ہمارے یہ مہاتما ’’خود‘‘- عطا ء الحق قاسمی
زندگی میں چاہے جتنے بھی غم اور پریشانیاں ہوں، ان کا ایک ہی حل ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوںسے ملیں۔ ان میں سے کچھ نہیں خاصی تعداد میں آپ کو ایسے لوگ ملیں گے کہ آپ کچھ دیر کے لئے اپنی پریشانیاں بھول جائیں گے اور ان کے مضحکہ خیزرویوں سے محظوظ ہوں گے یہ لوگ زیادہ تر وہ ہوں گے۔جنہوں نے خود کو ایسےوکٹری اسٹینڈ پر کھڑا کر رکھا ہے جوان کے خیالات کا وزن برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہےبلکہ اکثر ٹوٹ جاتا ہے ایک شاعر نے اپنا شعری مجموعہ مجھے فیلپ لکھنے کے لئے دیا۔ میں ان کی شاعری کے حوالے سے جتنا زیادہ سے زیادہ جھوٹ بول سکتا تھا وہ اپنی توفیق سے بھی زیادہ بولا، مگر وہ ناراض ہو گئے ،موصوف مجھے ملے اور کہا کہ آپ نے مجھے ایک بڑا شاعر قرار دیا مگر اقبال اور غالب سے میرا موازنہ کرتے ہوئے آپ کو موت پڑتی تھی۔بس وہ دن اور آج کا دن ، ان کا وکٹری اسٹینڈ بہت کم عرصے میں ان کا وزن برداشت کرنے سے انکاری ہو گیا اور اس کے بعد وہ ان مزاحیہ شوز میں نظر آنے لگے، جن میں ان کے ہم عصر مخولئے انہیں باقاعدہ جوتے مار کر لوگوں کو ہنساتے تھے۔ انہوں نے کسی زمانے میں اپنے فن اور شخصیت کے حوالے سے ایک کتاب’’ مہاتما بدھ ‘‘لکھوائی تھی۔ جسے یار لوگوں نے ’’مہاتما خود‘‘ کا نام دے ڈالا۔
مگر اس طرح کے لوگ ہر شعبہ زندگی
میں آپ کو ملیں گے ، آپ ان سے ملیں۔آپ انجوائے کریں گے، میں اس ضمن میں کچھ مثالیںپیش کرتا ہوں۔ہاتھ ملانا اگرچہ فن نہیں، مگر اس میں بہت سے ’’صاحب اسلوب‘‘ لوگ موجود ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ ہاتھ ملانے کے بجائے اپنی ڈھیلی ڈھالی انگلیاں نہایت بے دلی سے آپ کے ہاتھ میں یوں دیتے ہیں کہ ان نیم جاں انگلیوں پر صرف HANDLE WITH CAREکی چٹ لگوانے کی کسر رہ جاتی ہے ۔ میں نے جب کبھی ایسے ہاتھ سے ہاتھ ملایا ہے مجھے یوں لگا جیسے کسی نے مرا ہوا چوہا میرے ہاتھ میں تھما دیا ہو۔ میں اس متلا دینے والے اظہار پر معذرت خواہ ہوں، مگر کیا کہا جائے کہ ایسے لوگ بھی تو ایسا ہاتھ ملاتے وقت معذرت خواہ نہیں ہوتے۔ ہاتھ ملانے والوں کی دوسری قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے ۔ جنہوں نے اسی ہاتھ میں سگریٹ کی ڈبیا اور ماچس تھامی ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ پورے ہاتھ کے بجائے صرف انگشت شہادت سے ’’ہاتھ ‘‘ ملاتے ہیں۔
میرے ایک دوست کو اس صورت میں بہت جھنجھلاہٹ ہوتی ہے اور وہ مجھ سے اکثر استفسار کرتے ہیں ، کہ انگشت شہادت سے ہاتھ ملانے والوں کو کس طرح شہادت کے مرتبے پر فائز کیا جا سکتا ہے۔
ان دو قسموں کے علاوہ ہاتھ ملانے والوں کی ایک قسم یکسر جداگانہ بھی ہے یہ لوگ کچھ اتنے جوش و خروش سے ہاتھ ملاتے ہیں کہ ایسے مواقع پر باقاعدہ ’’وے چھڈ میری بینی نہ مروڑ‘‘ گانے کو جی چاہتا ہے ہاتھ ملانے والوں کی ایک ’’نسل‘‘ اور بھی ہے اور یہ نسل ان لوگوں پر مشتمل ہے جو سخت مصروفیت کے باوجود ہاتھ ملانے کی وضعداری نبھاتے ہیں۔مثلاً اگر یہ تیزی سے کاغذپر کچھ لکھنے میں مشغول ہیں اور ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ قلم ہاتھ سے رکھ کر آپ سے ہاتھ ملا سکیں تو وہ ’’مصافحے ‘‘ کے لئے اپنا قلم آگے بڑھا دیتے ہیں۔ اگر قلم قیمتی ہے تو پھر میرے نزدیک ایسے مصافحہ میں اور پھر اس کے فوراً بعد وہاں سے رفو چکر ہونے میں کوئی حرج نہیں۔اسی طرح کچھ لوگ کھانا کھانے کے دوران بھی اگر کوئی ہاتھ ملانے والا آ جائے تو اسے مایوس نہیں کرتے چنانچہ وہ اپنی مٹھی آپ کے ہاتھ سے مس کر کے دوبارہ مصروف طعام ہو جاتے ہیں ۔ کئی لوگ کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے مرحلہ میں ہوتے ہیں اور دوسروں کے
ہاتھ میں گیلے ہاتھ دینے کو آداب کے منافی سمجھ کر اپنی کہنی اس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں کہ تم بھی کیا یاد کرو گے، لو عیش کرو۔ ہمارے درمیان ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سرے سے اس قسم کے جھنجٹ ہی نہیں پالتا۔ یہ صاحبان اقتدار کا طبقہ ہے اور اس طبقہ کے لوگ اپنی مثالی تربیت کے طفیل یہ نکتہ پا گئے ہیں کہ ہماشما سے ہاتھ نہیں ملانا چاہئے کہ اس سے گونا گوں مسائل پیدا ہوتے ہیں چنانچہ جو آداب شاہی سے واقف ہیں وہ بوقت ملاقات اپنا ہاتھ ماتھے پر اور اپنا ماتھا فرش تک لے جاتے ہیں اور دل کی مرادیں پاتے ہیں۔ مگر جو ناواقف آداب شہنشاہی ہوتے ہیں ۔بڑی ڈھٹائی کے ساتھ میز کے اس سرے سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیتے ہیں۔ جو بمشکل ان کی میز کے چوتھائی حصہ تک پہنچ پاتا ہے اور یوں فضا میں ہی معلق ہو کر رہ جاتا ہے جس طرح آوازیں فضائوں میں موجود رہتی ہیں اور کبھی ضائع نہیں ہوتیں اسی طرح اگر ان صاحبان اقتدار کی طرف بڑھنے والے ہاتھ بھی فضائوں میں محفوظ رہ جائیں اور انہیں کسی خوردبین کی مدد سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ کروڑوں ہاتھ ان ’’مہاتما خود‘‘ مخلوق کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
Source: Jung News
Read Urdu column Humaray yeh mahatma khud By Ata ul Haq Qasmi