ہم چین سے یہ ہی سیکھ لیں – جاوید چوہدری
دنیا میں ایک دور برف کا بھی تھا‘ پورا کرہ ارض منجمد تھا اور انسان برفوں میں خوراک کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا‘ اس زمانے میں صرف وہ جانور اس کے ساتھی تھے جو برف توڑ کر نیچے دبی خوراک نکال لیتے تھے‘ آدھی خوراک جانور کھا جاتے تھے اور آدھی انسان‘ قدرت نے جانوروں کو خوراک کی تلاش کی زیادہ مضبوط حس دے رکھی ہے‘ یہ خوراک کی تلاش میں نکلتے تھے اور انسان چپ چاپ ان کے پیچھے چل پڑتا تھا۔ ”رین ڈیئر“ جلد خوراک تلاش کر لیتے تھے اور آسانی سے برف بھی توڑ لیتے تھے چناں چہ انسان جہاں ”رین ڈیئر“ دیکھتا تھا یہ اس کے پیچھے چل پڑتا تھایوں انسان برف کے زمانے میں رین ڈیئر کے پیچھے روس سے الاسکا‘الاسکا سے امریکا اور ہندوستان سے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ چلا گیا۔
زمین نے کروٹ لی‘ برفیں پگھل گئیں اور زمین سات براعظموں میں تقسیم ہو گئی‘ انسان بھی سات حصوں میں منقسم ہو گئے اور ان کے درمیان رابطے منقطع ہو گئے تاہم خوراک کی فراوانی ہو گئی‘ انسان کا خیال تھا یہ اب زیادہ محفوظ ہے‘یہ زیادہ عرصہ زندہ بھی رہ سکے گا اور اسے خوراک کی کمی بھی نہیں ہو گی لیکن برفوں کے بعد ایک نئی صورت حال سامنے آئی اور انسان دھڑا دھڑ مرنے لگے‘ انسان نے تحقیق کی ‘ پتا چلا‘ یہ جنسی اختلاط کے بعد بیمار ہوتا ہے اور چند ماہ میں چل بستا ہے‘ یہ بھی معلوم ہوا مختلف انسان مختلف بیماریاں کیری کر تے ہیں اور یہ بیماریاں جنسی عمل کے دوران ایک سے دوسرے جسم میں منتقل ہو جاتی ہیں‘ دنیا میں اس انکشاف سے پہلے شادی کا تصور نہیں تھا‘ انسان جانوروں جیسی جنسی زندگی گزارتا تھا‘بیماریاں اور موت کا خوف اسے ”ایک عورت ایک مرد“ تک لے گیا‘ شادیاں شروع ہوئیں اور دنیا میں متعدی امراض کم ہو گئے‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں دنیا کے زیادہ تر امراض بیکٹیریا اور وائرس کی وجہ سے پھیلتے ہیں‘ اینٹی بائیوٹک ادویات بیکٹیریا کو ہلاک کر دیتی ہیں جب کہ وائرس پر اینٹی بائیوٹک کا اثر نہیں ہوتا‘ نزلہ‘ ڈائریا اور ایڈز وائرل ہیں جب کہ باقی امراض بیکٹیریا کی وجہ سے جنم لیتے ہیں‘وائرس کا انسان کی قوت مدافعت کے علاوہ کوئی علاج نہیں‘ وائرس ہلاک ہوتے ہیں یا پھر انسان مرتے ہیں۔
بہرحال قصہ مختصر انسان نے شادی کے انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے زیادہ تر بیماریوں پر قابو پا لیا لیکن جب کولمبس امریکا پہنچا تو یہ بیماریاں واپس آ گئیں‘ کیوں؟ کیوں کہ امریکامیں شادی کا تصور نہیں تھا اور ریڈ انڈینز چلتے پھرتے بیماریوں کے ایٹم بم تھے‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی دریافت کے بعد یہی ہوا‘ انسان ایک بار پھر مرنے لگے‘کولمبس امریکا سے انفلوئنزا لے کر آیا‘ سپین میں انفلوئنزا پھیلا اور یہ یورپ میں پانچ کروڑ جانیں لے گیا‘ انسان نے اس کے بعد وائرس اور بیکٹیریا پر کام شروع کر دیا۔
