ہم کیسے انسان ہیں – جاوید چوہدری
افضل محمود ایم اے او کالج لاہور میں انگریزی پڑھاتے تھے‘ کالج کی کسی طالبہ نے ان پر ہراساں کرنے کا الزام لگا دیا‘ پرنسپل نے ڈاکٹر عالیہ رحمن کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنا دی‘ پروفیسر افضل محمود انکوائری میں بے گناہ ثابت ہو گئے‘ کمیٹی نے افضل محمود کی بے گناہی کی رپورٹ بنا کر پرنسپل کو بھجوا دی‘ پرنسپل فائل دبا کر بیٹھ گئے‘ افضل محمود روز پرنسپل آفس جاتے اور اپنی بے گناہی کا سر ٹیفکیٹ جاری کرنے کی درخواست کرتے لیکن پرنسپل انھیں ٹال دیتے‘ یہ سلسلہ تین ماہ جاری رہا‘ طالبات اور طلباء اس دوران پروفیسر کو بدکردار قرار دیتے رہے۔
یہ اپنے کولیگز اور دوستوں میں بھی بدنام ہو گئے اور کالج کا جونیئر اسٹاف بھی انھیں مشکوک نظروں سے دیکھتا رہا‘یہ حساس انسان تھے‘ یہ ان نظروں اور فقروں کی تاب نہ لا سکے اور یہ بالآخر خود کشی کر گئے‘ پروفیسر نے انتقال سے پہلے کالج انتظامیہ اور لواحقین کے نام خط لکھا‘ یہ خط اس ملک کے دفتری نظام کا نوحہ بھی ہے اور ہماری ذہنیت کے خلاف ایف آئی آر بھی‘ آپ اگر یہ خط پڑھیں اور پھر پروفیسر کی داستان حیات سنیں تو آپ اپنے آنسو بھی نہیں روک پائیں گے اور آپ اس پورے نظام پر لعنت بھیجنے پر بھی مجبور ہو جائیں گے۔
پروفیسر افضل محمود اس ملک کے پاگل اور سفاک سسٹم کے واحد شکار نہیں ہیں‘ ہم میں سے جو بھی شخص سسٹم کے کسی بیلنے میں آ جاتا ہے وہ اس سے چورا بن کر ہی نکلتا ہے اور وہ باقی زندگی اپنی بے گناہی کا تابوت اٹھا کر پھرتا رہتا ہے اور ہرگزرنے والے سے انصاف کے گھر کا پتا پوچھتا رہتا ہے‘ ہم کس سسٹم کا شکار ہیں آپ کسی دن ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیجیے گا‘ آپ کو بدبو اور کچرے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے گا‘آپ سسٹم کا کمال دیکھیے وزیراعظم عمران خان اور صدر عارف علوی کے خلاف 2014 کے دھرنے کے دوران مقدمات درج ہوئے تھے‘ یہ صدر اور وزیراعظم بن چکے ہیں لیکن یہ مقدمات آج تک زندہ ہیں‘ جج بھی مقدمات کی سماعت کرتے ہیں اور وکلاء بھی دلائل دیتے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف نے18 اگست 2008 کو صدارتی کرسی چھوڑ دی تھی‘ ان کے خلاف بے نظیر بھٹو قتل کیس‘ اکبر بگٹی قتل کیس‘غداری اور لال مسجد آپریشن کے مقدمات بنے اور یہ مقدمات آج تک چل رہے ہیں۔
میاں نواز شریف‘ خواجہ محمد آصف‘ سردار یعقوب ناصر اورسردار مہتاب احمد عباسی نے 23 نومبر 2011کو آصف علی زرداری اور حسین حقانی کے خلاف میمو اسکینڈل پر پٹیشن دائر کی‘ یہ پٹیشن بھی آج تک زندہ ہے‘ ذوالفقار علی بھٹو کو 1979 میں پھانسی چڑھا دیا گیا ‘ آصف علی زرداری نے 2 اپریل 2011 کوبھٹو کیس ری اوپن کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا‘ یہ ریفرنس بھی آج تک سلگ رہا ہے‘ بے نظیر بھٹو کو کس نے قتل کیا‘یہ سازش کس کے گھر تیار ہوئی اور کس نے کتنا حصہ ڈالا‘ شہادت گاہ کس کے حکم پر دھوئی گئی اور رحمن ملک کی تحقیق میں کون کون سے نام اور چہرے سامنے آئے؟یہ فائل بھی 12سال سے کھلی پڑی ہے اور یہ ہر 27دسمبر کو گریہ وزاری بھی کرتی ہے‘ شریف فیملی نے 1993میں لندن کے فلیٹس لیے‘ میاں نواز شریف اس کے بعد دو بار وزیراعظم بنے اور یہ 2018 میں 1993 اور 1975کی منی لانڈرنگ میں جیل پہنچ گئے‘ یوسف رضا گیلانی 26 اپریل 2012کو اقتدار سے فارغ ہو گئے۔
