو گا اور وہ اپنی پوزیشن پر دوبارہ تعینات نہیں ہو سکے گا‘ سپریم کورٹ کی طرح تمام اداروں میں سینئر موسٹ خاموشی سے چیف بن جائے گا‘ اداروں کے سربراہوں کی تعیناتی کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہونا چاہیے‘ ملک کو بزنس کے لیے کھول دیں‘ ملک کا کوئی بھی شہری آن لائن رجسٹریشن سے کاروبار شروع کرے۔
کم از کم پانچ لوگوں کو جاب دے اور ریاست اس سے اس کے فنڈز کے بارے میں نہیں پوچھے گی اور خدا کا واسطہ ہے ایک ہی بار عدالتوں میں زیر التواء ساڑھے 21 لاکھ مقدموں کا فیصلہ کر دیں‘پورا ملک مقدموں میں بندھا ہوا ہے‘ ملک میں کوئی بھی مقدمہ چھ ماہ سے اوپر نہیں جانا چاہیے‘ خدا کا قہر آدھے ملک نے مقدمے کر رکھے ہیں اور آدھے یہ کیس بھگت رہے ہیں۔
کام کس نے کرنا ہے؟ لہٰذا میری درخواست ہے ملک کو بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے‘ مہربانی فرما کر فیصلے کریں ورنہ سری لنکا بننے کے لیے تیار ہو جائیں‘ لوگ وہاں ایک لیٹر پٹرول کے لیے سارا دن لائن میں کھڑے رہتے ہیں اور یہ لوگ بھی چھ ماہ پہلے تک یہی کہتے تھے ہم دیوالیہ نہیں ہو سکتے اور یہ آج کہاں ہیں؟ کانوں کو ہاتھ لگائیں اور اگر اب بھی تسلی نہیں ہوئی تو پھر علامہ طاہر القادری کو بھی ٹرائی کر لیں بس اب یہی بچے ہیں شاید یہ آکر ملک سے تیل کے دریا نکال لیں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Hamari Mut Mari Gaye Hai By Javed Chaudhry