حور اور لنگور! – عطا ء الحق قاسمی

میں نے بعض میاں بیوی کے مزاج میں اتنی ہم آہنگی دیکھی ہے کہ آہستہ آہستہ ان کی شکلیں بھی آپس میں ملنا شروع ہو جاتی ہیں حتیٰ کہ زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد وہ بہن بھائی لگنے لگتے ہیں اور یوں بھاء جی اور باجی کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ میں نے ایسے ایک دو نہیں کئی میاں بیوی دیکھے ہیں جن میں اختلاف نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہوتی اور وہ ہر مسئلے پر مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے جو اچھے ہیں یہ پتا کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ ان میں سے زیادہ اچھا کون ہے۔ چنانچہ کسی حسنِ سلوک پر آپ مشکل میں پڑ جاتے ہیں کہ بھاء جی اور باجی میں سے کس کا شکریہ ادا کریں۔

اسی طرح منفی سوچ کے حامل میاں بیوی کے مزاج کی ہم آہنگی کی وجہ سے بھی یہ اندازہ لگانا آسان نہیں رہتا کہ ان میں سے زیادہ زہریلا کون ہے، زیادہ کنجوس کون ہے اور زیادہ کمینہ کون ہے؟ چنانچہ اس جوڑے کی کسی بدسلوکی پر اپنا ردعمل To whom it may concernکی صورت میں ظاہر کرنا پڑتا ہے، تاہم ان ہر دو ازدواجی اقسام کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کی آپس میں نبھتی بہت ہے، ان دونوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوئی کوشش بھی نظر نہیں آتی کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوتے ہیں چنانچہ ایک خوبصورتی کو دوسری خوبصورتی سے اور ایک بدصورتی کو دوسری بدصورتی سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

اس کے برعکس کچھ جوڑے میں نے ایسے بھی دیکھے جن کے مزاج میں مشرق اور مغرب کا فرق ہوتا ہے۔ بیوی اگر فراخدل ہو تو میاں کنجوس اور میاں اگر کشادہ دل ہے تو بیوی تنگ دل، اس صورت میں جنگ و جدل کی وہ فضا دیکھنے میں آتی ہے کہ گھر پر پانی پت کے میدان کا گمان گزرنے لگتا ہے، لیکن ان میں سے جو سمجھدار ہو اسے مخالف سے سمجھوتہ کرنے ہی میں گھر کی عافیت نظر آتی ہے، اس کا نقصان یہ ہے کہ گھر میں امن ہو جاتا ہے لیکن شریکوں کی اوس پر پانی پھر جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اور یہ بات دل کو لگتی ہے چنانچہ میں نے ایسا ایسا جوڑا دیکھا ہے کہ اس وچولے پر غصہ آتا ہے جس نے حور اور لنگور کو ایک دوسرے کے دامن سے باندھ دیا اور ان والدین کی ایذا رسانی کی سمجھ نہیں آتی جنہوں نے اپنے ذوق ایذا رسانی کا نشانہ اپنی اولاد کو بھی بنایا۔ اس میں عموماً قصور حور کا ہوتا ہے اور نہ لنگور کا، کہ ہمارے ہاں شادی سے پہلے لڑکے لڑکی کی مرضی پوچھی جاتی ہے، اگر وہ ہاں کر دیں تو ان کی شادی وہاں کر دی جاتی ہے اور اگر نہ کریں تو بھی کر دی جاتی ہے۔ البتہ کچھ جانباز مرد اور کچھ جانباز عورتیں میں نے ایسی بھی دیکھی ہیں جو برضا و رغبت آنکھ دیکھی مکھی نگلتی ہیں۔ دراصل یہ عشق کا شاخسانہ ہوتا ہے جسے غالب نے خللِ دماغ قرار دیا ہے چنانچہ اس میں شکل و صورت کا فرق، عمر کا فرق یا سماجی مرتبے میں زمین آسمان کا فرق، فراق کا باعث نہیں بنتا اور یوں وصال ہو کر رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ وصال بعد میں اکثر و بیشتر انتقال کے ہم معنی نظر آنے لگتا ہے۔ دراصل عاشق کو اپنے محبوب کے چہرے کے گرد نور کا ایک ہالہ سا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے اس کے اصل خدوخال اسے دکھائی نہیں دیتے اور وہ والدین کے ارمانوں اور سماج کے ٹھیکیداروں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے خود بخود ایک دوسرے کے دامن سے بندھ جاتے ہیں یا وہ اپنے اپنے والدین کو گن پوائنٹ پر مجبور کرتے ہیں کہ انہیں خودکشی کی اس تقریب میں شامل ہونا ہی پڑتا ہے۔ شادی سے پہلے دونوں نے اپنی اپنی شخصیت کے بہترین رخ ایک دوسرے کے سامنے پیش کئے ہوتے ہیں جبکہ شادی کے بعد یہ اداکاری ممکن نہیں رہتی، چنانچہ جب محبوب کھانے کے بعد ایک لمبا ڈکار مارتا ہے اور محبوبہ گھر کے صحن میں بیٹھی کنگھی سے سر کی جوئیں نکال نکال کر انہیں ناخنوں تلے دبا کر مارتی نظر آتی ہے اور اسی طرح کے کئی دوسرے مناظر نظر آنے لگتے ہیں تو عشق کافور ہونا شروع ہو جاتا ہے اور آسمانوں پر بننے والے اس جوڑے کو زمینی حقیقتیں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں مگر اس وقت تک بہت تاخیر ہو چکی ہوتی ہے اور چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتی ہیں!

