ابنِ بطوطہ دوئم کا سفرنامہ – سہیل وڑائچ

Sohail Warraich

میں شمس الدین تنجی المعروف ابنِ بطوطہ اول کی آٹھویں پشت سے ہوں اس لئے ابنِ بطوطہ دوئم کہلاتا ہوں۔ ابنِ بطوطہ اول (1304تا1369) ہندوستان اور اس علاقے میں آیا تھا اس کے سفر نامے عجائب الاسفار میں یہاں کے بادشاہوں، حالات و واقعات، فصلوں، پھلوں اور معیشت کا حال ملتا ہے۔

میں جوان ہوا تو مجھے بھی شوق پڑا کہ اپنے جدِ امجد کی طرح انہی علاقوں کی سیروسیاحت کروں جہاں ابنِ بطوطہ اول نے کی تھی۔

سیاحت کے شوق میں اس علاقے میں آ گیا ہوں، اب ایک ماہ سے کورونا کی وجہ سے یہاں مقیم ہوں، مراکش میں میرا خاندان سخت پریشان ہے لیکن میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ تضادستان کے حالات اس قدر دل چسپ ہیں کہ میں سفر نامے کے لئے معلومات اکٹھی کئے بغیر واپس نہیں آئوں گا۔

میں نے اپنی بیوی کو ایک تفصیلی خط لکھا ہے جس میں اپنے اور اپنے جدّ کے سفرناموں کا تقابل بھیجا ہے اس خط کے چند اقتباسات مسلمان بھائیوں کے پیشِ خدمت ہیں۔

سلطان محمد تغلق کا تغلق آباد اور آج کا مسلم آباد

ابنِ بطوطہ جب ہندوستان آیا تو سلطان محمد بادشاہ تھا، دارالحکومت تغلق آباد تھا، ابنِ بطوطہ نے لکھا ہے کہ بادشاہ کا اصلی نام جونہ خان تھا مگر بادشاہ ہونے کے بعد اس نے اپنا نام ابو المجاہد محمد شاہ رکھ لیا۔

یہ بادشاہ خونریزی اور جابجا سخاوت میں مشہور ہے۔ کوئی دن خالی نہیں جاتا کہ کوئی فقیر امیر نہیں بن جاتا اور کوئی دن ایسا نہیں جب کوئی زندہ آدمی قتل نہیں کیا جاتا (صفحہ 125باب 5، عجائب الاسفار از شیخ ابن بطوطہ) آج کل ملک کا دارالحکومت مسلم آباد ہے، کورونا وبا کے باوجود وزراء اور افسروں کی کاریں سڑکوں پر رواں دواں ہیں، اب بھی یہاں خان ہی حکمران ہے، 7سو سال گزر گئے یہاں خان یا خان جیسے ہی حکمران ہوتے تھے، ابنِ بطوطہ آیا تو جونہ خان تھا میں آیا تو عظیم خان حکمران ہے۔

’’جونہ خان‘‘ بہت ظالم تھا مگر آج کے دور میں ظلم وستم ختم ہو چکا ہے، اب زندہ لوگوں کو مارنے کا رواج ختم ہو چکا ہے، اب ہر روز کسی نہ کسی مخالف کو جیل بھیجا جاتا ہے، بادشاہ وقت کے درباری بہت خوش ہیں کہ ہر مخالف کا ٹھکانہ جیل ہے اس لئے دور دور تک کسی مخالفت کا امکان نہیں ہے۔

علماء کا اثرورسوخ

ابنِ بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں محمد بن تغلق کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ علمائے اسلام کی بہت قدر کرتا تھا شیخ رکن الدین ملتانی کو اس کے دربار میں رسوخ حاصل تھا۔

سات سو سال سے اس خطے میں یہی روایت جاری ہے علماء کا ایک طبقہ حکمرانوں میں بہت رسوخ کا حامل ہو جاتا ہے اور پھر وہ وقت کے بادشاہوں کی ہر غلط یا صحیح بات لوگوں کو ماننے پر تیار کرتا ہے۔

سلطان محمد تغلق نے فقیہ عفیف الدین کاشانی، شیخ ہود، شیخ حیدری اور شیخ تاج العارفین کو قتل کروا دیا، اب قتل کروانے کی نوبت نہیں آتی البتہ جو ناپسند ہوتا ہے اس کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلا کر غداری اور کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں، اس کو گالیاں دی جاتی ہیں اور اگر کوئی اس مہم سے متاثر ہو کر مشتعل ہو جائے اور اسی کی بےعزتی کر دے یا مارپیٹ کر دے تو اسے سراہا جاتا ہے۔

شاہی دسترخوان تب اور اب

ابنِ بطوطہ (صفحہ 133۔134)نے لکھا ہے کہ بادشاہ کے محل میں دو طرح کا کھانا ہوتا ہے ایک خاص اور دوسرا عام۔ بادشاہ کے کھانے میں بھنا ہوا گوشت، چاول، مرغ، شربت اور مٹھایاں شامل ہوتی تھیں، بادشاہ اپنے کھانے میں سب لوگوں کو شریک کرتا تھا نقیب، دیوان اور خادم ہر ایک شخص کو وہی کھانا دیتے تھے جو بادشاہ خود کھاتا تھا۔

