اقتدار کی غلام گردشیں – عاصمہ شیرازی
اقتدار کی راہداریوں میں فیصلوں کی قطار آتے جاتے چہروں کی داستان رقم کر رہی ہے۔
ایوان اقتدار کے کتنے چور دروازے ہیں اور کس کس پر کتنے پہرے۔۔۔ اہل حکومت بھی ابھی پوری طرح آگاہ نہیں۔
دروازوں پر ایستادہ سپاہی اور ان کے ہاتھوں کے ہتھیار کب کس کے ہاتھ آ جائیں، خود پاس داروں کو خبر نہیں اور راستوں کی بھول بھلیوں میں الجھ جانے والے ہاتھوں کی دستک اس قدر مدہم کہ بسا اوقات اپنے ہی کانوں کو آواز سُنائی نہیں دیتی۔
اقتدار کے حصول کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ محبت اور جنگ میں سب جائز کہہ کر دراصل ناجائز کو قبول کرنے کی دلیل کو استعمال کیا جاتا ہے۔
حصول اقتدار کے لیے اقدار، اصول اور افکار سب قربان۔ راہ اقتدار کا ہر انداز نرالا۔ مصلحتیں مصاحبوں کی راہ میں رکاوٹ بنیں تو مصاحب قربان۔ منزلوں میں رکاوٹیں آئیں تو اصول قربان۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں قید ہر وہ شخص معتوب جو پارسائی کا دعوے دار۔ ہر وہ زبان مصلوب جو حق گویائی رکھے اور مقام رکھنے والا ہر شخص نارسائی سے خوفزدہ۔
عجب غلام گردشیں ہیں کہ جن میں مقیم لمبی تسبیحوں پر خوف کا ورد، زبانوں پر ستائشی جملے اور ہونٹوں پر بناوٹی تبسم، ریاکاری بہترین پالیسی اور خوف کے خول میں ملبوس بے سکون چہرے۔
حالات سخت نہیں بہت سخت ہیں۔ مئی کے آخری ہفتے اور جون میں کورونا کا عروج ہو گا، وبا کے مختلف ممالک میں تباہی کے اثرات دیکھیں تو پاکستان میں ساٹھ سے نوے دنوں کا دورانیہ زوردار دکھائی دیتا ہے۔
نظام صحت نہ چلنے کے قابل، ہاتھ جوڑتے طبیب اور مار کھاتے کرونا زدہ نوجوان ڈاکٹر۔۔۔ کورونا سے لڑنے کی بجائے ڈنڈے کھاتے پیرا میڈیکل اسٹاف ظاہر کر رہے ہیں کہ بظاہر کھڑا ڈھانچہ کس قدر شکستہ ہے اور ذرا سا دھکا یہ نظام ڈھا سکتا ہے۔
خدا نہ کرے کہ ایسا ہو مگر عالمی سطح پر کورونا کا پیٹرن یہی رہا ہے۔ ایسے میں قیادت کا فقدان اور فیصلہ سازی کا ابہام وہ ستم کر سکتا ہے کہ بظاہر مثبت استعارے منفی میں بدل جائیں۔
اس وقت جب سیاسی اکھاڑے کی کُشتی کو موقوف ہونا چاہیے، بڑے گھر میں یہ فیصلے ہوتے ہیں کہ سندھ کے وزیراعلی کے خلاف کیا زبان استعمال کی جانی چاہئیے۔
ایک طرف بلاول بھٹو کا عالمی میڈیا پر ابھرتا تاثر پریشانی کا باعث تو دوسری جانب شہباز شریف کی سرگرمیوں پر کڑی نظر، شاہد خاقان عباسی کو نوٹس پے نوٹس تو طویل بیٹھکوں میں چینی آٹے کی رپورٹ سے توجہ ہٹانے کے لئے اٹھارویں ترمیم کا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔
چینی آٹے کی فرانزک رپورٹ کا نامکمل ایجنڈا صحیح سے سامنے نہیں آتا کہ کابینہ میں موجود چڑھاوے کی بکریاں اور بکرے قربان کر دیے جاتے ہیں۔ میڈیا کے خلاف یلغار، سبز لان میں بیٹھے میڈیا کے بہترین دماغوں کو دعوت پر دو جوتے، دو پیاز اور پھر سماجی میڈیا پراُن کی تذلیل۔۔۔ حیرت کی بات ہے کہ ترجیحات میں سب کچھ ہے۔۔۔ نہیں تو عوامی نمائندگی نہیں۔
اس سب کے دوران اگر کچھ بہتر ہوا ہے تو وہ اسد عمر کی فیصلوں میں واپسی ہے۔ رابطہ کمیٹی میں اسد عمر جس ہم آہنگی کے ساتھ سندھ کے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ منتخب افراد اور مثبت سوچ بحران میں متفقہ فیصلوں کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
ایسے میں اگر اسد عمر مشترکہ مفادات کونسل کے سیکرٹریٹ کے قیام کی راہ ہموار کر لیں جو گذشتہ دو ادوار میں نہیں ہو سکا تو وہ تحریک انصاف کی صف اوّل میں آ سکتے ہیں۔
کابینہ اجلاسوں میں دہائی دیتے اسد عمر چینی کی فورنزک رپورٹ منظر عام پر لانے میں اپنا اثر رسوخ استعمال کر پاتے ہیں یا نہیں یہ سوال اپنی جگہ مگر انھیں یہ ضرور بتانا ہو گا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں چینی کے ضرورت سے زیادہ سٹاک کی رپورٹ آخر کس نے پیش کی تھی اور وزارت تجارت ہدایت کے باوجود چینی کی قیمتیں کنٹرول کیوں نا کر پائی۔
کورونا کے بعد کے بدلتے حالات طرز حکمرانی اور کارکردگی پر زور دے رہے ہیں، غیر معمولی حالات ناقابل قبول واقعات کو جنم دے سکتے ہیں۔ فیصلے کہاں سے اور کون کر رہا ہے، نئے کھلاڑی نئی فیلڈنگ کے لئے کون لگا رہا ہے، مقاصد کیا ہیں؟
عالمی میڈیا پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں بدلتی طاقتوں پر جو بھی لکھے۔۔۔ دنیا بھر میں بدلتے حالات کے فیصلے انسانی دماغ نہیں کورونا کا وائرس کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں بھی درست اور بر وقت فیصلے نہ ہوئے تو اقتدار کی غلام گردشوں میں بند چند اورغلام قربانی کا بکرا بن سکتے ہیں۔
Must Read Urdu column IQtedar ki Gulam Gardeshain By Asma Shirazi
Source: BBC URDU