امتیاز علی تاج سے تحسین فراقی تک – اوریا مقبول جان
مجھے اندازہ تک نہیں تھا کہ اٹھارہ سال بعد اس ادارے کے حوالے سے ایک بار پھر قلم اٹھانا پڑے گا۔ پہلی دفعہ اکتوبر 2003ء میں اپنے قلم کو اپنے ہی ساتھی بیوروکریٹس کے خلاف تلوار بنانا پڑاتھا۔ ’’مجلسِ ترقی ادب‘‘کے سربراہ اس وقت احمد ندیم قاسمی تھے۔ایک ’’ہونہار‘‘ بیوروکریٹ جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، انہوں نے احمد ندیم قاسمی صاحب سے کہا، ’’آپ کو اندازہ ہے کہ ایک کپڑے کی دکان کا تاجر چند تھانوں سے اپنے کاروبار کا آغاز کرتا ہے اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ یا تو بہت بڑی فیکٹری کا مالک بن جاتا ہے، یا پھر اس کی دکان ایک بہت بڑے سپر سٹور میں تبدیل ہو جاتی ہے اور دوسری طرف آپ ادیب لوگ ہیں کہ پچاس سال سے اس ادارے کے سربراہ ہیں، ہر سال کتابیں چھاپتے ہیں اور ایک پیسے کا منافع کما کر نہیں لاتے‘‘۔یہ جو جملے اس عظیم شاعر، افسانہ نگار اور ادیب کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہوگئے تھے، میرے 11اکتوبر 2003ء کے کالم میں موجود ہیں اور اب تو کالموں کے مجموعے میں ’’حنوط‘‘ ہو چکے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی جنہیں یہ قوم صرف 25ہزار ماہانہ تنخواہ دیتی تھی، انہوں نے یہ فقرے سنے ، ڈبڈباتی آنکھوں سے ایک کاغذپر استعفیٰ لکھا اور گھر لوٹ گئے۔ لیکن اس استعفے سے جو طمانچہ بحیثیت بیوروکریٹ میں نے اپنے منہ پر محسوس کیا، اس کا درد میں نے ہزار میل دور کوئٹہ میں بیٹھ کر محسوس کیا۔ کالم تو ایک نوحہ تھا جو لکھ دیا، لیکن بے چینی کے عالم میں شاید میں نے ہر اس شخص سے رابطہ کیا جو اس ’’جرم‘‘ کی سیاہی بیوروکریسی کے چہرے سے دھو سکتا تھا۔ چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ تھے، ’’ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے تھے‘‘۔
ہر لکھنے والا مضطرب تھا اور ہر ادب دوست کی آنکھ پر نم تھی۔ نہ صرف قاسمی صاحب سے معذرت کی گئی، بلکہ چودھری پرویز الٰہی نے اس ادارے کا بجٹ بڑھایا اورساتھ میں قاسمی صاحب کی خدمت میں پیش کئے جانے والے ’’حقیر‘‘ ماہانہ نذرانے میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا ۔ مال روڈ اور ڈیوس روڈ کے سنگھم پر واقع یہ متروکہ وقف عمارت ’’نر سنگھ داس ولا‘‘ ہے، جسے 30ستمبر 1950ء کو دو بڑے علمی اداروں کے لیئے وقف کیا گیا۔یہ ادارے ہیں ’’ادارہ ثقافتِ اسلامیہ‘‘ اور ’’مجلسِ ترقی ادب‘‘۔انار کلی ڈرامے کے خالق امتیاز علی تاج مجلس ترقی ادب کے پہلے سربراہ بنے ۔ ان کے بعد اس عہدے کو پنجاب یونیورسٹی کے صاحبِ علم وائس چانسلرپروفیسر حمید احمد خان نے زینت بخشی اور پھر احمد ندیم قاسمی ۔ان قد آور شخصیات کی وجہ سے یہ ادار ہ دنیا بھر میں ایک مینار کی طرح قد آور نظر آتا رہا۔ اس نرسنگھ داس ولا کے سامنے والے لان کے ایک حصے میں فاطمہ جناغ پارک بنا دیا گیا تھا،جبکہ لان کا باقی حصے میں سے وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں سے 1992ء میں اس میں سے ساڑھے چار کنال رقبہ ’’نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے نام الاٹ کردیا۔ قانون کی رو سے وزیر اعلیٰ کو متروکہ وقف عمارت کے کسی بھی حصے کو الاٹ کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا۔ اس وقت کے سول سروس کے اعلیٰ عہدے دار خاموش رہے، حتیٰ کہ وہ سیکرٹری انفارمیشن و کلچر جو اس ٹرسٹ کا وارث و نگہبان تھا، اس نے بھی آنکھیں بند رکھیں۔ اب میری قسمت میں اس حوالے سے ایک اور میدانِ کار زار لکھا تھا۔ شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے اور میں سیکرٹری انفارمیشن و کلچر۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے کرتا دھرتاؤں کی نظریں باقی ماندہ زمین اور عمارت پر لگی ہوئی تھیں۔ مجھے شہباز شریف صاحب نے ایک دن بلا کر کہا کہ یہ زمین ہم نے ٹرسٹ کو الاٹ کرنا ہے ، آپ کوئی راستہ نکالیں۔ میں نے دفتر میں آکر کاغذات دیکھے تو حیرت میں گم ہو گیا کہ ’’نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘کو پہلے سے الاٹ کی جانے والی زمین بھی غیر قانونی ہے۔ میں نے 30اکتوبر 2008ء کو ایک سمری وزیر اعلیٰ کو بھجوائی جس میں لکھاکہ نہ صرف یہ کہ آپ ایک وقف زمیں کو کسی دوسرے کو الاٹ کرنے کا اختیارنہیں رکھتے بلکہ قانونی پوزیشن یہ ہے کہ آپ اپنے پیش رو غلام حیدر وائیں کی غیر قانونی الاٹمنٹ بھی فوراً ختم کر دیں۔ اس سمری کے بعد جو پارہ چڑھااور میری اس گستاخی پر جو تلملاہٹ اور غصہ تھا وہ اگلی کئی میٹنگوں کے دوران میں بڑھتا چلا گیا اور پھر ایک دن ایک میٹنگ میں تلخ کلامی کے بعد مجھے سیکرٹری انفارمیشن و کلچر کے عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ شہباز شریف صاحب قانون کی رمز پہچانتے تھے اس لیئے انہوں نے وہ سمری بغیر دستخط کئے واپس بھیج دی اور مجلس ترقی ادب اور ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کی یہ عمارتیں، نظریہ پاکستان کے کرتا دھرتاؤں کی تیز رفتار گاڑی کے پہیے تلے روندے جانے سے بچ گئیں۔
میری لڑائی کا ایک اور منطقی فائدہ یہ بھی ہوا کہ قاسمی صاحب کے انتقال کے بعد ان کی جگہ پاکستان کی ادبی برادری نے مشورے سے مشہور شاعر اور خوبصورت ادیب شہزاد احمد کو مجلس ترقی ادب کا سربراہ لگایا تھا اور بار بار مجھ پر ان کی تبدیلی کے لیئے دباؤ ڈالا جاتا تھا، جسے میں کبھی مذاق میں ٹالتا اور کبھی سنجیدگی سے منع کر دیتا،لیکن میری یہ لڑائی اتنی زبان زدِ عام ہوئی کہ شہزاد احمد صاحب بھی محفوظ رہ گئے۔ ان کے انتقال کے بعد ایک دفعہ پھر لاہور کی ادبی برادری نے مشورہ کیا تو قرعہ فال ڈاکٹر تحسین فراقی کے نام نکلا۔ تحسین فراقی ادب کی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ میں جب ایران میں تھا تو وہ وہاں تہران یونیورسٹی میں اقبال پڑھایا کرتے تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں جہاں کہیں بھی اردو اور فارسی پڑھی اور لکھی جاتی ہے تحسین فراقی کا نام کسی صاحبِ علم کے لیئے اجنبی نہیں۔ گذشتہ دنوں وہ ایک معاملے میں خاصے پریشان تھے۔ ’’نرسنگھ داس ولا‘‘کی زمین اور عمارت پر جو نظریں گذشتہ تین دہائیوں سے لگی ہوئی تھیں، انہوں نے اب ایک اور راستہ ڈھونڈ نکالا تھا کہ ان عمارتوں کو گرا کر ایک شاندار کثیر المقاصد اور کثیر المنازل عمارت تعمیر کی جائے۔ میں نے تحسین فراقی صاحب سے کہا کہ مال روڈ اور دیگر لاہور کی عمارات ہمارا ورثہ ہیں اور بحیثیت ڈائریکٹر جنرل محکمہ آثارِ قدیمہ میں نے ان عمارتوں کو گرا کر جدید قالب میں ڈھالنے کے خلاف دو بار لڑائی لڑی ہے ۔ پہلی عمارت ہائی کورٹ تھی جس کے چیف جسٹس افتخار حسین اس کو گرا کر جدید عمارت بنانا چاہتے تھے اور ایک حصہ گرابھی چکے تھے اور دوسری ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج کی تھی، جسے جنرل جاوید حسن گرا کر اس کی جدید تعمیر نو کرنا چاہتے تھے۔
یہ دونوں لڑائیاں2006ء میں عدالتی اور انتظامی سطح پر میں نے لڑیں اور اللہ نے نصرت دی۔ میں نے تحسین فراقی کو اپنے تجربے کی بنیاد پر اس تیسری جنگ میں انکا ساتھ دینے کا یقین دلایا ہی تھا کہ چند دن بعد پنجاب حکومت نے تحسین فراقی کو بالکل غیر اخلاقی اور غیر قانونی طور پر ہٹا دیا، ابھی ان کے کنٹریکٹ کا ایک سال رہتا تھا۔ ان کی جگہ آنے والا ’’میانوالی‘‘ کا منصور آفاق بھی میرا دوست ہے، اچھا شاعر ہے، کالم نگار ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اگر منصور آفاق کو خود بھی یہ فیصلہ کرنے دیا جائے کہ یہ نشست جس پر امتیاز علی تاج ، احمد ندیم قاسمی، پروفیسر حمید الدین احمد خان اور شہزاد احمد جلوہ افروز رہے، وہاں تحسین فراقی سے بہتر کوئی اور ہے تو میرا گمان یہ ہے کہ وہ بھی تحسین فراقی کے حق میں ہی فیصلہ کرے گا۔ لیکن شاید معاملہ گمراہ کن حد تک خراب کر دیا گیا ہے۔ ’’تحریکِ انصاف‘‘ میں خان صاحب کے گرد منڈلاتا ہوا پاکستان کا وہ سیکولر لبرل طبقہ جو سوشل میڈیا کی گھٹیا شاعری پڑھ کر جوان ہوا ہے، اس کے نزدیک گدھے اور گھوڑے میں کوئی تمیز ہی نہیں۔ جو لوگ میر، غالب، اقبال، فیض اور فراز کے نام پر جعلی شعر سوشل میڈیاپر پڑھتے اور شیئر کرتے ہوں، انہیں کیا علم کہ ادب کی دنیا میں عزت و توقیر کن ناموں سے وابستہ ہے۔لگتا ہے اس فیصلے سے پی ٹی آئی کے کرتا دھرتاؤں کی جہالت نے انا کا روپ دھار لیا ہے۔ جہالت جب سکۂ رائج الوقت ہو جائے اور اس کے خلاف علم اٹھانا فرض بنتا ہے۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Imtiaz Ali Taaj se Tehseen Faraqi Tak By Orya Maqbool jan