700سال گزرنے کے بعد میں مسلم آباد آیا تو ایک ایسے وقت میں بادشاہ سے ملا جب کھانے کا وقت تھا، مجھے بہت بھوک لگی تھی، توقع تھی کہ ابھی دسترخوان لگے گا اور مزیدار کھانے سے لطف اندوز ہوں گا مگر کیا دیکھتا ہوں کہ کھانے سے لبالب بھری صرف ایک پلیٹ آئی، بادشاہ نے مزے لیکر اس کو اکیلے ہی کھایا میں اور باقی حاضرین منہ دیکھتے رہ گئے۔ بعد میں مجھے ایک درباری نے بتایا کہ معاشی بدحالی کی وجہ سے اب مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا جاتا، ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ موجودہ بادشاہ جب شہزادہ تھا تب بھی کسی کو کھانا نہیں کھلاتا تھا۔

انصاف کا دربار

741ہجری میں سلطان محمد تغلق نے سوائے زکوٰۃ اور عشر کے سب محصول معاف کر دیے تھے، 700سال بعد میں مسلم آباد پہنچا تو یہاں کورونا وائرس نے حملہ کر رکھا ہے اس لئے موجودہ خان نے بھی جونہ خان کی طرح انصاف کا دربار لگاتے ہوئے سب ٹیکس معاف کر دیے ہیں، ہر غریب کو مالا مال کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے، 50لاکھ گھر دیے جائینگے، بجلی سستی ہوگی، آٹا وافر ملے گا وغیرہ وغیرہ (میں حیران ہوں یہ صرف خالی وعدے ہیں یا یہ پورے بھی ہونگے؟)

صحافت کی آزادی

ابنِ بطوطہ نے جونہ خان المعروف محمد شاہ تغلق کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ بہت ظالم تھا مگر اس نے 700سال پہلے بھی تغلق آباد میں ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ ہر واقعہ کی سچی خبر بادشاہ تک پہنچتی رہے وہ اپنے خبرنگاروں کی حفاظت کرتا تھا 700سال بعد خبرنگاری اور صحافت کا سارا نظام خراب ہو چکا ہے، بادشاہ کو سچی خبر لیجانے والا کوئی نہیں اگر کوئی خبرنگار بادشاہ کے سامنے سچے حالات سنا دے تو بادشاہ کے حواری اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ میرے ہوتے ہوئے اخباری دنیا کے ایک بڑے مالک اور صحافی کو پکڑ لیا گیا اس کا بھائی شدید بیمار تھا صحافی لاکھ کہتا رہا مرنے سے پہلے مل لینے دو مگر اسے اجازت نہ ملی، صحافی کا بھائی دنیا سے چلا گیا۔ بادشاہ کو پھر بھی حالات کا احساس دلانے والا کوئی نہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ بادشاہ اکیلا ہو رہا ہے۔

وزراء کا چال چلن

محمد بن تغلق اپنے وزراء اور امراء کے احوال کی خوب خبر رکھتا تھا، 700سال بعد اب بھی مسلم آباد میں یہی روایت جاری ہے، وزراء کے ٹیلی فون ریکارڈ کئے جاتے ہیں، ان کی نجی باتیں بھی سنی جاتی ہیں، بادشاہ وزراء کے بارے میں رپورٹس سن کر ان سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ شوگر اور آٹا بحران کے حوالے سے تحقیقات آگے بڑھی ہیں مگر فی الحال بادشاہ اس رپورٹ کو عوام کے سامنے لانے کو تیار نہیں ہیں۔

نوٹ:

خط کے چند اقتسابات درج کئے ہیں باقی تفصیل سفرنامے میں درج کروں گا میں ابنِ بطوطہ دوئم مسلم آباد اور تضادستان کے باشندوں کے کھلے دل اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوا ہوں، یہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں، دولت کمانا چاہتے ہیں لیکن سب ظاہری طور پر دولت سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر کوئی امریکہ جانا چاہتا ہے لیکن ظاہری طور پر سب امریکہ سے نفرت کرتے ہیں، سب نفسا نفسی کے خلاف ہیں مگر عملی طور پر سب نفسا نفسی میں مبتلا ہیں۔

غیبت کو سب بڑا گناہ سمجھتے ہیں مگر ہر وقت غیبت کرکے اس کا مزہ لیتے ہیں۔ سچ کو اچھا سمجھتے ہیں مگر اپنا کام جھوٹ سے چلاتے ہیں۔ فحاشی اور بےحیائی کے سخت خلاف ہیں مگر دنیا میں سب سے زیادہ فحش فلمیں یہیں دیکھی جاتی ہیں غرضیکہ یہ واقعی تضادستان ہے باقی باتیں اگلی دفعہ

Source: jang News

Must Read Urdu column Ibn e Batoota Doem ka SafarNama By Sohail Warraich

Leave A Reply

Your email address will not be published.