یہ آج 7سال بعد بھی مقدمات بھگت رہے ہیں‘ شوکت عزیز 15نومبر 2007 کو عہدے سے سبک دوش ہو ئے‘ یہ بھی آج تک عدالتوں کو مطلوب ہیں‘ احد چیمہ کو 21 فروری 2018 کو اٹھا کر جیل میں پھینک دیا گیا‘ نیب آج تک ان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں کر سکا‘ فواد حسن فواد کو بھی 5 جولائی 2018 کو پابند سلاسل کر دیا گیا‘ یہ بھی آج تک اپنا جرم اپنا گناہ پوچھتے پھر رہے ہیں اور عطاء الحق قاسمی پی ٹی وی کے چیئرمین بن گئے‘ یہ ٹی وی پر پروگرام کی غلطی کر بیٹھے‘ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ننگی تلوار سے ہر لمبی گردن کاٹنا شروع کر دی‘ قاسمی صاحب بھی ان کی زد میں آگئے۔
پی ٹی وی عطاء الحق قاسمی کے پروگرام کے اشتہارات چلاتا تھا‘ سیکریٹری اطلاعات اور پی ٹی وی کی انتظامیہ نے بغض قاسمی میں ان اشتہارات کو کمرشل ڈکلیئر کیا‘ ان کی ویلیو نکالی اور یہ ویلیو قاسمی صاحب کے کھاتے میں ڈال دی‘ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریکوری کا حکم جاری کر دیا اور عطاء الحق قاسمی 76سال کی عمر میں اپنی فائل اٹھا کر اس عدالت سے اس عدالت میں دھکے کھا رہے ہیں‘ ثاقب نثار کا عظیم دور ختم ہو گیا لیکن عطاء الحق قاسمی کی ریویو پٹیشن کا دور کبھی ختم نہیں ہوگا‘ مجھے یقین ہے قاسمی صاحب باقی زندگی اس فائل کے ساتھ ہی گزاریں گے‘ یہ اپنے اثاثے بیچ کر وکلاء کی فیسیں دیتے رہیں گے اور یہ بھی عین ممکن ہے یہ کرپشن کے داغ کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جائیں اور ان کی اولاد والد کی فائلیں اٹھا اٹھا کر پھرتی رہے۔
آپ کسی دن عدالتوں‘ نیب‘ ایف آئی اے‘ اسپیشل برانچ اور انکوائری کمیشنوں کے بارے میں تحقیق کر لیں آپ کو فرش سے چھت تک فائلیں ہی فائلیں ملیں گی اور آپ کو کسی فائل پر ختم شد کا فقرہ دکھائی نہیں دے گا‘ ہر فائل زندہ ہو گی اور یہ شاید قیامت تک زندہ رہے گی لہٰذا ملک میں جب صدر‘ وزیراعظم‘ چار سابق وزراء اعظم‘ دو صدور اور درجنوں اعلیٰ افسروں‘ وزیروں‘ مشیروں اور سفیروں کی فائلیں کھلی رہیں گی تو پھر سرکاری اور غیر سرکاری محکمے کیوں پیچھے رہیں گے‘ ایم اے او کالج کے پرنسپل پروفیسر افضل محمود جیسے لوگوں کو بے گناہی کا سر ٹیفکیٹ کیوں دیں گے اور پروفیسر خودکشی کیوں نہیں کریں گے؟یہ ملک ایک پاگل خانہ بن چکا ہے۔
آپ کسی بھی محکمے‘ کسی بھی دفتر اور کسی بھی اتھارٹی کے قابو آ جائیں آپ وہاں سے زندہ نہیں نکل سکیں گے‘ آپ کی فائل آپ کے انتقال کے بعد بھی زندہ رہے گی اور یہ بھوت بن کرقبر میں بھی آپ کا پیچھا کرتی رہے گی‘ میں 1992میں پروفیشنل لائف میں آیا تھا‘ 1994 میں ٹیکس دینا شروع کیا اور 1997 میں ٹیکس ریٹرن جمع کرانا شروع کر دی‘ میں ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والے پرانے پاگلوں میں شامل ہوں‘ میں ٹیکس بھرنے کے 23 سالہ تجربے کی بنیاد پر دعوے سے کہتا ہوں ٹیکس ریٹرن جمع کرانا کسی اکیلے بندے کے بس کی بات نہیں‘ آپ کو ٹیکس کے ڈاکومنٹس‘ حساب اور فائلیں تیار کرنے کے لیے بھی ایک مکمل ہم زاد چاہیے اور آپ کو ٹیکس انکوائریاں بھگتنے کے لیے بھی پوری ٹیم درکار ہو گی۔
