ارشاد نامہ – ڈاکٹر عبد القدیر
جناب ارشاد حسن خان کی سوانح حیات پر جیّد وکلانے جو کچھ لکھ دیا ہے اس کے بعد واقعی کچھ لکھنا یا کہنا بڑا مشکل ہے مگر میرا تعلق یا واسطہ جناب ارشاد حسن خان صاحب سے رہا ہے اس لئے میں نے ہمّت کی کہ میں بھی کچھ بیان کروں۔خان صاحب سے میری ملاقات 1983ءمیں ہوئی تھی جب وہ لاء سیکریٹری تھے۔ دراصل ہالینڈ میں میری غیرموجودگی میں 3ججوں کے بنچ نے (جس میں دو یہودی تھے) مجھے چار سال کی سزا سنا دی۔ میرے ایک کلاس فیلو ہنک سلیبوس نے مجھے مطلع کیا۔ ڈچ قانون کے معاملے میں بے حد مشہور ہیں مگر اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے ان پر دبائو ڈالا کہ مجھ پر جاسوسی کا مقدمہ چلائیں کہ میں نے وہاں کام کیا تھا اور وہاں اپنے تجربے کی بنیاد پر پاکستان میں یہ کام کررہا تھا ، انھوں نے میرے ایک سابق اسسٹنٹ سے میرا ایک خط لے لیا تھا جس میں میں نے اپنے کئے ہوئے کام سے متعلق چند سال پیشتر یہی انفارمیشن مانگی تھی۔ اس وقت ہالینڈ میں ہماری سفیر ڈاکٹر خورشید حیدر تھیں جو پرانے سیکرٹری آفتاب احمد خان (ماہر اقبالیات) کی بہن تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ فوراً مقامی اعلیٰ وکلا کے ذریعے اپیل کردیں۔ انھوں نے مشہوروکیل سینیٹر ولیم رسل اور ڈاکٹر ڈین ڈریجور کو کام پرلگا دیا اور ساتھ میں مشہور پروفیسر، کرمنالوجی کے ماہر، پروفیسر ڈاکٹر فرٹس رُوٹر کو مشیر لگا دیا۔ میں نے جنرل ضیا سے رابطہ کیا، وہ بولے کہ آپ فکر نہ کریں آپ ہمارے ہیرو ہیں اور ہمیشہ (ہمیشہ؟) رہیں گے، آپ بھول جائیں۔ میں نے کہا نہیں! میری بیگم ہالینڈ کی ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ ان پر کوئی طنز کرے۔ میں نے مقدمےمیں جان ڈالنے کے لئے جناب ایس ایم ظفر سے رابطہ کیا ، میں ان کی شہرت سے واقف تھا۔ جب میں نے جنرل ضیاء الحق کو بتایا کہ میں ظفر صاحب سے اپنا کیس لڑوائوں گاتو انھوں نے پوچھا کیوں؟ میرا جواب تھا کہ اوّل تو وہ ماہر قانون ہیں، نہایت نرم مزاج اور ریفائنڈ ہیں اور دوئم یہ کہ میں ڈچ حکومت پر یہ باور کرناچاہتا ہوں کہ ہم کیس کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہیں کہ ہم نے سابق وزیر قانون کو دفاع کے لئے لگایا ہے۔ میں نے یہ سب پر واضح کردیا تھا کہ وکیل میری مرضی کا ہوگا اور اگر حکومت نے اس معاملے میں دخل اندازی کی تو میں خود ہالینڈ چلا جائوں گا اور ظفر صاحب سے ہی کیس لڑوائوں گا۔ بعد میں حکومت نے سابق اٹارنی یا ایڈووکیٹ جنرل زماں کو ان کے ساتھ لگانے کا کہا، میں نے ظفر صاحب سے پوچھا تو انھوں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں حکومت ان کو فارن ٹرپ کروانا چاہتی ہے۔ بہرحال ہم نے اپیل داخل کردی۔ جج نے فیصلہ ہمارے حق میں دیا اور مجھے باعزت بری کردیا۔ یہ تھا ڈچ انصاف، یہاں 18سال سے ٹھوکریں کھا رہا ہوں مگرآج تک مجھے سننے کا موقع نہیں دیا گیا۔جسٹس ارشاد حسن خان نے بلاکسی جھجک کے نہایت بہادری سے اپنے مشکل حالات بیان کر دیئے ہیں۔ انھوں نے ظفر علی شاہ کے کیس کے بارے میں پوری تفصیل سے حقائق بیان کئے ہیں۔ ہر عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ انھوں نے دبائو یا ذاتی مفاد کی خاطر مشرف کو 3سال کی مہلت دی تھی مگر حقائق اس کے برعکس ہیں، اس فیصلے کی تیاری یا حتمی فیصلہ پر پہنچنے میں دو مشہور وکلاجناب ایس ایم ظفر اور جناب خالدانور نے معاونت کی تھی۔ باہر بیٹھ کر انسان غلیل سے شیر مارنے کے دعوے کرتا ہے مگر جس نے تمام معاملات کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے اس پربھاری ذمہ داری آتی ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میںہمارے ملک میں عدلیہ کا ریکارڈ خراب رہا ہے۔ شروع میں جسٹس کیانی، جسٹس کارنیلئس، جسٹس دراب پٹیل ایسے جج گزرے ہیں کہ تاقیامت پاکستانی عوام ان کو ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد رکھیں گے۔ لیکن جہاں مصلحت کے تحت (خواہ کتنا ہی ضروری ہو) کسی نے اگر فیصلہ دیا تو عوام اس کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے غلط فیصلے کو خاندانی وجوہات کہا۔ غلام اسحٰق خان صاحب اور میں چند ساتھیوں کے ساتھ ایک مشہور ہوٹل میں ڈنر پر جارہے تھے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب سے ٹکرائو ہوگیا، وہ باہر نکل رہے تھے۔ خان صاحب کو دیکھتے ہی سلام کیا اور کہا مجھے افسوس ہے اور شرمندہ ہوں کہ میں نے نواز شریف کو بحال کرنے کا غلط فیصلہ کیا تھا۔ جسٹس سجاد علی شاہ کو ہٹانے میں جو رول بعض سینئر ججوں نے ادا کیا وہ شرمناک تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے 127ممالک کی عدلیہ میں بلجیم پہلے نمبر پر ہے اور ہم غالباً 123 ویںنمبر پر ہیں۔ عدلیہ میں ریفارمز کی بہت ضرورت ہے کوئی کیس ایک ماہ سے زیادہ نہیں چلنا چاہئے۔ پرانے زمانہ میں قاضی ایک بیٹھک میں فیصلہ کردیتا تھا اس طریقہ کار کو چین نے اپنا لیا ہے۔جناب ارشاد حسن خان ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں، آپ ان کو ہمیشہ مسکراتا ہوا دیکھیں گے۔ جن جیّد وکلانے ان کی سوانح حیات پر تبصرہ کیا ہے میں کم و بیش سب سے ہی بہت اچھی طرح واقف ہوں۔ مجھے اعتزاز احسن کا تبصرہ دلچسپ اور پُرکشش نظر آیا۔ دیکھئے آپ جب جج بنتے ہیں پھر مصلحت یا جانبداری کا سوال نہیں ہونا چاہئے ، ایک غلط کام کو غلط کہیں۔ بھٹو صاحب کو ایک جھوٹے کیس میں پھانسی دیدی گئی اور عدلیہ نے من و عن ضیاء الحق کے احکامات پر عمل کیا۔بہرحال یہ باتیں تو اب ہمارے کلچر کا جز بن گئی ہیں ان کو کوئی نہیں بدلے گا اب یہ تلخ ماضی کےحقائق ہیں ۔ جسٹس ارشاد حسن خان صاحب کے فیصلوں پر چند وکلاء نے تبصرے کردیے ہیں، میں تو انہیں ایک ہنس مکھ، خوش مزاج اور سمجھدار شخصیت جانتا ہوں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کے دل میں میری محبت اور عزت ہے اور یہی حال میرا ہے۔ اللہ پاک ان کو تندرست، خوش و خرم رکھے ، حفظ و امان میں رکھے، عمر دراز کرے اور ہر شر و وبا سے محفوظ رکھے۔ آمین!
Read Urdu column Irshaad nama by Dr Abdul Qadeer khan