ہم اپنے بچوں کے قاتل ہیں – جاوید چوہدری
میرے بیٹے نے چند دن پہلے مجھ سے ایک عجیب سوال کیا‘ اس نے پوچھا ’’آپ نے کبھی سوچا آپ کے بچے آپ کی عزت کیوں کرتے ہیں‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’دنیا کے تمام بچے اپنے والدین کی عزت کرتے ہیں‘ میں باپ ہوں اور باپ کی حیثیت سے مجھے عزت کی سہولت (Privilege) حاصل ہے‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’ہرگز نہیں‘ دنیا کے ہر بچے کا کوئی نہ کوئی ماں باپ ہوتا ہے اور ضروری نہیں ہوتا تمام بچے ان کی دل سے عزت کرتے ہوں لیکن ہم کرتے ہیں‘‘ میں نے پھر ہنس کر جواب دیا ’’میں کیسے فیصلہ کر سکتا ہوں آپ لوگوں کی محبت جینوئن ہے اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ کم نہیں ہو گی؟‘‘
وہ بھی ہنسا اور پھر بولا ’’ہم اس ایشو کو سائیڈ پر رکھتے ہیں اور میں آپ کو بتاتا ہوں ہم آپ کی عزت کرتے کیوں ہیں؟‘‘ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’آپ نے ہمارے پورے ایجوکیشنل کیریئر کے دوران ایک بار بھی ہماری مارک شیٹ نہیں دیکھی‘ آپ نے ہمیں کم نمبرز لینے پرڈانٹا نہیں اور کبھی زیادہ نمبرز پر تالی نہیں بجائی‘ ہم اپنی مرضی سے سبجیکٹ تبدیل کر لیتے تھے‘ اسکول اور کالج بھی بدل لیتے تھے اور فیل بھی ہو جاتے تھے لیکن آپ نے کبھی برا نہیں منایا جب کہ ہمارے تمام کلاس فیلوز کے والدین آدھے آدھے نمبرز کا حساب بھی رکھتے تھے اور ہمارے سامنے ان کو پھینٹا بھی لگا دیتے تھے‘ ہمارے کلاس فیلوز جب بھی آپ کو دیکھتے تھے تو وہ ہم سے کہتے تھے یار تم چند دنوں کے لیے اپنا ابا ہمیں نہیں دے سکتے؟ ہم جوتے کھا کھا کر تھک گئے ہیں‘ ہمیں اس وقت اندازہ ہوا آپ کو ہم پر اندھا اعتماد ہے‘ آپ ہمیں نمبرز اور پوزیشن سے بالاتر سمجھتے ہیں‘‘۔
میں نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’آپ لوگوں کو غلط فہمی ہے مجھے آپ کے کیریئر یا ایجوکیشن سے دل چسپی نہیں تھی‘ دنیا کا ہر والد اپنے بچوں کے بارے میں حساس ہوتا ہے‘ اولاد کی فکر والد کے ڈی این اے میں شامل ہوتی ہے‘ میں بھی پریشان ہوتا تھا لیکن میں دوسرے والدین کی طرح آپ کو پوزیشن یا نمبرز لینے کے لیے اسکول نہیں بھیجتا تھا‘ لرن(Learn) کے لیے بھجواتا تھا‘ اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا کام بچوں میں لرننگ کی صلاحیت پیدا کرنا ہوتا ہے۔
ایک کلاس کے اندر فرض کریں 30اسٹوڈنٹس ہیں‘ ان میں سے لازمی طور پر کچھ آرٹسٹ ہوں گے‘ قدرت نے انھیں مصوری‘ میوزک‘ اداکاری‘ انٹیریئر ڈیکوریشن یا ڈریس ڈیزائننگ کے لیے بنایا ہوگا‘ ان کو بائیالوجی‘ میتھ یا پاک اسٹڈی میں کیا انٹرسٹ ہو گا‘ کچھ قدرتی بزنس مین ہوں گے‘ انھوں نے آگے چل کر بڑی بڑی کمپنیوں اور برینڈز کی بنیاد رکھنی ہو گی‘ ان کو اردو‘ انگریزی‘ تاریخ اور جغرافیے میں کیا دل چسپی ہو گی‘ کچھ لوگوں نے آگے چل کر نیلسن مینڈیلا اور عبدالستار ایدھی بننا ہوگا‘وہ فزکس‘ کیمسٹری اور لٹریچر میں کیا دل چسپی لیں گے اور قدرت نے ان میں سے کچھ کو اسپورٹس مین بنایا ہوگا ‘ ان بے چاروں کو بور لیکچرز میں کیا دل چسپی ہو گی۔