لیبارٹریاں بنیں‘ ریسرچ شروع ہوئی اور ویکسین بننا شروع ہو گئی‘ بیسویں صدی میڈیکل سائنس کی صدی تھی‘ انسان نے اس صدی میں ویکسین کے ذریعے بنیادی بیماریاں کنٹرول کر لیں اور ہم پولیو سے لے کرٹی بی‘ کالی کھانسی‘ خناق‘ تشنج اورخسرہ جیسی بیماریوں تک سے محفوظ ہو گئے‘ ہم نے اطمینان کا سانس لیا لیکن قدرت ہمیں ”معاف“ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی‘ اس نے دنیا میں نئے نئے وائرس متعارف کرانا شروع کر دیے‘ دنیا کے زیادہ تر وائرس جانوروں اور حشرات الارض میں پائے جاتے ہیں اور یہ کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کر کے انسانی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں چناں چہ انسان مسلسل بیمار ہوتا چلا جا رہا ہے اور نوول کرونا وائرس اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کرونا وائرس نیا نہیں یہ بہت پرانا ہے‘ یہ نوک دار رنگز جیسا ہوتا ہے‘ یہ مویشیوں‘ پالتو جانوروں اور چمگادڑوں میں پایا جاتا ہے اور یورپ اور ایشیا کا ہر شخص زندگی میں کم از کم ایک بار اس کا شکار ضرور ہوتا ہے‘ کرونا وائرس کی وجہ سے ہمیں ڈائریا اور سانس کی تکلیف ہوتی ہے‘ ہمارا گلا دکھتا ہے اور ہمیں خارش ہوتی ہے لیکن ہماری قوت مدافعت بہت جلد اسے پچھاڑ دیتی ہے تاہم چین سے پھیلنے والا کرونا وائرس نیا ہے لہٰذا یہ نوول کرونا کہلا رہا ہے۔
یہ پرانے کرونا سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہے‘ یہ انسانی خلیے کی دیوار پھاڑ کر اندر داخل ہوتا ہے اور چند دنوں میں پورے جسم میں پھیل جاتا ہے‘ نوول کرونا چین کے قدیم شہر ووہان سے شروع ہوا‘ یہ ساڑھے تین ہزار سال پرانا شہر ہے اور یہ چین کا ”ٹرانسپورٹ حب“ کہلاتا ہے‘ پورے چین کے لیے بسیں‘ ٹرینیں اور جہاز ووہان سے چلتے ہیں‘ ووہان میں 50 سے زائدیونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی ہیں‘ دسمبر 2019ءمیں ووہان شہرمیں کرونا وائرس کا پہلا کیس رجسٹر ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں ہزاروں کیس سامنے آ گئے یوں پوری دنیا پریشان ہو گئی۔
نوول کرونا وائرس اس وقت تک 27 ملکوں میں پھیل چکا ہے‘427لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ 20 ہزار سے زائد افراد کا علاج جاری ہے‘ 24623افراد میں نوول کرونا کے اثرات ظاہر ہو چکے ہیں‘ آپ وبا کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کرونا وائرس کی وجہ سے چین کے 14 معاشی حب میں کاروبار بند ہے جس سے چین کی معیشت کو 60 ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے‘ سٹاک ایکسچینج کریش کر چکی ہے‘ دنیا کی دس ائیرلائینز نے چین کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں‘ تجارتی سامان کے کنٹینرز اور بحری جہاز تک روک دیے گئے ہیں اور آئی فون‘ ڈزنی اور ٹیسلاجیسی کمپنیوں نے بھی چین میں اپنے دفاتر بند کردیے ہیں‘ معاشی ماہرین کے مطابق یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو چین کی معیشت بری طرح تباہ ہو جائے گی۔
یہ ایک صورت حال ہے آپ اب دوسری صورت حال بھی ملاحظہ کیجیے‘ حکومت کو دسمبرمیں نوول کرونا وائرس کی اطلاع ملی‘ چین نے فوری طور پر ووہان کو باقی ملک سے کاٹ دیا‘ شہر پوری طرح سیل کر دیا گیا‘ کوئی شخص ووہان میں داخل ہو سکتا تھا اور نہ نکل سکتا تھا‘ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو حکومت نے فوری طور پر ہسپتال کی تعمیر شروع کر دی‘ آپ کمال دیکھیے چین نے 25 ہزار سکوائر میٹر کا ہزار بستروں کا ہسپتال صرف 10 روز میں بنا دیا۔
