ہم پھر سے ویسے ہو جائیں گے – جاوید چوہدری
بچی کی آواز میں تپش تھی‘ وہ مسکرا کر کہہ رہی تھی ’’کیا ہم کل سے دوبارہ ویسے ہو جائیں گے‘‘ اور میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا‘ وہ بارہ تیرہ سال کی لڑکی تھی‘ روشن آنکھوں اور چمکتی جلد والی بچی۔
میں روز رات بلیو ایریا کی ایک کافی شاپ سے کافی لیتا ہوں‘ میں عموماً شاپ کا آخری گاہک ہوتاہوں‘ عملہ مشین بند کرنے سے پہلے دروازے کی طرف دیکھتا رہتا ہے‘ میں جوں ہی اندر داخل ہوتا ہوں یہ لوگ مسکراتے ہیں اور کافی بنانا شروع کر دیتے ہیں‘ میں کل رات شاپ میں داخل ہو رہا تھا اور وہ بچی اپنے والد کے ساتھ باہر آ رہی تھی‘ اس نے مجھے دیکھا اور جذباتی آواز میں بولی’’ انکل لاک ڈاؤن ختم ہو رہا ہے‘ کیا ہم کل سے دوبارہ ویسے ہو جائیں گے‘‘ میں رک گیا اور میں نے اس کے والد کی طرف دیکھ کر کہا ’’ہاں شاید‘‘ والد نے قہقہہ لگایا اور میرے لیے راستے چھوڑ دیا‘ میں اندر داخل ہو گیا لیکن بچی دروازے پر کھڑی ہو کر میری طرف دیکھتی رہی‘ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا‘ وہ بولی ’’لیکن میں ویسا نہیں ہونا چاہتی‘ کورونا کی لائف اچھی ہے‘‘ میری ہنسی نکل گئی اور میں نے بچی سے کہا ’’مگر بیٹا یہ لائف آپ کے ابو کو پسند نہیںہے‘‘ بچی کے والد نے دوسری بار قہقہہ لگایا اور وہ دونوں کافی شاپ سے باہر نکل گئے لیکن شاپ کا دروازہ دیر تک اندر باہر‘ اندر باہر کھلتا اور بند ہوتا رہا‘ میرے ذہن میں بھی بے شمار دروازے کھلتے اور بند ہوتے رہے‘ مجھے محسوس ہوا لاک ڈاؤن کے خاتمے اور دنیا کھلنے کے بعد وہ وقت بہت جلد آ جائے گا جب ہم سب ان دنوں کو یاد کیا کریں گے اور ایک دوسرے سے کہا کریں گے ’’واہ واہ! وہ بھی کیا دن تھے‘‘ ہم کورونا کے ان دنوں کو مس کیا کریں گے اور دوبارہ قرنطینہ میں بیٹھنے کی کوشش کیا کریں گے۔
ہم ایک دوسرے سے کہا کریں گے کورونا کتنا اچھا تھا‘ یہ ہمارا کتنا بڑا دوست‘ کتنا بڑا محسن تھا‘ یہ آیا اور ہمیں بتا گیا تم ایک مصنوعی اور مشینی زندگی گزار رہے تھے اور تم اگر سکھی اور خوش گوار زندگی گزارنا چاہتے ہو تو تمہیں کورونا ڈیز کی طرف لوٹنا ہوگا‘ ان دنوں کی طرف جن میں پوری دنیا کی ریٹ ریس (چوہوں کی دوڑ) بند ہو گئی تھی‘ انسان ‘انسان بن گئے تھے‘ وہ دن انسانوں کو روزبتاتے تھے اچھی زندگی گزارنے کے لیے زیادہ نہیں چاہیے ہوتا‘ ہمارے کندھوں پر جتنا بوجھ کم ہوتا ہے ہمارا سفر اتنا ہی اچھا‘ اتنا ہی رواں گزرتا ہے‘ ہم زندگی کو اتنا ہی زیادہ انجوائے کرتے ہیں۔
میں نے کافی لی اور باہر آ گیا‘ سڑک پر لاک ڈاؤن کے خاتمے کے آثار کھل کر بہہ رہے تھے‘ گاڑیاں گاڑیوں کے تعاقب میں دوڑ رہی تھیں‘ روشنیاں چمک رہی تھیں‘ آوازوں کی تپش بھی بڑھ رہی تھی اور لوگ بھی ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے بھاگتے نظر آ رہے تھے‘ چوہوں کی دوڑ تھوڑی تھوڑی ابھرتی اور چلتی بھاگتی دکھائی دے رہی تھی‘ مجھے بچی کا خدشہ درست محسوس ہوا‘ ہم واقعی بہت جلد ویسے ہو جائیں گے‘ مطلبی‘ ٹینس‘ ایک دوسرے کو روند کر گزرنے کے خواہش مند‘ انبار پر انبار لگانے والی چیونٹیوں جیسی زندگی گزارنے والے اور لاشوں میںروزی تلاش کرنے والے گورکن‘ بس چند دن کی بات ہے اور ہم ایک بار پھر انسان سے جان دار بن جائیں گے‘ جبلتوں کی کرچیوں پر زندگی گزارنے والے جان دار‘ خوراک‘ سیکیورٹی اور جنس تک محدود جان دار‘ ہمارا معاشرہ چند دن بعد پھر جنگل بن جائے گا‘ ایک ایسا جنگل جس میں چھوٹے جانور بڑے جانوروں کا رزق بن جاتے ہیں۔
