عمران خان کا پہلا اچھا فیصلہ – جاوید چوہدری
پشاور میٹرو اکتوبر 2017 میں شروع ہوئی تھی‘ ابتدائی تخمینہ 49ارب روپے تھا اور حکومت کا خیال تھا یہ ایک سال میں میٹرو مکمل کر کے اس پر بسیں چلا دے گی‘ آج دوسال اور دو ماہ ہو چکے ہیں‘ بجٹ سو ارب روپے سے اوپر جا چکا ہے لیکن میٹرو مکمل نہیں ہوئی‘ 220 بسیں بھی خرید لی گئی ہیں۔
یہ بسیں کھڑی کھڑی خراب ہو تی چلی جا رہی ہیں‘ ہم سب اس نالائقی‘ نااہلی اور حماقت پر عمران خان کی مذمت کر رہے ہیں‘ حکومت کو میٹرو کی تاخیر کا ذمے دار بھی قرار دیا جا رہا ہے جب کہ حقیقت میں معاملہ یہ نہیں‘ میٹرو کی تاخیر کی ذمے دار حکومت نہیں بیورو کریسی ہے‘ آپ کو میری بات نے یقینا چونکا دیا ہو گا‘ مجھے بھی جب یہ حقیقت معلوم ہوئی تھی تو میں بھی اسی طرح چونک گیا تھا‘ میری پچھلے ہفتے کے پی کے صوبے کے ایک اعلیٰ افسر کے ساتھ ملاقات ہوئی‘ یہ صاحب بی آر ٹی کو ڈیل کرتے ہیں۔
میں نے ان سے میٹرو میں تاخیر کی وجہ پوچھی تو انھوں نے ہنس کر ہاتھ سینے پر رکھا اور بولے ’’میٹرو نہیں بن رہی‘ اس کے ذمے دار ہم ہیں‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ یہ بولے ’’پاکستان میں پہلی میٹرو کس نے بنائی تھی‘‘ میں نے جواب دیا ’’میاں شہباز شریف نے‘‘ وہ سر کو دائیں سے بائیں ہلا کر بولے ’’نہیں نہیں‘ میں افسر پوچھ رہا ہوں‘‘ میں نے جواب دیا ’’احد چیمہ اس کا آرکی ٹیکٹ بھی تھا اور بانی بھی‘‘ وہ بولے ’’پھر اس کا کیا حشر ہوا‘‘ میں نے افسوس سے جواب دیا ’’یہ 22ماہ سے جیل میں پڑا ہے‘‘ وہ بولے ’’فواد حسن فواد کا جرم بھی یہی تھا‘ یہ بھی حکومت کا ہر منصوبہ فوراً مکمل کر دیتا تھا۔
ہم نے ان کے انجام سے سبق سیکھا جو بھی افسر حکومت کا کوئی منصوبہ وقت پر مکمل کر دے گا وہ سیدھا جیل جائے گا چناں چہ ہم افسروں نے فیصلہ کیا ہم نہ میٹرو مکمل کریں گے اور نہ جیل جائیں گے‘آپ دیکھ لیں حکومت جس کو بھی میٹرو کی ذمے داری سونپتی ہے‘ وہ چپ چاپ اپنا وقت گزارتا ہے‘ ریٹائر ہو کر گھر چلا جاتا ہے۔
ٹرانسفر کرا لیتا ہے یا پھر چھٹی لے کر ملک سے باہر نکل جاتا ہے‘ وہ منصوبہ مکمل کرنے کی غلطی نہیں کرتا‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولے ’’آپ کو میری بات عجیب لگے گی لیکن آپ یقین کر لیں جب تک بی آر ٹی مکمل نہیں ہوتی ہم عزت کے ساتھ اپنے دفتروں اورگھروں میں بیٹھے ہیں‘ آپ لکھ لیں جس دن پہلی بس چل پڑی‘ اس دن یہ کیس کھل جائے گا اور منصوبہ مکمل کرنے والے تمام لوگ اندر ہو جائیں گے‘ یہ باقی زندگی ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری عدالت میں دھکے کھاتے گزاریں گے‘‘۔
مجھے ان کی بات سن کر جھرجھری آ گئی‘ آپ بھی غور کریں گے تو آپ کو بھی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی محسوس ہو گی‘ یہ بات ہے رسوائی کی لیکن یہ ہے بہرحال سچ۔ ہم نے اس ملک کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں اب ہر قسم کے لوگ کام کرنے سے گھبراتے ہیں‘ مجھے شاہد خاقان عباسی نے خود بتایا تھا’’ کارکے‘‘ کی انتظامیہ نے ثالث کے ذریعے ان سے رابطہ کیا تھا‘ یہ دس پندرہ ملین ڈالر میں اپنا کیس سیٹل کرنا چاہتی تھی لیکن انھوں نے معذرت کر لی‘ میں نے حیران ہو کر کہا ’’آپ نے ظلم کر دیا۔
