حکمت یار، طالبان اور بے خبر سیاستداں – سلیم صافی

saleem-saafi

سابق افغان وزیراعظم اور حزبِ اسلامی افغانستان کے امیر انجینئر گلبدین حکمت یار ایک زمانے میں پاکستان کے یار اور امریکہ کے پسندیدہ ترین لیڈر تھے۔ دورِ طالب علمی میں، میں بھی ان کے جہاد کا مداح تھا۔ بعد میں سوچ بدلی تو حکمت یار کے تصور جہاد اور طرزِ سیاست سے متعلق رائے بھی بدل گئی۔ ذاتی تعلق اپنی جگہ لیکن گزشتہ سالوں میں ان کی حکمتِ عملی پر درجنوں تنقیدی کالم لکھ چکا ہوں جو ریکارڈ پر ہیں۔

حکمت یار پہلے سوویت یونین سے لڑے۔ پھر نجیب حکومت سے۔ پھر احمد شاہ مسود اور رشید دوستم سے۔ طالبان ان کے زیرقبضہ علاقوں میں نمودار ہوئے اور کابل پر ان کے قبضہ تک زیادہ تر حکمتیار کی حزب اسلامی سے ہی وہ لڑتے رہے۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد وہ ایران گئے۔ نائن الیون کے بعد واپس آئے اور ایک بار پھر امریکہ اور کرزئی حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔

امریکہ کے خلاف مزاحمت میں ان کا حصہ برائے نام رہا کیونکہ ان کی جماعت کے زیادہ تر لوگ حامد کرزئی کی قیادت میں سیاسی نظام کا حصہ بن گئے۔ کرزئی کی کابینہ میں نصف درجن سے زیادہ وزیر حکمت یار کی حزبِ اسلامی کے تھے۔

مشرف کے دور میں پاکستان اور افغانستان کا جو مشترکہ جرگہ ہوا اس کے افغان سائیڈ سے کوآرڈنیٹر ڈاکٹر فاروق وردگ، جو متعدد وزارتوں کے انچارج تھے، بھی حکمت یار کے ساتھی رہے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس۔ حامد کرزئی نے اپنے دور میں حکمت یار کے ساتھ مفاہمت کی کوششیں شروع کی تھیں جو ڈاکٹر اشرف غنی کے دور میں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔ چنانچہ اس معاہدے کی رو سے حکمت یار کابل گئے۔ ان کو اشرف غنی کی حکومت کی طرف سے ایک گھر کابل میں دیا گیا اور ایک ان کی مرضی کے دوسرے شہر میں۔ ڈاکٹر اشرف غنی کی سفارش پر ان کا نام اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے نکالا گیا۔

اس پورے عمل کی پاکستان کی اے این پی سمیت کسی سیاسی جماعت نے مخالفت نہیں کی۔ اس کے بعد حکمت یار افغانستان کے سیاسی عمل کا حصہ بن گئے۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں انہوں نے ڈاکٹر اشرف غنی اور عبدﷲ عبدﷲ کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ وہ کابل میں پریس کانفرنس نہیں کرتے یا پھر کسی ٹی وی چینل کو انٹرویو نہیں دیتے۔ اور تو اور انہوں نے اپنی جماعت کا ٹی وی چینل بھی قائم کردیا ہے اور اشرف غنی کی حکومت نے ہی ان کو لائسنس دے رکھا ہے۔

گزشتہ روز وہ پاکستان کے دورے پر آئے۔ ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی طرح ان کا بھی جیو ٹی وی کے لئے میں نے انٹرویو کیا۔ یہاں انہوں نے یہ غلطی کی کہ اشرف غنی کی حکومت کے خلاف بیانات داغ دئیے حالانکہ عمران خان سے ملاقات کے دوران بھی ان سے درخواست کی گئی کہ وہ پاکستانی سرزمین سے اشرف غنی کے خلاف بیانات نہ دیں لیکن انہوں نے الٹا عمران خان کے سامنے تقریر شروع کردی کہ اشرف غنی کی حکومت غیرقانونی ہے اور اب اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اب کسی نے اگر غصہ نکالنا ہے تو اشرف غنی پر نکالے جنہوں نے ڈیل کرکے حکمت یار کو کابل کے سیاسی نظام کا حصہ بنایا۔

یہی معاملہ افغان طالبان کا ہے۔ امریکہ نے اشرف غنی کی حکومت کو بائی پاس کرکے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا۔ زاہد خان یا ان جیسے لوگوں کو اگر آسمان سر پر اٹھانا تھا تو اس وقت اٹھانا چاہئے تھا لیکن اس معاہدے کا ہر طرف سے خیرمقدم ہوا۔ اس معاہدے کی رو سے امریکہ نے طالبان سے جنگ بندی بھی نہیں کروائی اور ڈنڈے کے زور پر اشرف غنی سے طالبان کے تمام قیدی بھی رہا کروائے۔

