انقلاب کا کیڑا- جاوید چوہدری
یہ دس سال پرانی بات ہے‘ میرے پاس ایک صاحب تشریف لائے‘ وہ بھی پاکستان کا مقدر بدلنے کے ماہر تھے‘ وہ بھی سمجھتے تھے پاکستان میں بے تحاشا پوٹینشل ہے اور ملک میں اگر ایک نیک نیت شخص آ جائے تو پاکستان پانچ سال میں یورپ کے برابر ہو جائے گا‘ میں نے ان سے عاجزی سے پوچھا ’’لیکن یہ ہوگا کیسے؟‘‘
ان کا فرمانا تھا’’ ملک پر چور مسلط ہیں‘ ہم نے جس دن کسی نیک نیت‘ صاف ستھرے اور ایماندار شخص کو عنان اقتدار دے دی یہ ملک راکٹ کی طرح ٹیک آف کر جائے گا‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’مگر وہ ایمان دار شخص کرے گا کیا؟‘‘ وہ پورے یقین کے ساتھ بولے ’’ہم دنیا میں سب سے زیادہ صدقہ خیرات دیتے ہیں لیکن ہم میں سے ٹیکس ایک فیصد بھی نہیں دیتے‘کیوں؟ کیوں کہ لوگوں کو قیادت پر اعتماد نہیں‘ ہمارے ملک میں جس دن کوئی مرد مومن آگیا لوگ ریاست کو کھل کر ٹیکس دیں گے‘‘ وہ رکے اور بولے ’’ دوسرا میں سمجھتا ہوں ملک کے صرف پانچ ہزار لوگوں کے دماغ میں خناس بھرا ہے‘یہ بے ایمان اور اینٹی پاکستان ہیں‘ ہم اگر یہ سر گردنوں سے اتار دیں تو یہ ملک چند دن میں ٹھیک ہو جائے گا‘‘
میں ڈر گیا اور میں نے ان سے عرض کیا ’’یہ پانچ ہزار لوگ کون ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے’’ یہ سیاستدان‘ سرمایہ کار‘ بیورو کریٹس‘ جج‘ جرنیل اور آپ جیسے صحافی ہیں‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’ہمیں امام خمینی جیسا کوئی انقلابی لیڈر چاہیے‘ وہ آئے اور سروں کی پکی فصلیں کاٹ دے اور آپ اس کے بعد تبدیلی دیکھیے گا‘‘ میں ڈر گیا اور بڑی دیر تک ان کی طرف دیکھتا رہا اور حیران ہوتا رہا۔
میں بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے معافی بھی مانگنا چاہتا ہوں‘ میں بھی جنرل پرویز مشرف کی آمد تک ان جیسا ہی تھا‘ مجھے بھی سروں کی پکی فصلیں دکھائی دیتی تھیں‘ میں بھی انقلاب فرانس اور انقلاب ایران کا داعی تھا اور میں بھی سمجھتا تھا ہمیں امام خمینی جیسا کوئی راہبر‘ کوئی لیڈر چاہیے‘ میں ایسا کیوں تھا؟ اس کی تین چار وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ میرا دیہاتی پس منظر تھا‘ ہم لوگ نسلوں سے آزاد کسان ہیں‘ ہم تاریخ میں کبھی شہر آئے تھے اور نہ ہم نے کوئی بزنس‘ کوئی نوکری کی تھی اور کسان خواہ پاکستانی ہوں ‘ امریکی ہوں یا پھر روسی یہ سرکاری ملازموں اور تاجروں کو استحصالی طبقہ سمجھتے ہیں چناں چہ میں بھی دیہاتی روایات کے مطابق تاجروں اور ملازموں کے خلاف تھا۔
دوسرا میری پرورش نسیم حجازی کے ناول پڑھ کر ہوئی تھی‘ میں بچپن میں لکڑی کی تلوار اور بانس کی کمان لے کر اندلس اور فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے لالہ موسیٰ کی گلیوں میں پھرتا رہتا تھا‘ میں الیاس سیتا پوری کا فین بھی تھا اورمیں ان دونوں کی وجہ سے روز انقلاب کی کنڈی کھڑکاتا رہتا تھا‘ تیسرا میں کنویں کا مینڈک تھا‘ میں نے دنیا دیکھی تھی اور نہ جینوئن کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔
میرا سارا علم جذباتی اور غیر تحقیقی تاریخی ناولوں تک محدود تھا لہٰذا میں غیر حقیقی دنیا میں رہ رہا تھا اور چوتھا میں ایک ناتجربہ کار‘ کند ذہن اور احساس کمتری کا مارا ہوا نوجوان تھا اور یہ حقیقت ہے احساس کمتری کے شکار لوگوں کو ہمیشہ سروں کی فصلوں میں انقلاب دکھائی دیتا ہے‘ یہ سمجھتے ہیں قومیں ’’لٹکا دیں اور مار دیں‘‘ سے طلوع ہوتی ہیں چناں چہ میں بھی ہمیشہ ملک کی ترقی کو پانچ ہزار سروں کے ساتھ نتھی کر کے دیکھتا تھا لیکن پھر میں چھوٹے سے بڑے شہر میں آ گیا‘ میں نے قرآن مجید کی تفاسیر اور تاریخ کی ٹھوس کتابیں پڑھنا شروع کر دیں‘ میں سفر کرنے لگا‘ میں نے نان نفقہ چلانے کے لیے مختلف چھوٹے بڑے کاروبار بھی شروع کر دیے اور میرے حلقہ احباب میں بیورو کریٹس‘ فوجی اور تاجر بھی شامل ہو گئے۔
