حضرت ایوب ؑ کے مزار پر – جاوید چوہدری
حضرت ایوبؑ شام کے رہنےوالے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں مال ‘ دولت‘ اولاد اور صحت سے نواز رکھا تھا‘ وہ چالیس ہزار بھیڑ بکریوں‘ اونٹوں اور گھوڑوں کے مالک تھے‘ وسیع القلب‘ مہمان نواز اور عبادت گزار تھے‘ وہ دس مہمانوں کو کھانا کھلانے سے پہلے کھانا نہیں کھاتے تھے اور دس لوگوں کو لباس دینے سے پہلے کوئی لباس نہیں پہنتے تھے‘ دن رات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے لیکن پھر ان پر آزمائش آ گئی۔
تاریخ میں آزمائش کی تین مختلف روایات درج ہیں‘ پہلی روایت شیطان سے متعلق ہے‘ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا ایوبؑ اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ آپ نے ان کو ہر طرح سے نواز رکھا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا نہیں‘ یہ صرف اور صرف مجھ سے محبت کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں‘ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے حضرت ایوبؑ کا امتحان لینے کی اجازت لی اور آپ مال ودولت‘ عزیز رشتے داروں اور جسم تینوں کی آزمائش سے گزرنے لگے۔
دوسری روایت‘ حضرت ایوبؑ سے کسی نے کہا‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر لحاظ سے نواز رکھا ہے‘ آپؑ نے جواب میں فرمایا ہم بھی تو اس کی ہر وقت عبادت کرتے رہتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کو یہ دعویٰ پسند نہ آیا چنانچہ وہ آزمائش کے عمل سے گزرنے لگے اور تیسری روایت‘ حضرت ایوبؑ نے ایک دن اللہ تعالیٰ سے خود عرض کیا‘ یا باری تعالیٰ آپ مجھے علیل کر دیں تاکہ میں ایک جگہ پڑا رہ کر آپ کی عبادت کرتا رہوں۔
اللہ تعالیٰ انبیاء کرام کی دعا رد نہیں کرتا چنانچہ آپ آزمائشوں کے دور میں داخل ہو گئے‘ ان تینوں روایات میں سے کون سی روایت درست ہے ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے تاہم یہ طے ہے حضرت ایوبؑ ابتلاء کے ایک طویل دور سے گزرے‘ پہلے آپ کے تمام مال مویشی ہلاک ہو گئے‘ پھر آپ کی ساری اولاد چھت تلے دب گئی اور آخر میں آپ کے جسم میں کیڑے پڑ گئے‘ آپ کی آنکھوں میں بھی کیڑے تھے‘ جسم سے انتہائی ناگوار بو آتی تھی اور گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا رہتا تھا۔
عزیز رشتے داروں نے آپ کو ٹاٹ میں لپیٹ کر بستی سے باہر پھینک دیا‘ آزمائش کے اس دور میں آپ کی ایک اہلیہ رحیمہ کے علاوہ کوئی مدد گار نہیں تھا‘ وہ سارا دن لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں اور شام کو معاوضے کے طور پر کھانا لے کر آپ کے پاس تشریف لے آتی تھیں‘ حضرت ایوبؑ اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار تھے‘ وہ ہمہ وقت عبادت میں مصروف رہتے تھے۔
ابتلاء کا یہ دور اٹھارہ سال رہا یہاں تک کہ حضرت ایوبؑ نے ایک دن اللہ تعالیٰ سے صحت کی دعا فرمائی‘ آپ اس دعا کے لیے کیوں مجبور ہوئے! اس کے بارے میں چار روایات ہیں‘ پہلی روایت‘ آپ کی اہلیہ کو ایک دن مزدوری نہ ملی تو انھوں نے ایک کافرہ عورت کو اپنے بال دے کر کھانا لے لیا‘ شیطان نے حضرت ایوبؑ کے دل میں شک ڈال دیا آپ کی اہلیہ نے چوری کی جس کے ردعمل میں لوگوں نے ان کے بال کاٹ دیے‘ آپ دل گرفتہ ہوئے‘ اہلیہ کو سو درے مارنے کی قسم کھائی اور اللہ سے صحت کی دعا فرمائی۔