قطر میں ان کے ساتھ امریکی سیکرٹری خارجہ اور درجنوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی موجودگی میں زلمے خلیل زاد نے معاہدے پر دستخط کئے اور پھر خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملا برادر سے ٹیلی فون پر بات کی۔ اب وہ مفرور نہیں بلکہ قطر میں بیٹھے ہیں اور اشرف غنی حکومت کا وفد ان سے مذاکرات کررہا ہے۔ ان سب چیزوں سے کسی کو تکلیف ہوئی اور نہ کسی کو تنقید کرنے کی ہمت ہوئی لیکن اب جب میں نے قطر میں طالبان کے ترجمان ڈاکٹر نعیم کا انٹرویو کیا تو اے این پی کے تاحیات مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان جیسے لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا۔

حالانکہ اگر زاہد خان برطانیہ کی سیروں سے فارغ ہوکر تھوڑی دیر کے لئے ہماری طرح محنت کریں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب افغانستان کے کسی نہ کسی چینل پر طالبان کے اس ترجمان کا انٹرویو نہ چل رہا ہو۔ اب میں اسے ان لوگوں کی بے خبری اور نااہلی کہوں یا پھر حسد؟ نہ جانے جمہوریت اور آزادی اظہار کی بات کرنے والے یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ بطور جرنلسٹ ہمارا کام ہی یہ ہے کہ ہم ہر طرح کے لوگوں سے ملیں اور ہر طرح کے لوگوں کے انٹرویوز کریں۔

کسی کے انٹرویو کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ آپ ان کے موقف سے متفق ہیں۔ یہ پابندیاں تو نواز شریف اور راحیل شریف کے دور میں لگیں ورنہ پاکستانی طالبان سے خود اے این پی کی حکومت نے مذاکرات اور معاہدے کئے اور اس وقت ہر روز پاکستانی چینلز پر مسلم خان اور احسان اللہ احسان کے لائیوانٹرویو چلتے رہے۔ افغانستان کے معاملے میں، میں نے کوئی تفریق بھی روا نہیں رکھی۔ حامد کرزئی، ڈاکٹر اشرف غنی ، عبدﷲ عبدﷲ سب کے انٹرویوز کئے۔ اگر پاکستانی اداروں کی پابندی نہ ہو تو میں تو پاکستانی عسکریت پسندوں کے انٹرویوز کرنے سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔

مجھے اگر موقع ملے تو میں نریندر مودی کا بھی انٹرویو کرکے پوچھنا چاہوں گا کہ وہ اس قدر انسانیت دشمن کیوں ہیں ؟ ہمارا کام ہے سوال کرنا اور مکرر عرض ہے کہ کسی کا انٹرویو کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انڈین صحافی کرن تھاپر نے پاکستان کے معاونِ خصوصی برائے نیشنل سیکورٹی معید یوسف کا انٹرویو کیا تو کیا وہ معید یوسف یا پاکستان کے ہمنوا بن گئے؟ اسامہ بن لادن نے امریکہ کے خلاف جنگ ڈکلیئر کی تھی لیکن سی این این پر ان کے انٹرویوز اور بیانات چلتے رہے۔ یہ تو نئے پاکستان میں عجیب ریت بن گئی ہے کہ ریاست تو کیا، حکومت کے مخالفین کے انٹرویوز بھی نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

ریاستی اداروں یا پی ٹی آئی حکومت کے اس جابرانہ رویے کی تو سمجھ آتی ہے لیکن اب کیا سیاسی جماعتیں بھی ہم پر یہ قدغنیں لگانا چاہتی ہیں کہ ہم ان کے ماضی کے حریفوں کے انٹرویوز نہ کریں۔ ماضی میں جانا ہو تو پھر حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبدﷲ عبدﷲ بھی حکمت یار کی طرح مجاہد تھے۔ پھر زاہد خان کو ان کے انٹرویو، پر اعتراض کیوں نہیں؟ ماضی ہی میں رہنا ہے تو پھر تو مولانا فضل الرحمٰن بھی افغان طالبان کے حامی رہے۔

پھر اے این پی ان کی سربراہی میں قائم اتحاد کا حصہ کیوں ہے؟ ﷲ کے بندو کچھ تو عقل اور منطق سے کام لیا کرو۔

Source: Jung News

Read Urdu column Hikmat Yar Taliban aur Bekhabar Siasatdan By Saleem Safi

Leave A Reply

Your email address will not be published.