عالمی عدالت ہمیں ایک دو بلین ڈالر ٹھوک دے گی‘‘ وہ بولے ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن میں اگر کیس سیٹل کر دیتا تو مجھ پر پانچ دس ملین ڈالر کک بیکس کا الزام لگ جانا تھا اور میں باقی زندگی فائل اٹھا اٹھا کر عدالتوں میں دھکے کھاتا رہتا‘‘ میں خاموش ہو گیا‘ میں نے قائم علی شاہ کے بارے میں چند ماہ قبل لکھا تھا‘ سائیں نے فرمایا تھا’’ لوگ ہمیں کچرا نہ اٹھانے پر گالیاں دے رہے ہیں‘ ہم اگر آج کچرا اٹھا دیں تو یہی لوگ ہم پر الزام لگائیں گے ہم نے ان کا قیمتی ترین کوڑا اربوں روپے میں بیچ دیا‘‘یہ ہمارے ملک کی اصل تصویر ہے اور یہ تصویر صرف حکومت اور بیورو کریسی تک محدود نہیں بلکہ غیر سرکاری ادارے‘ صنعت کار اور تاجر بھی اب اس سوچ کی لپیٹ میں آ چکے ہیں‘ ملک میں جو بھی کام کرنے کی غلطی کرتا ہے وہ عبرت کی نشانی بنا دیا جاتا ہے۔
آپ قانونی طور پر ایک دکان کھول کر دکھا دیں یا ایک چھوٹا سا کارخانہ لگا دیں‘ آپ کو یوں محسوس ہو گا جیسے آپ نے بھڑوں کا چھتا چھیڑ دیا ہو‘ پورا سسٹم ملبے کی طرح آپ پر آگرے گا‘ پوری دنیا میں سیلف میڈ ارب پتی ہیرو ہوتے ہیں‘ امریکا میں شاہد خان جیسے پاکستانیوں کے انٹرویوز شائع ہوتے ہیں‘ آرنلڈ شیوارزینگز جیسے لوگ فخر سے کہتے ہیں میں خالی جیب یہاں آیا تھا لیکن اس ملک نے مجھے ارب پتی بھی بنایا اور ہیرو بھی جب کہ پاکستان میں ترقی کرنے والا ہر شخص منہ چھپاتا پھرتا ہے۔
پورا ملک مل کر اسے کرپٹ اور بے ایمان ثابت کرنے میں جت جاتا ہے اور اس بے چارے کے لیے عزت اور جان دونوں بچانا مشکل ہو جاتی ہیں لہٰذا آج ہمارا ہر پروفیشنل اور پڑھا لکھا شخص ملک سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے‘ لوگوں کو انگریزی کے ٹیسٹ کے لیے دو دو مہینے تاریخ نہیں مل رہی‘ ہم نے کبھی سوچا ہمارے پروفیشنل کیوں بھاگ رہے ہیں؟ دو وجوہات ہیں‘ عدم استحکام اور ترقی کا خوف‘ ملک بری طرح عدم استحکام کا شکار ہے لہٰذا لوگوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے اور دوسرا لوگ دیکھتے ہیں معاشرے کا جو بھی شخص ترقی کرتا ہے وہ معاشرے اور حکومت دونوں سے جی بھر کر جوتے کھاتا ہے‘ چار سو محکمے اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں‘ وہ ایک سے جان چھڑاتا ہے تو دوسرا اس کی بوٹیاں نوچ لیتا ہے چناں چہ یہ فرار ہونے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔
آج ہمارے سیکڑوں بزنس مین‘ صنعت کار اور تاجر بھی ملک سے باہر بیٹھے ہیں‘ آپ کسی صنعت کار کو دیکھ لیں اس کی جیب میں کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ ہو گا یا یہ کسی یورپی ملک میں پراپرٹی یا کاروبار کا مالک ہو گا لہٰذا ہمیں ماننا ہوگا پاکستانی ارب پتی ہویا کروڑ پتی یہ اپنی جان‘ عزت اور سرمایہ بچانے کے لیے ملک سے باہر دوڑ رہا ہے‘اسے ملک چلتا ہوا نظر نہیں آ رہا‘ ہم اگر اس ملک کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اس صورت حال کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
عمران خان کی حکومت نے چار دن قبل پہلا اچھا فیصلہ کیا‘ حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب کے قوانین میں تبدیلی کر دی‘ نیب اب کاروباری اور صنعتی کمیونٹی کی کسی شخصیت کو گرفتار نہیں کر سکے گا‘ سرمایہ کاروں کے مقدمات متعلقہ فورمز پر جائیں گے‘ بیورو کریٹس کو بھی نیب کی گرفتاری سے باہر کر دیا گیا ہے‘ نیب 50کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن کے ٹھوس ثبوتوں کے بغیر کسی سرکاری افسر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا اور یہ کارروائی بھی اسکروٹنی کمیٹی کی اجازت سے ہو گی۔