جانور خود کو بچانے کے لیے دوسرے جانوروں کو مار دیتے ہیں اور میل جانور فی میل اور فی میل جانور سارا دن میل جانوروں کی تلاش میں پھرتی رہتی ہیں‘ ہم بے شک پھر ویسے ہو جائیں گے‘ باؤلے‘ پاگل‘ بدمست اور حریص‘ میں کافی کا کپ لے کر فٹ پاتھ پر چل رہا تھا اور سوچ رہا تھا اللہ تعالیٰ نے کورونا کی شکل میں کتنا بڑا پیغام ہمارے لیے اتارا تھا‘ کورونا نہ آتا تو شاید ہمیں لاکھوں سال تک یہ معلوم نہ ہو پاتا زندگی گزارنے کے لیے ہماری ضروریات انتہائی کم ہیں‘ دو وقت کا کھانا‘ تھوڑی سی رقم‘ تھوڑے سے کپڑے‘ ایک آدھ جوتا‘ ایک دروازہ‘ ایک کھڑکی اور چھوٹا سا گھر‘ بس ہم انسانوں کو اس سے زیادہ نہیں چاہیے ہوتا‘ ہم شاید لاکھوں برس تک نہ جان پاتے گھر کا کھانا کتنا لذیذ‘ کتنا اچھا ہوتا ہے‘ باپ بچوں اور بچے باپ کے لیے کتنے لازم ہوتے ہیں‘ قہقہے بھی کتنے ضروری ہوتے ہیں اور خوش رہنے کے لیے آنسو بھی چاہیے ہوتے ہیں‘ ہم شاید لاکھوں برس تک یہ نہ جان پاتے دنیا کا سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے‘ باقی سب الوژن‘ سب زبانوں اور تعصبات کا ٹکراؤ ہے۔
سرحدیں اور میری تیری زمین کا جھگڑا بھی فضول اور بکواس ہے اور ہم شاید لاکھوں برس تک یہ بھی نہ جان پاتے اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں بھی فالتو ہیں‘ دفتر‘ فیکٹریاں اور منڈیاں بھی بکواس ہیں اور دانش اور فکر کا انبار بھی جگالی کے سوا کچھ نہیں‘ ہم سب مصنوعی زندگی کے مصنوعی کردار ہیں اور بس۔ ساری زندگی بیل کی طرح دائرے میں چکر لگا کر گزار دیتے ہیںاور آخر میں دائیں بائیں دیکھ کر کہتے ہیں بس یہ تھی زندگی! ہم سب جانتے ہیں لیکن ہم کیوں کہ خسارے کے سوداگر ہیں۔
لہٰذا ہم جانتے بوجھتے لاک ڈاؤن کھلتے ہی ایک بار پھر ویسے ہی ہو جائیں گے‘شکاری‘درندے اور اپنی ناک کو اونچا رکھنے کے متمنی لیکن ایک بات ہے‘ ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر یہ حقیقت ہے دنیا میں ریس‘ تقابل اور آگے پیچھے رہ جانے کا خوف اس سے بڑا کوئی بکواس نہیں‘ دنیا میں شاپنگ سے بڑا الوژن بھی کوئی نہیں‘ برانڈ کی بے معنی دوڑ سے بڑا پاگل پن بھی کوئی نہیں‘ عبادت گاہوں جیسی بڑی غلط فہمی بھی کوئی نہیں اور ’’میں تم سے زیادہ رئیس‘ تم سے زیادہ امیر ہوں‘‘ اس سے بڑی حماقت بھی کوئی نہیں‘ قدرت نے ہماری زندگی صرف چند اصولوں پر کھڑی کی تھی‘ تھوڑی سی خوراک‘ دو جوڑے کپڑے‘ جوتوں کا ایک جوڑا‘ چند قہقہے‘ ایک دوسرے کی ہیلپ اور گھر کا سکون اور بس مگر ہم نے یہ اصول توڑ کر اپنی زندگی کو الجھا ہوا گچھا بنا دیا‘ہم نے زندگی کو زندگی نہ رہنے دیا۔
میں چلتا جا رہا تھا اور سوچتا جا رہاتھا ’’کیا ہم کورونا سے کچھ سیکھیں گے؟‘‘ مجھے محسوس ہوا شاید ہم میں سے کچھ لوگ ضرور سیکھ جائیں اور یہ لوگ اپنی زندگی سے شاپنگ‘ ریستورانوں کے کھانے‘ عبادت گاہیں‘ دوڑ اور سٹریس نکال دیں گے جب کہ باقی؟ ہاں جب کہ باقی لاک ڈاؤن کے بعد ویسے ہی ہو جائیں گے‘باؤلے اور سرپٹ دوڑتے گھوڑے! سڑکوں پر ایک بار پھر ٹریفک ہوجائے گی‘ روز ایکسیڈنٹس ہوں گے اور لوگ مریں گے‘ لوگ ایک بار پھر قسطوں کے ہاتھوں ذلیل ہوں گے‘ نوکریوں کی تلاش اور دوسروں کے سروں پر کھڑے ہونے کی دوڑ بھی شروع ہو جائے گی۔