دوسری روایت‘ آپ کے دو شاگرد تھے‘ یہ شاگرد ایک دن کہنے لگے ہمارے استاد سے لازمی کوئی گناہ سرزد ہوا یہ جس کی سزا بھگت رہے ہیں‘ آپ کو برا لگا اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے صحت کی دعا فرمائی ‘ تین‘ ایک سوداگروں کا قافلہ آیا‘سوداگروں نے پوچھا یہاں کون رہتا ہے‘ بتایا گیا یہاں اللہ کے نبی ایوبؑ رہتے ہیں‘ سوداگروں نے جواب میں کہا‘ یہ اگر اللہ کا نیک بندہ ہوتا تو یہ اس بلا میں کیوں گرفتار ہوتا‘ آپ یہ سن کر اداس ہوئے اور اللہ سے صحت کی دعا فرمائی اور آخری روایت‘ آپ کے جسم سے دو کیڑے باہر گر گئے‘ آپ نے انھیں اٹھا کر دوبارہ زخم میں رکھا اور فرمایا تم اپنی جگہ پر رہو۔
کیڑوں نے آپ کو خوفناک انداز سے کاٹنا شروع کر دیا‘ آپ یہ تکلیف برداشت نہ کر سکے اور اللہ تعالیٰ سے شفاء کی دعا کی‘ ان میں سے کون سی روایت درست ہے یہ بھی اللہ بہتر جانتا ہے تاہم یہ طے ہے آپ نے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا‘ آپ اپنی ایڑی زمین پر رگڑیں‘ آپ نے رگڑی‘ پائوں کے نیچے سے چشمہ نکلا‘ اللہ نے فرمایا‘ آپ یہ پانی پئیں اور اس سے غسل فرمائیں‘ آپ نے اس پرعمل کیا اور چند لمحوں میں صحت یاب ہو گئے‘ آپ کی اہلیہ واپس آئیں اور آپ کو صحت یاب اور جوان دیکھ کر حیران رہ گئیں‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے بعد پہلے سے زیادہ مال‘ دولت ‘ اولاد اور صحت سے نوازا‘ آپ نے طویل عمر پائی۔
بائبل میں حضرت ایوبؑ کا نام جاب (Job) لکھا ہے‘ آپ کس جگہ کے رہنے والے تھے‘ اس کے بارے میں تین جگہوں کی نشاندہی کی جاتی ہے‘ پہلی جگہ ترکی کا شہر شانلی عرفہ ہے‘ یہ شہر ماضی میں شام کا حصہ ہوتا تھا‘ حضرت ابراہیم ؑ اور نمرود کا واقعہ اسی شہر میں پیش آیا تھا‘ عرفہ میں حضرت ایوبؑ کا غار اور شفاء کا چشمہ آج تک موجود ہے‘ مجھے اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوبؑ کے اس غار میں جانے‘ دو نفل ادا کرنے اور چشمہ شفاء پر کھڑا ہونے کی توفیق عطا کی‘ میں دیر تک وہاں بیٹھا رہا اور اللہ سے صحت اور ایمان کی دعا کرتا رہا‘ دوسرا مقام اردن میں واقع ہے۔
عمان شہر سے 35 کلو میٹر دور بلقاء میں باطنا (Batna) نام کا گائوں ہے‘ روایت ہے حضرت ایوبؑ اس گائوں کے رہنے والے تھے ‘یہ بھی امکان ہے آپ شفاء کے بعد عرفہ سے یہاں تشریف لے آئے تھے‘ باطنا میں وہ درخت بھی موجود ہے آپ جس کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا کرتے تھے‘ درخت سوکھ چکا ہے لیکن اس کے باوجود سلامت ہے‘ آپ کے گھر کے آثار بھی موجود ہیں‘ حکومت نے وہاں خوبصورت مسجد بنا دی ہے۔ یہ حضرت ایوبؑ سے منسوب دوسری مسجد ہے‘ پہلی مسجد عرفہ میں ہے۔
مجھے اللہ تعالیٰ نے باطنا جانے کی توفیق بھی عطا فرمائی‘ میں نے حضرت ایوبؑ سے منسوب درخت کو بھی ہاتھ لگایا اور آپ سے منسوب گھر کے پتھر بھی چھو کر دیکھے اور آپ سے منسوب آخری مقام صلالہ میں واقع ہے‘ صلالہ کے مضافات میں جبل کے مقام پر حضرت ایوبؑ کا مزار بھی موجود ہے‘ مسجد بھی اور وہ مقام بھی جہاں آپ نے ایڑی رگڑی تھی‘ چٹان میں پائوں کا نشان بنا ہوا ہے‘ مقامی لوگوں کا کہنا تھا آپ نے یہاں پائوں مارا تھا اور یہاں سے وہ چشمہ پھوٹا تھا تاہم وہ چشمہ سوکھ چکا ہے۔
