ہائے بے چارہ – سہیل وڑائچ
کہنے کو تو وہ اب بھی صوبے کا مدارالمہام ہے، لکھنے کو تو وہ اب بھی 12کروڑ پنجابیوں کا منتخب لیڈر ہے، قانون اور آئین کے مطابق وہ اب بھی 9ڈویژنوں، 36اضلاع، 145تحصیلوں اور 25ہزار سے زائد دیہات کی انتظامیہ کا چیف ایگزیکٹو ہے۔ جمہوریت کی رو سے پنجاب کے 371منتخب نمائندوں کی اسمبلی میں اسے اب بھی اکثریت حاصل ہے۔
سننے اور دیکھنے کو تو وہ اب بھی اسی پروٹوکول، اسی تام جھام اور اسی نام و نمود کے ساتھ اپنے عہدے پر متمکن ہے مگر سچ یہ ہے کہ اب یہ سب کچھ بدل چکا ہے۔ جب سے سلیمانی ٹوپی والے نئے لاٹ صاحب کا تقررِ اعظم ہوا ہے اس دن سے دُلہا بھائی بیچارہ بنا دیے گئے، اختیارات لاٹ صاحب استعمال کر رہے ہیں اور نام بیچارے دُلہا بھائی کا استعمال ہو رہا ہے حتیٰ کہ اس بیچارے کو تبادلوں کی سونامی کے حوالے سے اعتماد تک میں نہیں لیا گیا تھا،
یہ سارے تقرر و تبادلے خان اور لاٹ صاحب نے باہم مشورے سے کئے ہیں۔ بیچارے کو اِس سارے عمل سے باہر رکھا گیا ہے اور تو اور اس کے جو دو تین رشتہ دار لاہور میں تعینات ہو گئے تھے وہ بھی تتر بتر کر دیے گئے ہیں۔ دُلہا بھائی کی پسِ پشت روحانی طاقت کی دعائوں سے جو لوگ اہم محکموں اور اہم اسامیوں پر تعینات تھے وہ بھی سب ہٹا دیے گئے ہیں۔
افواہ باز پریشان ہیں کہ پنجاب روحانی چھتری اور دُلہا بھائی کے اختیار کے بغیر کس حال کو پہنچے گا؟
اختیارات کا بوجھ اُترنے کے بعد دُلہا بھائی او ایس ڈی افسران کی طرح اپنی صحت بنانے پر توجہ دے رہے ہیں، شام کو گورنر ہائوس کی اونچی دیواروں کے سائے میں چہل قدمی کرتے ہیں، گورنر ہائوس ہی کے سوئمنگ پول میں پیراکی بھی کرتے ہیں، رات کو سرائیکی کلام یا غزل سے دل بہلاتے ہیں، دُلہا بھائی فی الحال خان کے اقدامات کو مکمل طور پر سمجھ نہیں سکے،
ان کا خیال ہے کہ بالآخر سب کچھ دوبارہ انہیں ہی مل جائے گا۔ انہیں روحانی دنیا کی اب بھی مکمل حمایت حاصل ہے، اُن کا زائچہ اور ستاروں کی چال بھی اُنہیں یقین دلا رہی ہے کہ دُلہا بھائی کو پھر سے یہ اقتدار ملے گا، سنا ہے آج کل دُلہا بھائی کو دن میں بھی دلکش اور حسین خواب آ رہے ہیں، اُنہیں یقین ہے کہ یہ خواب روحانی ہیں اور جلد ہی روحانی دعائوں سے یہ خواب سچے ہو کر رہیں گے۔
نئے لاٹ صاحب بہت قابل اور Doerہیں۔ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے وہ شہباز دور میں اعلیٰ ترین عہدوں پر تعینات رہے اور عمران دور میں بھی اپنی اسی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اُنہیں ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر پنجاب میں گورننس کو بہتر کریں۔ انہیں یقین دلایا گیا ہوگا کہ نہ اُن پر دبائو ڈالا جائے گا اور نہ ان کے کام میں سیاسی مداخلت ہوگی۔ ککے زئی لاٹ صاحب نے افسروں کے انتخاب میں ڈی ایم جی افسروں کو ترجیح دی ہے اور پی سی ایس افسروں کے پاس جو دوچار اہم عہدے تھے وہ واپس لے لئے ہیں۔
تاثر یہ ہے کہ لاٹ صاحب قانونی طور پر وزیراعلیٰ کو جوابدہ ہیں لیکن سیاسی طور پر وہ براہِ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوں گے، یوں پنجاب کے خراب حالات کی درستی کے لئے خان صاحب براہِ راست پنجاب کی نگرانی کریں گے اور پنجاب میں اُن کے وژن پر عملدرآمد اب لاٹ صاحب کے ذمے ہوگا۔ دُلہا بھائی کا کام تشہیر، فیتے کاٹنا، جلسوں اور میٹنگوں میں شرکت کرنا ہو گا۔