یہ ہسپتال شیشان ہے اور یہ دنیا میں تیزی سے بننے والا پہلا بڑا ہسپتال ہے‘ یہ 23 جنوری کو شروع ہوا اور یہ دو فروری کو آپریشنل ہو چکا تھا‘ حکومت اب ایک ہزار چھ سو بستروں کا ہسپتال بنا رہی ہے‘ یہ ہسپتال بھی 15 فروری تک ایکٹو ہو جائے گا‘دوسرا حکومت نے ملک کے چوٹی کے مائیکرو بائیولوجسٹ جمع کر کے ویکسین کی تیاری بھی شروع کر دی‘ ویکسین ایک طویل اور منہگا عمل ہوتا ہے‘ سائنس دانوں کو ویکسین تیار کرنے میں دس دس سال لگ جاتے ہیں۔
ویکسین کا تجربہ جانوروں سے انسانوں تک آتا ہے لیکن چین کے سائنس دان جس طرح بیس بیس گھنٹے کام کر رہے ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے چینی دنیا میں پہلی تیز رفتار ویکسین بھی تیار کر لیں گے لہٰذا ہم اگر چین کے ردعمل کا جائزہ لیں تو ہمیں چینی قوم کو سلام پیش کرنا پڑے گا‘ ووہان چین کا ٹرانسپورٹ زون ہے‘ یہ پورے ملک کو جوڑتا ہے لیکن حکومت نے ایک حکم سے ووہان کو باقی شہروں سے کاٹ دیا اور دس دن میں ہزار بیڈز کا ہسپتال بنا کر ورلڈ ریکارڈ بھی قائم کر دیا۔
یہ ہسپتال کتنا بڑا ہے آپ اس کا اندازہ صرف اس حقیقت سے لگا لیجیے ہمارے پورے ملک میں ہزار بیڈز کا کوئی ہسپتال نہیں جب کہ دوسرا بڑا ہسپتال اگلے دس دن میں تیار ہو جائے گا‘ یہ ہسپتال دوسرا بڑا ریکارڈ ہو گا اور تیسرا ریکارڈ نوول کرونا کی ویکسین ہو گی‘ چین اگر ایک ماہ میں ویکسین تیار کر لیتا ہے اور یہ متاثرہ علاقوں کے عوام کو یہ ویکسین لگا دیتا ہے تو یہ ایک بڑا طبی معجزہ ہو گا۔مصیبتیں اور مسائل لوگوں پر بھی آتے ہیں اور قوموں پر بھی‘ ہم اگر زندہ ہیں تو ہمیں روز مسئلے بھی پیش آئیں گے اور ہم مصیبتوں کا شکار بھی ہوں گے‘ ہم انسان کسی قیمت پر ان سے بچ نہیں سکتے۔
انسان اور قوم کا اصل کمال مسائل اور مصیبتوں پر ری ایکشن ہوتا ہے‘ ہم مسئلے حل کیسے کرتے ہیں اور ہم مصیبتوں کے درمیان اپنے اعصاب‘ اپنی سوچ اور اپنے ہوش کس طرح سلامت رکھتے ہیں‘ چین پر ایک بڑا امتحان آیا‘اس کے 20 کروڑ لوگ اس وقت مختلف علاقوں میں محصور ہیں اور یہ معاشی اور تجارتی سطح پر مرغا بن چکا ہے لیکن یہ اس کے باوجود بیماری میں بھی ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کرتا جا رہا ہے اور اس نے ہسپتال اور اپنی ریسرچ سپرٹ سے بھی پوری دنیا کو حیران کر دیا جب کہ اس کے مقابلے میں ہم نے صرف یہ فیصلہ کرنا تھا ہم چین میں پھنسے طالب علموں‘ تاجروں اور سیاحوں کو پاکستان واپس لائیں یا نہ لائیں اور ہم نے اس ایک فیصلے میں پورا ہفتہ لگا دیا۔
ہم کبھی چین کی فلائیٹس بند کرتے تھے اور کبھی کھول دیتے تھے‘ ہم کبھی اپنے شہریوں کو چین میں رہنے کا حکم دیتے تھے اور کبھی ”آ جائیں“ کا عندیہ دے دیتے تھے اور یہ وہ بنیادی فرق ہے جو پاکستان جیسے ملکوں کو پاکستان اور چین جیسے ملکوں کو چین بناتا ہے لہٰذا ہم اگر زیادہ نہیں کرتے تو کم از کم ہم چین سے بحرانوں سے نکلنے اور مصیبتوں کے دوران اپنے اعصاب پر قابو رکھنے کا ڈھنگ ہی سیکھ لیں‘ ہم اپنے ہمسائے سے فیصلہ سازی کی یہ قوت ہی لے لیں‘آپ یقین کریں ہم بہت جلد ترقی کے راستے پر آ جائیں گے
Must Read urdu column Hum China se ye hi sekh lain By Javed Chaudhry