سیاست دانوں کے احتساب کے لیے بھی نیب کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں‘ نیب کی گرفتاری کا استحقاق بھی کم کر دیا گیا‘ یہ اب پہلے تحقیقات کرے گا اور پھر گرفتاری ہو گی‘ نیب کسٹڈی بھی 90 روز سے 14 روز کر دی گئی اور یہ بھی طے ہو گیا کسی شخص کے خلاف اگر ایک مقدمہ بند ہو جائے گا تو یہ فائل دوبارہ نہیں کھل سکے گی۔
وغیرہ وغیرہ‘ اپوزیشن اس آرڈیننس کو عمران خان کا تاریخی یوٹرن اورمدر آف آل این آر او قرار دے رہی ہے‘ یہ سمجھ رہے ہیں عمران خان اپنے وزراء اور اپنے دوستوں کو بچانے کے لیے یہ آرڈیننس لے کر آئے ہیں لیکن میں اسے عمران خان کی حکومت کا پہلا اچھا فیصلہ سمجھتا ہوں‘ یہ وہ کام ہے جو پاکستان پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں اپنے اپنے ادوار میں کرنا چاہتی تھیں لیکن یہ عمران خان کے خوف کی وجہ سے یہ جرات نہ کر سکے تاہم عمران خان نے دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کر دیا‘ یہ کام بہرحال ہونا ہی تھا اور یہ ہو گیا لہٰذا اپوزیشن کواب اسے کھلے دل کے ساتھ تسلیم کر لینا چاہیے‘ اسے بغض عمران میں اس فیصلے کو ری ورس نہیں کرنا چاہیے۔
کیوں؟کیوں کہ اس کا نقصان حکومت سے زیادہ ملک کو ہو گا‘ نیب اس ملک میں خوف‘ معاشی عدم استحکام اور سیاسی توڑ پھوڑ کا آلہ بن چکا ہے‘ ہم اگر آج اس کو نہیں روکیں گے تو یہ ملک چلنے کے قابل نہیں رہے گا‘ یہ کشتی ڈوب جائے گی لہٰذا حکومت نے اپنے لیے ہی سہی مگر ایک اچھا فیصلہ کر دیا‘ اپوزیشن کو اب اس فیصلے کو مان لینا چاہیے تاکہ یہ ملک چل سکے‘ آصف علی زرداری نے سچ کہا تھا‘ معیشت اور نیب ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ نیب اگر سب کو ہی بلا لے گا تو کام کون کرے گا چناں چہ دیر آید درست آید‘ ہمیںآگے بڑھنا چاہیے۔
اس سے پہلے کہ اتنی دیر ہو جائے کہ ہم چلنے کے قابل ہی نہ رہیں‘ حساب ضرور ہونا چاہیے لیکن اس سے پہلے کتاب بھی تو ہو‘ہم پہلے کما تو لیں پھر حساب دے لیں گے‘ ہماری حالت یہ ہے ہم آج بھی سعودی عرب سے پٹرول ادھار لے رہے ہیں اور دوست ملکوں سے ڈالر لے کر اسٹیٹ بینک چلا رہے ہیں لیکن احتساب ختم نہیں ہو رہا‘ دکان چلی نہیں اور اکاؤنٹیبلٹی پہلے شروع ہو گئی چناں چہ پورا ملک جام ہو کر رہ گیا‘ میرا خیال ہے حکومت اگر اس ملک کو واقعی چلانا چاہتی ہے تو پھر اسے احتساب کے عمل کو 20 سال کے لیے روکنا ہو گا‘ ہمیں پہلے چین اور یورپ کی طرح صرف اور صرف گروتھ پر توجہ دینی چاہیے‘ ہم انفرا سٹرکچر مکمل کریں‘ لوگوں کو پھلنے اور پھولنے دیں‘ کمپنیاں بننے اور فیکٹریاں لگنے دیں‘ ملک کو بزنس اور انویسٹمنٹ فرینڈلی بنائیں‘ احد چیمہ جیسے بیورو کریٹس کو عزت دیں۔
سرکاری افسروں کو منصوبے مکمل کرنے کا ٹاسک دیں اور جو افسر وقت پر پراجیکٹس مکمل کر دیں ان کو ہیرو بنائیں اور ہم جب دنیا کی دس بڑی اکانومیز میں شامل ہو جائیں تو بے شک ملک میں ٹکٹکیاں لگا دیں‘ ہم بے شک سارے کرپٹ لوگوں کو پکڑ لیں‘ ہم پہلے کماد کو اگ تولینے دیں‘ چوروں کو بھی پھینٹا لگا لیں گے‘ہم آخر شہر بسانے سے پہلے کب تک چوروں کو تلاش کرتے رہیں گے‘ ہمیں کسی نہ کسی جگہ تو عقل کو ہاتھ مارنا ہوگا اور عمران خان نے بہرحال یہ کام کر دیا‘ وہ کام جو نوازشریف اور آصف علی زرداری خواہش کے باوجود نہیں کر سکے لہٰذا میں اس فیصلے پر حکومت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں‘ ویل ڈن عمران خان۔
Must Read urdu column Imran khan ka Pehla Acha Faisla By Javed Chaudhry