بیچارے کے اس حال کو پہنچنے کا سب سے بڑا ذمہ دار بیچارہ خود ہے، اس نے سوا سال کسی کی نہیں سنی، حالات کی بہتری کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ صلاحیت یا قابلیت کی کمی تھی تو ان پڑھ اکبر بادشاہ کی طرح قابل نورتن رکھ لیتا۔
سیانا ہوتا تو ترین لودھروی اس کا ابولفضل ثابت ہو سکتا تھا، تجربہ کار اور گھاک راجہ بشارت، راجہ ٹوڈرمل کا متبادل ہو سکتا تھا۔ فیاض چوہان اپنے زبان و بیان کی وجہ سے بیربل کے درجات پا سکتا تھا۔
میاں تان سین جیسا مہان موسیقار ڈھونڈنا مشکل ہے، تان سین دھرپد سے جو سماں باندھتا تھا وہ موقع تو دوبارہ لانا ممکن نہیں ہے لیکن غلام علی اور استاد شگن اس کمی کو کسی حد تک پورا کر سکتے ہیں مگر ہیرا ڈھونڈنے کے لئے قابل جوہری اور حسن کو سراہنے کے لئے حسن شناس نگاہ ہونا ضروری ہے، بیچارہ یہ نہ کر سکا اور آج عالم یہ ہے کہ نہ وہ اختیار ہے اور نہ وہ پرانا اقتدار۔
جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جو ہوا ہے، وہ پہلے سے بھی بُرا ہے۔ دُلہا بھائی سے سو شکایتیں تھیں، ہزار گلے تھے، ان کی صلاحیتوں کی کمی کا چرچا تھا، ان کے بات نہ کر سکنے کا حوالہ دیا جاتا تھا، ان کی سستی، کاہلی اور ڈھیلے پن کا ذکر کیا جاتا تھا مگر کسی کو یہ شکایت، گلہ یا اعتراض نہ تھا کہ وہ آئینی یا قانونی طور پر وزیراعلیٰ نہیں اور نہ ہی کسی طرف سے یہ کہا گیا کہ فرائض ادا کرنے کے حوالے سے انہیں آئینی اختیارات حاصل نہیں۔
اب جو ہوا ہے اس پر آئینی، قانونی، سیاسی اور اخلاقی سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا صوبے کے بیچارے چیف ایگزیکٹو کے اختیارات کوئی بابو استعمال کر سکتا ہے؟ کیا 12کروڑ عوام کے منتخب وزیراعلیٰ کی موجودگی میں ایک نامزد بابو فیصلوں کا اختیار رکھتا ہے؟
کیا عوام کے براہِ راست منتخب فورم پنجاب اسمبلی کے ہوتے ہوئے لاٹ صاحب سیاہ و سفید کا اختیار رکھ سکتا ہے؟ آئین اور قانون کے مطابق ایسا ممکن نہیں، یہ فیصلے بہرحال عوام کے منتخب نمائندوں اور وزیراعلیٰ نے کرنے ہیں۔ اگر ان کا یہ اختیار کوئی اور استعمال کرے گا تو یہ گھوڑا گاڑی کو گھوڑے کے پیچھے باندھنے کے بجائے آگے لگانے کے مترادف ہوگا، ایسی الٹی گنگا کبھی بہتی نہیں دیکھی۔
تجربہ یہ بتاتا ہے کہ چند دن تو یہ نظام زور و شور سے چلے گا مگر چند ہفتوں کے بعد ہی منتخب نمائندوں کا سخت ردِعمل شروع ہو جائے گا، پنجاب اور قومی اسمبلی دونوں منتخب ایوانوں کو اس طریق کار پر شدید اعتراضات ہوں گے۔ غلطی پہ غلطی کرنے یا پہلی مکھی پر دوسری بڑی مکھی مارنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ بڑھیں گے۔
لگ یوں رہا ہے کہ اگر لاٹ صاحب بھی مہنگائی روکنے کے اجلاس منعقد کرتے رہے اور وزراء اجلاس سے باہر رکھے گئے تو سیاسی شورش اٹھ کھڑی ہوگی۔ وہی بے چارا جس پر پھبتیاں کسی جاتی تھیں، اس کے قصے گھڑے جاتے تھے، وہ مظلوم، محبوب اور بے چارا ہو کر اقتدار سے رخصت ہو گا۔
Source: jang News
Must Read Urdu column Haye becharah by Sohail Warraich