پائوں کے نشان کے ساتھ مزار ہے اور مزار پر باہر چھت کے بغیر چھوٹی سی مسجد‘ یہ مقام عرفہ اور باطنا کی نسبت ایک لحاظ سے منفرد ہے‘ ان دونوں مقامات پر حضرت ایوبؑ کا مزار موجود نہیں‘ آپ کا مزار صرف صلالہ میں ہے چنانچہ یہ جگہ زیادہ معتبر ہے‘ مجھے اس مزار پر دوبار حاضری کا موقع ملا‘ میں جمعہ کی رات یہاں آیا‘ دعا کی‘ آپ کی قبر کچی ہے‘ میں نے کچی قبر کی مٹی لی‘ ٹشو پیپر میں لپیٹی اور برکت کے لیے پاس رکھ لی‘ میں دوسری مرتبہ اتوار کو دن کے وقت وہاں گیا۔
حضرت ایوبؑ کے مزار پر بھی سگنل تھے‘ آپ کی برکت دل پر اثر کرتی تھی‘ مسجد کے اندر بھی فیوض اور برکات کی بارش ہو رہی تھی‘ میں نے دعا کی اور باہر آ گیا‘ پہاڑی کے ساتھ ساتھ ایک پگڈنڈی وادی میں جا رہی تھی‘ ہم پگڈنڈی پر چل پڑے‘ وادی سبز تھی اور اس سبزے میں کہیں کہیں پرپل رنگ کے پھول کھلے تھے‘ ہوا جب ان پھولوں کے اندر سے گزرتی تھی تو یہ بانسری کی طرح بجنے لگتے تھے‘ یہ ساز پوری وادی کو جھومنے پر مجبور کر دیتا تھا‘ دور پہاڑوں کے آخری سرے پر درختوں کی قطار وادی کا پہرہ دے رہی تھی۔
ڈھلوانوں پر سبز جھاڑیاں تھیں‘ جھاڑیوں میں گندمی رنگ کے پودے تھے اور ان پودوں میں جنگلی پرندے چھپ کر گیت گا رہے تھے‘ وادی کی ہوا میں ایک طراوت‘ ایک شگفتگی‘ ایک فرحت پائی جاتی تھی‘ ہم اس فرحت کا ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ نیچے اترتے چلے گئے‘ پگڈنڈی پہاڑی چشمے پر جا کر ختم ہوئی‘ مقامی لوگوں کا کہنا تھا یہ حضرت ایوبؑ کا چشمہ تھا‘ آپ نے یہاں پائوں مارا تھا اور یہ چشمہ برآمد ہوا تھا‘ چشمے کے اوپر پہاڑ کے اندر ایک ٹیرس سا بھی بنا ہوا تھا‘ ہم ٹیرس تک پہنچ گئے‘ یہ قدرتی آرام گاہ تھی۔
پہاڑ کے سامنے کا حصہ کھوکھلا تھا‘ پیچھے چٹان اور چھوٹے چھوٹے پتھر تھے اور اوپر چٹان کی چھت تھی‘ وہ ایک مکمل مکان یا مکمل رہائش گاہ تھی‘ لوگوں کا خیال ہے حضرت ایوبؑ اس غار میں رہتے تھے‘ یہ امکان بھی موجود تھا مزار کی جگہ آپ کا گھر ہو اور آپ کو بیماری کے عالم میں یہاں اس غار میں چھوڑ دیا گیا ہو اور آپ شفایاب ہونے کے بعد واپس اپنے گھر تشریف لے گئے ہوں یا پھر آپ یہاں اس چشمے کے قریب رہتے ہوں اور آپ کو بیماری میں اوپر مزار کی جگہ رکھ دیا گیا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے وہاں چشمہ نکالا ہو اور آپ صحت یاب ہو کر یہاں واپس آ گئے ہوں یا پھر آپ اوپر ہی رہتے ہوں اور آپ کا قبیلہ یہاں آباد ہو‘ حقیقت کیا ہے‘ یہ اللہ کے راز ہیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے جہاں تک میری عقیدت کا معاملہ تھا‘ میں اپنے پائوں پر تلاش کے موزے چڑھا کر حضرت ایوبؑ سے منسوب تینوں مقامات کی زیارت کر آیا‘ میں نے تینوں مقامات پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے صحت‘ خوشحالی اور ایمان کی دعا کی اور مجھے تینوں جگہوں پر محسوس ہوا میری عرض اور مالک ارض میں زیادہ فاصلہ نہیں تھا‘ میرا دل دعا بن کر دھڑک رہا تھا اور میرے دل کا مالک اس دھڑکن کو سن رہا تھا‘ وہ وہیں کہیں حضرت ایوبؑ کے مقام پر موجود تھا اور اس نے دل مضطرب پر اپنی رحمت کا سایہ ڈال دیا تھا‘ اس نے میری عرض سن لی تھی۔
Source
Must Read urdu column Hazrat Ayub as kay mizar pr By Javed Chaudhry