ان کے علاوہ کچھ خوش نصیب ایسے ہیں جو شادی کرتے ہی نہیں ہیں اور کچھ بدنصیب ایسے کہ جن کی شادی ہوتی ہی نہیں، میں ان میں سے کسی کو خوش نصیب یا بدنصیب قرار نہیں دے رہا بلکہ یہ ان کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ میرا ایک کنوارا (یعنی غیر شادی شدہ) دوست شادی نہ کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ بتاتا ہے کہ انسان چارپائی کے دونوں طرف سے اتر سکتا ہے، سو وہ اسی کو اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہے اور جن کی شادی نہیں ہوتی، بہت سے دوسرے گفتنی و ناگفتنی اسباب کے علاوہ وہ اپنی بدنصیبی کی ایک وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کا جنازہ جائز نہیں ہوگا۔ میں اس موضوع پر کچھ اور بھی کہنے لگا تھا لیکن مجھے خیال آیا کہ یہ موضوع طنز و مزاح کا نہیں، یہ واقعی ایک بہت بڑی بدنصیبی ہے کہ لاکھوں مرد اور عورتیں اپنے اپنے حالات کی وجہ سے ساری زندگی اکیلے بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مجھے ابھی گزشتہ روز کراچی سے ایک خاتون کا فون آیا جس کی عمر 56برس ہو چکی ہے مگر اس کے والدین نے اس کی شادی محض اس لئے نہیں کی کہ برادری سے باہر شادی ان کے خاندانی رسم و رواج کے خلاف ہے۔ یہ خاتون سکونِ قلب کے لئے مجھ سے کسی پیر فقیر کا پتا پوچھ رہی تھی، اس کے علاوہ بے شمار لڑکیاں ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں محض اس لئے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ رہی ہیں کہ ان کے والدین شادی کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہی حال بہت سے نوجوانوں کا ہے۔ سو یہ کالم جو میں نے خوشگوار موڈ میں شروع کیا تھا، افسردگی کے عالم میں اس کا اختتام کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے رستے کی دشواریاں دور کرے اور یہ لوگ اپنی زندگی کے بقیہ دن اپنے جیون ساتھی کے ساتھ گزار سکیں۔
۔

Source: Jung News

Read Urdu column Hoor aur langoor By Ata ul Haq Qasmi

Leave A Reply

Your email address will not be published.