ساس کو بہو اور بہو کو ساس پھر بری لگنے لگے گی‘ ہم گھروں پر گھر‘ پلاٹس پر پلاٹس اور گاڑیوں پرگاڑیاں خریدتے چلے جائیں گے اور شادی بیاہ‘ سال گرہ اور انتقال پر ایک بار پھر ’’روٹی کھلے‘‘ گی اور لوگ جانوروں کی طرح دیگوں پر پل پڑیں گے‘ لوگ ایک بار پھر زن‘ زر اور زمین کے لیے لڑیں گے اور مرتے اور مارتے چلے جائیں گے‘ لوگ ایک بار پھر جنازوں اور نمازوں کے دوران ایک دوسرے کی جیب کاٹیں گے‘ انسان ایک بار پھر یہودی‘ عیسائی‘ ہندو‘ مسلمان اور بودھ میں تقسیم ہو جائیں گے‘ مسلمان ایک بار پھر شیعہ اور سنی ہو جائے گا اور اسے اپنا اسلام دوسرے کے اسلام سے زیادہ سچا اور کھرا محسوس ہونے لگے گا‘ پنجابی‘ سندھی‘ بلوچی اور پشتون کی چھریاں بھی باہر آ جائیں گی اور مقدموں اور جھگڑوں کی پٹاریاں بھی ایک بار پھر کھل جائیں گی۔
ہم سب ویسے ہی ہو جائیں گے۔میں چلتے چلتے ایف ٹین مرکز کے قریب پہنچ گیا‘ لاک ڈاؤن ختم ہو چکا تھا‘ لوگ دکھائی بھی دے رہے تھے اور ایک دوسرے کے گلے سے بھی لٹکے ہوئے ‘ تھے ہم ویسے ہوتے جا رہے تھے لیکن مجھے اس کے باوجود نہ جانے کیوں محسوس ہوا لاک ڈاؤن کے بعد شاید دنیا میں چند چیزیں بدل جائیں‘ شاید ریستورانوں کی صنعت کو دھچکا لگ جائے‘ شاید تعمیرات کی انڈسٹری آہستہ ہو جائے‘ شاید گاڑیوں کی صنعت بیٹھ جائے اور شاید تعلیمی اداروں کا بزنس سلو ہو جائے لیکن جہاں تک ہم انسانوں کا تعلق ہے تو ہم ویسے ضرور ہوں گے‘ ہم ٹام اور جیری کا کھیل ایک بار پھر ضرور شروع کریں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم وہ جانور ہیں جو جب تک اپنے ہم نسل‘ اپنے ہم پرواز کا خون نہ چکھ لے اسے اس وقت تک سکون نہیں ملتا‘دراصل ہمارے خون میں مقابلہ اور ریس موجود ہے۔
ہم جب تک دوسرے انسان کا گلا نہ کاٹ لیں‘ ہم اسے خاک نہ چٹوا لیں ہمیں اس وقت تک آرام نہیں ملتا‘ ہمیں اس وقت تک سکون نصیب نہیں ہوتا چناں چہ ہم چند دنوں میں ایک بار پھر ویسے ضرور ہوں گے‘ ہم اپنا لہو ضرور چاٹ کر رہیں گے لیکن یہ بھی طے ہے ہم باقی زندگی اپنی نسلوں کو یہ بھی بتاتے رہیں گے ہماری زندگیوں میں ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب ہمارے اردگرد کوئی مقابلہ‘ کوئی ریس نہیں تھی‘ ہم میں سے کسی نے نہیں جیتنا تھا‘ ہم میں سے کسی نے نہیں ہارنا تھا‘ ہم بس سکون‘ بس آرام سے بیٹھے تھے‘ دنیا کی آخری بلبل‘ کائنات کی آخری تتلی کی طرح اور ہمارے بچے حیرت سے پوچھیں گے دادا جی وہ گولڈن ٹائم کہاں سے آیا تھا؟ اور ہم اداس ہو کر کہیں گے بیٹا اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی کی اصلیت بتانے کے لیے ایک فرشتہ بھجوایا تھا‘ کورونا‘ وہ آیا‘ اس نے ہمیں اکٹھا کیا اور زندگی کا مطلب سمجھانا شروع کر دیا لیکن ہم بڑے بدبخت ہیں‘ ہم نے اسے ویکسین کے پتھر مار کر بھگا دیا اور ہم اس کے بعد ایک بار پھر ویسے ہو گئے جیسے ہمیں نہیں ہونا چاہیے تھا۔
Must Read urdu column Hum Phir se Waise ho jayen gay by Javed Chaudhry