مجھے اس وقت پتا چلا ہم من حیث القوم شدید مغالطوں کا شکار ہیں‘ ہم حقیقت سے انتہائی دور ہیں ‘ ہم حقائق اور پرسپشن کے درمیان وسیع صحرا میں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں‘ مجھے یہ بھی پتا چلا انقلاب فرانس 1980 یا 1990ء میں نہیں آیا تھا‘ یہ 1789سے 1799 کے درمیان آیا تھا لیکن یہ انقلاب اتنا خوف ناک تھا کہ فرانس آج 220 سال بعد بھی اس کے جھٹکوں سے باہر نہیں آ سکا‘آپ کو فرنچ لوگوں کے چہروں پر آج بھی خوف ملے گا۔
یہ آج بھی بااعتماد نہیں ہیں‘یہ آج بھی دروازوں کو چھ چھ تالے لگا کر سوتے ہیں‘ مجھے یہ بھی پتا چلا ایران 1978 کے انقلاب سے پہلے دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل تھا‘ ہارورڈ یونیورسٹی نے امریکا سے باہر اپنا صرف ایک کیمپس بنایا تھا اور وہ ایران کے شہر قم میں تھا‘ 1978میں ایک امریکی ڈالر میں80ایرانی ریال آتے تھے لیکن پھر انقلاب آیا اور ایران آج 41سال بعد بھی انقلاب کے برے اثرات سے باہر نہیں آ سکا‘ آج 42 ہزار 106ایرانی ریال ایک امریکی ڈالر کے برابر ہیں‘ ایران آج بھی اپنی سروائیول کی جنگ لڑ رہا ہے اور یہ مغرب سے تعلقات استوار کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے‘ یہ ایرانی قوم کا صبر‘ یونٹی اور وسائل ہیں جن کے صدقے ایران41سال نکال گیا ورنہ خیال تھا یہ اکیسویں صدی میں داخل نہیں ہو سکے گا۔
مجھے یہ بھی پتا چلا سوویت یونین اور چین60 سال تک سرمایہ کاری کے خلاف ڈٹے رہے لیکن پھر کیا ہوا‘ 1991میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور روس اپنے دروازے سرمایہ کاری کے لیے کھولنے پر مجبور ہو گیاجب کہ چین پوری دنیا کے لیے سرمایہ کاری کی فیکٹری بن گیا‘ مجھے یہ بھی پتا چلا دنیا میں ’’اسلامی بھائی چارہ‘‘ نام کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا‘ دنیا غریب اور امیر دو حصوں میں تقسیم ہے‘ آپ اگر غریب ہیں تو سعودی عرب ہو یا پھر لیبیا یہ آپ کے لیے کاخ امراء کے درو دیوار بن جائیں گے‘ یہ آپ کو اپنی سرحد پر قدم نہیں رکھنے دیں گے اور آپ اگر امیر ہیں تو آپ خواہ ہندو ہوں‘ یہودی ہوں‘ عیسائی ہوں یا پھر آپ کافر ہوں دنیا ہار لے کر آپ کا استقبال کرے گی‘ مجھے یہ بھی پتا چلا محمد بن قاسم کو دنیا سے رخصت ہوئے1304 سال ہو چکے ہیں اور اس کے بعد کسی مسلمان خاتون کی آواز پر کوئی محمد بن قاسم ہندوستان نہیں آیا۔
یہ ادراک کا ایک حصہ تھا‘ آپ اب دوسرا حصہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ میں نے جب کام کرنا شروع کیا تو ’’ہم بڑی ٹیلنٹڈ قوم ہیں‘‘ کی قلعی بھی کھل گئی‘ پتا چلا آپ سو لوگ رکھیں‘ ان میں سے صرف دو کام کریں گے باقی صرف تعداد ہے‘ یہ بھی پتا چلا پورا سسٹم‘ پورا معاشرہ کام کرنے والوں کے خلاف ہے‘ آپ کچھ نہ کریں آپ سے کوئی سوال نہیں ہو گا لیکن آپ نے اگر کام شروع کر دیا تو آپ اس معاشرے میں عبرت کی نشانی بن جائیں گے‘گھر سے لے کر ایوان صدر تک ہر شخص آپ کے سامنے کھڑا ہو جائے گا‘ یہ بھی پتا چلا آپ صحیح رہ کر اس معاشرے میں وضو بھی نہیں کر سکتے۔
