حکمرانوں کے چٹکلے – ڈاکٹر عبد القدیر
کسی زمانے میں (ہمارے کالج کے دور میں) کراچی میں مجید لاہوری نمک دان نامی رسالہ دو آنے میں نکالا کرتے تھے۔ یہ چٹکلوں، لطیفوں سے پُر ہوتا تھااور بے حد مقبول تھا وہ مخمل میں لپیٹ کر حکمرانوں اور سیاست دانوں کو شرمندہ کرتے تھے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے مخمل نایاب ہے اور لوگ مخمل سے واقف بھی نہیں ہیں۔ اب یہ چٹکلے اور لطیفے حکمراں روز چھوڑ رہے ہیں اور عوام محفوظ نہیں سخت پریشان اور ان کی بے حسی پر رو رہے ہیں۔ ابھی بلوچستان میں قتل عام ہو اہے اور سرکاری لطیفہ یہ ہے کہ دشمنوں کو کیفرکردارتک پہنچا دیں گے۔ دن دہاڑے نوجوانوں کو قتل کیا جارہا ہے اور ان کے والدین و بہن بھائیوں سے مذاق کیا جارہا ہے۔ کم از کم ان کے اہل خانہ کو فوراً ایک کروڑ روپیہ فکسڈ ڈیپازٹ میں ڈال دیں کہ ماہانہ آمدنی کا ذریعہ بن جائے اور وہ عزّت کی زندگی گزارلیں۔ کان کن نہایت خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔ اربوں روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے مگر پتہ نہیں چلتا کہ واردات ہونے والی ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد میںدن دہاڑے ڈاکے پڑ رہے ہیں، کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ میری اپنی بیٹی 200 گز کے فاصلہ پر دو بیٹوں کے ساتھ رہتی ہے‘ اس کے گھر میں دن کے ڈیڑھ بجے بندوقیں تانے ڈاکو آگئے اور سب کچھ لوٹ کر لے گئے، کسی کی نیند نہیں اُڑی اور نہ ہی ریاست مدینہ قائم کرنےکا دعویٰ کرنے والوں کے کان پر جوں رینگی کہ اِس شخص نے 22,20 کروڑ لوگوں کو حفاظت و سلامتی دی ہے۔
ہم روز کشمیرکا گلاکرتے ہیں کہ 2 کو 3 کو شہید کردیا‘ اپنے گریبان میں بھی تو جھانک کر دیکھو کہ ان سے دس گنا‘ بے گناہ لوگوں کا خون ہوتا ہے۔ روز بیگناہ لوگ کھلے عام لوٹے اور قتل کئے جاتے ہیں۔ ہزارہ برادری سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے مگر مجرموں کی آج تک پکڑ نہیں ہوئی اور نہ ہی مقتولین کے لواحقین کو حوصلہ اور ان کو مناسب معاوضہ دیا گیا کہ وہ صبر کرکے خاموش زندگی گزارسکیں۔ اگر ان کی حفاظت نہیں کرسکتے تو ان کے علاقے کے چاروں طرف 12 فٹ اونچی دیوار بنا دو، اندر مارکیٹ، اسکول اور دکانیں کھول دو، اندر فیکٹریاں لگادو کہ وہ عزّت سے اور باحفاظت رہ سکیں۔ نا علماء، نا اساتذہ، نا تاجر اور نا مزدوراس دور میں محفوظ ہیں حقیقت یہ ہے کہ انسان مجبور ہوجاتا ہے کہ کہے کہ اس حکومت سے نااہل حکومت پچھلے 70 سال میں اس ملک پر مسلط نہیں کی گئی۔ ہم ایک ایٹمی اور میزائل قوّت ہیں روز لائن آف کنٹرول پر ہندوستانی ہمارے شہریوں اور جوانوں کو شہید کرتے رہتے ہیں اور ہماری طرف سے اس کی تصدیق کے لئے بیان آتا ہے کہ ان کی چوکیاں تباہ کردیں، ان کی توپیں خاموش کردیں۔ ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہے کوئی مسلمان ممالک (سوائے ترکی اور ملیشیا صرف ڈاکٹر مہاتیر کے زمانے میں) ہمارا ساتھ نہیں دے رہا۔ مغربی ممالک خاموش تماشہ دیکھ رہے ہیں اور دیکھتے رہیں گے۔
آج آپ کی خدمت میں بہت ہی اہم اور تشویشناک بات کرنے کی ہمّت کررہا ہوں۔ ملکی حالت کا آپ کو پورا علم ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ہر پانچواں شخص بیروزگار اور فاقہ کشی کا شکار ہے۔ درآمدات، برآمدات سے دگنی ہیں اور ملک کا نظام غیرممالک میں مقیم پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے فنڈز سے چل رہا ہے اور جو کمی ہے وہ WB, IMF اور مغربی ممالک سے قرض لے کرپوری کی جا رہی ہے۔ حکومت اور تمام ادارے ایک ہی زبان بول رہے ہیں۔ قانون کی فراہمی اور امن و امان کی صورت حال میں بہتری نہیں بلکہ بدتری آ رہی ہے۔ نہ آپ کی جان و مال محفوظ ہے ، نہ آپ کو انصاف مل رہا ہے اور نہ ہی ملنے کی اُمید ہے۔ حکمرانوں کے خیالات اور تصورات یکجا ہوگئے ہیں اور یہ ملک کے لئے سخت خطرہ ہے۔ یہ سوچ کر ڈر لگتا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم وہاں جارہے ہیں جہاں عراق، افغانستان اور لیبیا پہنچ چکے ہیں۔ عوام بُرے حالات سے بیزار ہو رہے ہیں اور مزید بیزار ہوجائیں گے، اس لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ قرض بہت بڑھ جائے گا تو ہم اس کی واپسی کے قابل نہ رہیں گے۔ ہمارے بینک کام کرنا بند کردینگے۔ ہم غیرملکی تجارت نہیں کرسکیں گے۔عوام کی مشکلات میں مزیداضافہ ہوگا۔یہ وہ وقت ہوگا جب ہمارے بین الاقوامی دشمن ہم کو وہ شرائط ماننے پر مجبور کریں گے جن کا تعلق ہمارے ملک کی سلامتی سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے ان تمام برے حالات کے باوجود اپنے ملک کی سلامتی کے لئے ہر قربانی دی ہے یہ ایٹمی صلاحیت انہی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اپنے ملک کی بقاء اور سلامتی کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائدہوتی ہے موجودہ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی بہترین صلاحیتیں ملک کی بقاء اور دشمنوںکے مذموم عزائم کو ناکام بنانے میں صرف کریں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ وقت اور صلاحیتیں جو ملک کی ترقی کے لئے استعمال کی جانی چاہئیں وہ مخالفین کو برا کہنے میں ضائع کی جارہی ہیں۔ موجودہ حکمراں جو زبان استعمال کر رہے ہیں اس کا شمار بھی چٹکلوں میں کیا جاسکتا ہے جبکہ ہمارے حالات سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔
ﷲ پاک اس ملک پر رحم فرمائے۔ بس یہی کہوں گا:
لوگو! دعا کرو کہ گزر جائے خیر سے
آثار کہہ رہے ہیں بُرا یہ بھی سال ہے
Read Urdu column hukmaranon k chutkalay by Dr Abdul Qadeer khan