میں ہر سال رسیدوں کی پوری بوری تیار کرتا ہوں‘ بینکوں اور کریڈٹ کارڈز کے ذریعے پے منٹس کرتا ہوں‘ پیسے بھی بینک میں آتے ہیں اور میں نے اگر پورے کرہ ارض پر ایک انچ زمین بھی خریدی تو اس کا ٹیکس دیا اور ریٹرن میں شو کی مگر اس احمقانہ حد تک احتیاط کے باوجود بھی میں کبھی سکھ کا سانس نہیں لے سکا‘ مجھے سال میں آٹھ دس نوٹسز بھی مل جاتے ہیں اور میںکام چھوڑ کر وکیلوں کے پیچھے بھی بھاگتا رہتا ہوں‘ آپ سسٹم کا کمال دیکھیے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ آپ کے خلاف فیصلہ دے دیتا ہے‘ آپ ٹیکس اور جرمانہ جمع کرا دیتے ہیں لیکن آپ کا کیس پھر بھی آڈٹ میں کھل جاتا ہے‘ آپ کسی دن ایف بی آر میں جا کر دیکھیں‘ آپ کو لاکھوں کی تعداد میں فائلیں ملیں گی اور یہ فائلیں ایٹمی جنگ کے بغیر بند نہیں ہوں گی۔
میں وزیراعظم عمران خان سے تین درخواستیں کرنا چاہتا ہوں‘ آپ مہربانی فرما کر ملک میں فائلوں کی کوئی ایکسپائری ڈیٹ ضرور طے کر دیں‘ یہ تاریخ ادویات کے پیکٹ کی طرح ہر فائل پر لکھی جائے‘ فائل کی ایکسپائری ڈیٹ کے بعد موت کے فرشتوں کے علاوہ کوئی شخص‘ کوئی محکمہ یہ فائل دوبارہ نہ کھول سکے اوریہ قانون عدالت سمیت ملک کے ہر محکمے کے لیے ہو اور جو اہل کار فائل کھولنے کے بعد وقت پر انکوائری مکمل نہ کرے حکومت اس کے خلاف انکوائری بھی کرے اور اسے سزا بھی دے‘ دو‘ حکومت قانون بنا دے جو شخص اپنی شکایت یا الزام ثابت نہ کر سکے ریاست اسے وہی سزا دے گی جس کا اس نے دوسرے پر الزام لگایا تھا‘ آپ کسی تھانے یا کچہری میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں کروڑوں جھوٹی درخواستیں مل جائیں گی‘ یہ جھوٹے مقدمے لوگوں کے ساتھ ریاست کا قیمتی وقت اور انمول وسائل بھی ضایع کرتے ہیں۔
لوگ دعویٰ کرتے ہیں دوسرا فریق عرش سے فرش پر آ جاتا ہے‘ اس کا گھر بار بک جاتا ہے اورپھر اچانک مدعی اپنا مقدمہ واپس لے لیتا ہے‘ سرکاری ادارے بھی کسی کے خلاف کارروائی شروع کر دیتے ہیں وہ شخص خاندان سمیت رل جاتا ہے اور عدالت آخر میں ادارے کو برا بھلا کہہ کر اس شخص کو باعزت بری کر دیتی ہے‘ یہ کیا تماشا‘ یہ کیا حماقت ہے؟ یہ حماقت یہ تماشا بھی اب بند ہو جانا چاہیے‘ آپ جھوٹا الزام لگانے یا غلط انکوائری پر کڑی سزا دیں‘ یہ سلسلہ رک جائے گا اور آخری درخواست ایم اے او کالج انتظامیہ نے پروفیسر افضل محمود کے ساتھ ظلم کیا‘ پرنسپل کی سستی اور اذیت پسندی نے ایک پروفیسر کی جان لے لی‘ پروفیسر اگر بے گناہ ثابت ہو گیا تھا تو پرنسپل تین ماہ تک فائل دبا کر کیوں بیٹھا رہا‘ کیا فائل سے تیل نکلنا تھا۔
لہٰذا پرنسپل کی اذیت پسندی ایک بے گناہ شخص کی جان لے گئی‘ وزیراعظم کو فوراً انتظامیہ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر دینا چاہیے تھاتاکہ فائلیں دبا کر بیٹھنے کی روایت ختم ہو سکے‘ ہم آخر کس زمانے میں زندہ ہیں‘ کیا ہم یہ بھی نہیں جانتے انسان فائلوں سے قیمتی ہوتے ہیں اور سسٹم انسانوں کے لیے بنائے جاتے ہیں‘ انسان سسٹم کے لیے نہیں لیکن ہم لوگوں کو سانس تک نہیں لینے دیتے‘ ہم انھیں زندہ نہیں رہنے دیتے‘ہم انھیں فائلوں کے قبرستانوں میں زندہ درگور کردیتے ہیں‘ ہم کیسے انسان ہیں؟۔
Must Read urdu column Hum kesay insan hen By Javed Chaudhry