یہ ہر امتحان میں کم نمبرز لیں گے لیکن کیا ہم انھیں ناکام سمجھیں گے؟ جی نہیں چناں چہ اسکولوں کا کام نمبروں کی بنیاد پر بچوں کی گریڈنگ کرنا نہیں ہوتا‘ کسی بچے کو بڑا اور دوسرے کو چھوٹا‘ ایک کو لائق اور دوسرے کو نالائق ثابت کرنا نہیں ہوتا‘ انھیں لرننگ کی عادت ڈالنا اور ان کے قدرتی ٹیلنٹ کی پرورش ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں بدقسمتی سے تعلیمی اداروں میں یہ دونوں کام نہیں ہو رہے‘ ہم پوری کلاس کو ڈاکٹر‘ انجینئر یا آئی ٹی پروفیشنل بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس دھینگامشتی میں طالب علموں کی لرننگ کی صلاحیت بھی ماری جاتی ہے اور اعتماد بھی‘ ہمارے ننانوے فیصدا سٹوڈنٹس ’’آئی ایم فیلڈ‘‘ کی فیلنگ کے ساتھ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلتے ہیں۔
ان بے چاروں میں اعتماد ہی نہیں ہوتا اور جو باقی ایک فیصد بچ جاتے ہیں‘ وہ ’’اوور کانفیڈنس‘‘ کا شکار ہوتے ہیں‘ وہ اس فیلنگ کے ساتھ مارکیٹ میں جاتے ہیں ’’میں ٹاپر ہوں‘ میرا کوئی مقابلہ نہیں‘ مجھے مزید لرن کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں‘‘ لہٰذا ٹاپرز کو ان کا ’’اوور کانفیڈنس‘‘ مار دیتا ہے اور باقی ننانوے فیصد کو ’’میں نالائق ہوں‘‘ کا ٹیگ کھا جاتا ہے‘ میں خود بھی اسی سسٹم کی پیداوار ہوں‘ مجھے پہلی جماعت سے ایم اے تک ہر استاد نے بتایا تھا تم نالائق ہو‘ مجھے عملی زندگی میں بھی میرے کولیگ ’’جاہل‘‘ کہتے تھے چناں چہ میں جانتا تھا میرے بچوں کو اس سسٹم سے کچھ نہیں ملے گا۔
یہ سسٹم انھیں سمجھے بغیر رگڑا لگا ئے گا اور اگر میں بھی اس میں شامل ہو گیا تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہو گی لہٰذا میں نے کم از کم اپنی طرف سے آپ لوگوں کو محفوظ بنا دیا‘ آپ یہ جان گئے ہم اگر دس بار بھی فیل ہو جائیں تو ہمارا والد ہمیں جوتے نہیں مارے گا‘ یہ ہنس کر کہے گا تم کالج‘ سب جیکٹس اور ٹیچرز بدل لو اور اگر پھر بھی پڑھنے کا دل نہ کرے تو کالج چھوڑ کر اپنی مرضی کا کام شروع کر لو‘‘۔
میرے بیٹے نے ہنس کر جواب دیا ’’ہم اسی لیے آپ کی عزت کرتے ہیں‘ آپ نے ہم پر اس وقت اعتماد کیا تھا جب کوئی اسکول‘ کوئی کالج اور کوئی استاد ہمیں انسان ماننے کے لیے بھی تیار نہیں تھا‘ آپ اس وقت ہمارا واحد سہارا تھے‘ تمام ٹیچرز ہمیں برا بھلا کہتے تھے‘ ہمارے سارے کلاس فیلوز ہم پر ہنستے تھے لیکن آپ ہماری مارک شیٹ فولڈ کر کے جیب میں ڈالتے تھے‘ ہمارا ہاتھ پکڑتے تھے‘ اسکول کے گیٹ سے باہر نکلتے تھے اور ہمیں آئس کریم کھلا کر کہتے تھے‘ کوئی بات نہیں‘ ہم پھر ٹرائی کریں گے‘‘۔
آپ کو میری بات عجیب محسوس ہوگی لیکن آپ یقین کریں اولاد اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا عطیہ ہے‘ اللہ نے آپ کو صاحب اولاد بنا دیا ہے ‘ آپ پروردگار کا شکر ادا کریں اور بچوں کو نمبروں اور پوزیشنز کی ریٹ ریس (چوہا دوڑ) کا شکار نہ بنائیں‘ اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش سے پہلے اس کا مقدر‘ اس کی منزل طے کر دیتا ہے‘ ہمارے بچے نے زندگی میں کہاں جانا ہے یہ ہم جانتے ہیں اور نہ ہی دنیا کا کوئی استاد‘ کوئی کالج اور کوئی سلیبس لہٰذا آپ صرف اپنے بچوں کی گرومنگ اور لرننگ پر توجہ دیں‘ آپ نے اگر انھیں اخلاقی لحاظ سے گروم کر لیا یا ان میں لرننگ کی صلاحیت پیدا کر دی تو آپ کا کام ختم ہوگیا۔