ہمارے ملک میں مسجدیں (اکثر) تک قبضے کی زمینوں پر بنی ہیں اور ان پر کوئی نہ کوئی فرقہ قابض ہے‘یہ بھی پتا چلا ہمارے ملک میں لوگ قرآن مجید کی اشاعت اور مضاربہ کے نام پر بھی معصوم لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حلالہ کے نام پر خاندانوں کے خاندان ذلیل ہو رہے ہیں اور ریاست میں یہ بدبودار سلسلہ روکنے کی بھی سکت نہیں ‘ یہ بھی پتا چلا ہم بڑی ٹیلنٹڈ قوم ہیں لیکن پورے ملک میں آپ کو اچھا پلمبر‘ اچھا الیکٹریشن‘ اچھا کک اور اچھا ڈرائیور نہیں ملتا‘ ججوں نے فیصلے‘ تھانیداروں نے ایف آئی آر اور پٹواریوں نے فرد لکھنے کے لیے منشی رکھے ہوئے ہیں اور یہ بھی پتا چلا سرکار میں اہلیت کا اتنا فقدان ہے کہ حکومت ریٹائرمنٹ کے بعد اچھے افسروں کو کانٹریکٹ پر ملازم رکھ لیتی ہے۔
یہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی لیتے ہیں اور ریگولر سرکاری ملازموں کے مقابلے میں زیادہ تنخواہ بھی چناں چہ میں اعتراف کرتا ہوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی نسیم حجازی اور انقلابی سوچ پر شرمندہ بھی ہوتا چلا گیا اور یہ بھی مانتا چلا گیا ہم اگر ملک کو واقعی ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ ملک وہاں سے شروع کرنا ہوگا جہاں پہنچ کر فرانس‘ ایران‘ روس اور چین نے بھی اپنی اصلاح کر لی تھی ‘ یہ بھی تھک کر انقلاب کی رضائی اتارنے پر مجبور ہو گئے تھے‘ میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں میں جب اس عمل سے گزر رہا تھا تو عمران خان آیت اللہ خمینی بن کر ابھر رہے تھے اور میں ان صحافیوں میں شامل تھا جنھوں نے اپنے تمام ناآسودہ خواب ان کے قدموں میں بچھا دیے تھے۔
میں ملک کا واحد صحافی ہوں جو عمران خان کو 1996سے جانتا ہے‘ میں ان کی پہلی پریس کانفرنس میں بھی گیا تھا اور میں 2014کے دھرنوں تک ان کے ساتھ بھی رہا تھا‘ یہ مجھ سے اپنے انقلابی ورکروں کو لیکچر بھی دلاتے تھے اور یہ انھیں میرے کالم بھی پڑھنے کے لیے دیتے تھے اورمیں بھی انھیں قائداعظم ثانی سمجھتا تھا لیکن پھر 2011 آیا‘ عمران خان چھٹے گیئر میں آئے اور میں اور میرے جیسے تمام لوگوں کے خواب ٹوٹتے چلے گئے۔
میں ان کی تقریریں سنتا رہا’’ میں آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کروں گا‘ پاکستانی اربوں ڈالر اپنے ملک میں لائیں گے‘ ایماندار قیادت آئے گی اور پوری دنیا پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گی‘ ہم ڈالر نیچے اور روپیہ اوپر اٹھائیں گے‘ میں مر جاؤں گا لیکن بھیک نہیں مانگوں گا اور میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کر لوں گا‘‘ وغیرہ وغیرہ اور میں اپنا سر پیٹتا رہا‘ میں اس پوری تحریک کے پیچھے موجود مقاصد کو جانتا تھا چناں چہ میں خون کے آنسو روتا رہا مگر لوگ ان دعوؤں پر تالیاں بجاتے اور چھلانگیں لگاتے تھے ‘ مجھ جیسے لوگوں کو اس دور میں غدار بھی ڈکلیئر کیاگیا اور کرپٹ بھی لیکن پھر کیا ہوا۔
ایمان دار قیادت آئی اور ایمان دار قیادت نے دس ماہ میں ملک کو وہاں پہنچا دیا جہاں سے اسے نکالنے کے لیے اب دس سال چاہییں‘بس پانچ ہزار سر کاٹنے باقی ہیں‘ یہ بھی کٹ گئے تو قصہ پوری طرح پاک ہو جائے گا‘ انقلاب مکمل ہو جائے گا‘ ہمارا اور ملک کا کیا بنتا ہے میں نہیں جانتا تاہم میں اتنا جانتا ہوں عمران خان کی مہربانی سے کم از کم انقلاب کا کیڑا ختم ہو رہا ہے‘ ہم یہ جان رہے ہیں تبدیلی صرف اوپر سے نہیں آتی یہ نیچے اور درمیان سے بھی آنی چاہیے‘ہم یہ بھی جان گئے ہیں نعروں اور حقیقت کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ہوتا ہے تاہم میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں عمران خان ہم سب کے محسن ہیں‘ یہ آئے اور انھوں نے آ کر ہمارے اندر کا نسیم حجازی مار دیا‘ یہ ہمیں کم از کم یہ بتا گئے ایک آدمی ملک کو تباہ ضرور کر سکتا ہے لیکن یہ ملک کو ملک نہیں بنا سکتا۔
Must Read urdu column Inqlaab ka Keera by Javed Chaudhry