یہ زندگی میں آگے چل کر اپنا راستہ خود بنا لیں گے لیکن اگر آپ کے بچے گروم نہیں ہوئے یا ان میں لرن کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی تو یہ خواہ ہر کلاس میں ٹاپ کرلیں یہ زندگی میں کام یاب نہیں ہو سکیں گے‘ یہ پوری زندگی اپنی ذات میں کمی محسوس کریں گے لیکن اب سوال یہ ہے گرومنگ اور لرننگ ہوتی کیا ہے؟ گرومنگ زندگی گزارنے کا سلیقہ ہوتا ہے‘ انسان کو چلنا‘ پھرنا‘ اٹھنا‘ بیٹھنا‘ بولنا چالنا‘ کھانا پینا اور رہنا سہنا کیسے چاہیے یہ ٹریننگ گرومنگ کہلاتی ہے‘ میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو گروم کرنے کے لیے ویٹر ایٹی کیٹ (Etiquette) کا کورس کروایا تھا‘ یہ 13 سال کی عمر میں سرٹیفائیڈ ویٹر تھے۔
میں نے اس کے بعد انھیں بک ریڈنگ‘ نالج ہنٹنگ‘ ایچ آر‘ بزنس اسٹارٹ اپس‘ پرسنل ہائی جین‘ کمپنی میکنگ‘ ریسورس مینجمنٹ‘ کرائسیس مینجمنٹ اور انٹیریئر ڈیکوریشن کی ٹریننگز بھی کرائیں اور انھیں پیسہ کمانے اور پیسہ استعمال کرنے کے طریقے بھی سکھائے‘ آج یوٹیوب کی وجہ سے ہر قسم کا نالج موبائل فون میں دستیاب ہے‘ کروڑوں کی تعداد میں آن لائین کورسز بھی موجود ہیں‘ آپ خود اور اپنے بچوں کو یہ کورسز کرا سکتے ہیں‘یہ یاد رکھیں ہم میں سے کوئی شخص مسئلے سے نہیں بچ سکتا‘زندگی میں مسائل مسئلہ نہیں ہوتے ‘ ان مسائل کا حل مسئلہ ہوتا ہے۔
آپ میں اگر سیکھنے (لرننگ) کی صلاحیت موجود ہو تو آپ بڑی آسانی سے اپنا ہر مسئلہ حل کر لیتے ہیں اور آپ میں اگر یہ صلاحیت نہ ہو تو آپ ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں‘ لرننگ وہ صلاحیت ہے جو طوطے کو سمجھا دیتی ہے تم نے اگر اپنی مرضی کی خوراک لینی ہے تو تمہیں یہ دو لفظ سیکھنے ہوں گے‘ میاں مٹھو یا چوری دو یا اللہ ہو اور یہ دو تین لفظ سیکھ کر اپنی خوراک کا بندوبست کر لیتا ہے یا آپ کے گھر کی بلی یہ سیکھ لیتی ہے میں نے اگر دودھ لینا ہے تو مجھے اپنی مالکن یا مالک کے ہاتھ پر پیار سے سر رگڑنا ہو گا یا آپ کا پالتو کتا یہ سیکھ جاتا ہے میں اگر گول گول گھوموں گا یا صاحب کی پھینکی ہوئی بال اٹھا لائوں گا تو صاحب میری گردن پر پیار سے ہاتھ بھی پھیرے گا اور مجھے گوشت کا ٹکڑا بھی دے گا۔
دنیا کو آپ سے کیا چاہیے‘ آپ نے دنیا کو کیسے متاثر کرنا ہے اور آپ نے نامساعد حالات میں اپنے آپ کو کیسے برقرار رکھنا ہے؟ یہ سمجھنا لرننگ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے ہمارے بچوں میں یہ صلاحیت پیدا نہیں کر پا رہے‘یہ ان کو نالائقی کا تمغہ دے کر گھر بھجوا دیتے ہیں اور یہ ہمارے سسٹم کی سب سے بڑی خرابی ہے‘ ہم اپنے بچوں کے قاتل ہیں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Hum Apnay Bachon k Qatil hain By Javed Chaudhry