اس چُپ میں کوئی طوفان نہیں – عاصمہ شیرازی
عجب بولہبی ہے ہر طرف کہ آواز عالم کی ہے اور لہجہ جاہل کا۔۔۔ بوجہلی سی بوجہلی کہ علم کے طالب جہالت کی آواز بن گئے ہیں۔ قحط الرجالی کا یہ عالم ہے کہ معمولی سی قابلیت والے باعلم اور بظاہر قد آور دراصل بونے ہیں۔
یوں تو ہمیں بھی ہر وقت شکایت کی عادت سی ہو گئی ہے مگر یقین مانیے جب بھی قلم اٹھایا تو سوچا آج کچھ منفی نہیں لکھنا، مگر ڈھونڈنے سے بھی نہ اچھی خبر سُنائی دیتی ہے نہ دکھائی۔
قصور کس کا ہے، ذمہ دار کون، مسئلہ کہاں۔۔۔ ان تمام سوالوں کے جوابوں میں کئی اور سوال ہیں اور سوال در سوال کا سلسلہ ذہنوں کو الجھا دیتا ہے۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ مملکت پاکستان ایک جمہوریہ ہے؟ جواب جمہوریہ ہے اور پھر سوال کہ جمہوریت کہاں ہے؟ آئین ہے؟ ہے، مگر آئین کی حکمرانی کہاں؟ حکومت ہے؟ ہے ۔۔۔ مگر کہاں اور حکمران کون؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام ہے؟ جی ہے۔
کہاں؟ ہر طرف۔
اور مسلمان؟ ہر کوئی۔
ہم ایک تضاد بھرے معاشرے کے باسی ہیں، جہاں آئین کا ریاست سے، نظام کا معاشرت سے، حکمران کا سیاست سے اور عوام کا حاکمیت سے تضاد ہے۔
ایسا کبھی آمریت میں بھی نہ ہوا جیسا اب ہو رہا ہے۔ منتخب وزیراعظم کے نیچے غیر منتخب مگر با اختیار عوامل کے ہاتھ عوام کی تقدیر سونپ دی گئی ہے۔ کورونا کے بارے میں ہر روز عوام کو بتائے جانے والے اعداد و شمار پر شکوک و شبہات کا اظہار کرنے کے باوجود کوئی سوال پوچھنے کو تیار نہیں۔
یہ وہ واحد خوش نصیب حکومت ہے جو لاشوں پر حکومت کر رہی ہے اور کوئی احتجاج بھی نہیں۔ اور تو اور اُن کے سیاسی کزن بھی کینیڈا سے بیٹھ کر ماضی میں کیے گئے وعدے یاد دلاتے ہیں مگر ایک چُپ ہے اور گہری چُپ ہے۔
اس چُپ میں کوئی طوفان بھی نہیں چھپا۔۔۔ نہ کوئی اپوزیشن ہے اور نہ ہی کوئی مزاحمتی سیاست۔ لکھنے بولنے والے چند شر پسند ’ففتھ جنریشن وار فئیر‘ کا شکار ہو رہے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چپکے چپکے ایک ایک کرکے ہر ادارے سے جمہوریت اور ترقی پسند چھانٹے جا رہے ہیں۔
کبھی محمد حنیف تو کبھی عمار علی جان، کبھی پرویز ہود بھائی تو کبھی اہل علم کے کوئی اور روشن چراغ۔ ابھی شاید معاشرہ بہت بھانجھ نہیں ہوا جبھی تو روشنی کے سب دیے بغیر پھونک بجھانے کی کوششیں ہیں۔
پنجاب جیسا بھی تھا مگر علم و ادب کے چراغوں نے مزاحمتی ادب اور تحریکوں کو ہمیشہ جلا ضرور بخشی، اقبال ہوں یا فیض احمد فیض، مارشل لاؤں کو چیلنج کرنے والے حبیب جالب ہوں یا اُستاد وارث میر، پنجاب میں اُن کے لفظوں کی جادو گری نے کمال کیا اسی لیے شاید اب اُستادوں کی باری ہے باقی سب تو نیوٹرالائز ہو چکے۔
کمال فن تو دیکھیے شاعروں، ادیبوں کی اس دھرتی میں اب کوئی انقلاب یا انقلابی نظر نہیں آتا۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں بابا بُلھے شاہ جیسے غیر سیاسی لوگ احمد شاہ ابدالی کے پنجاب اور لاہور پہ ہونے والے حملوں پر سراپا احتجاج بن گئے۔
پنجاب کا دکھ نہ امرتا پریتم سے دیکھا گیا اور نہ ہی بابا بُلھے شاہ سے۔۔ بابا بُلھے شاہ ان حملوں کے نتیجے میں پنجاب کی تباہی اور بدحالی پر چُپ نہ رہے۔ اُن کے کلام میں بھی یہ احتجاج نظر آیا۔۔۔ آپ نے لکھا:
در کھلا حشر عذاب دا
بُرا حال ہویا پنجاب دا
ڈر ہاوئیے دوزخ ماریا
سانوں آ مل یار پیاریا
یہی نہیں جب صدیوں تک حکمرانی کرنے والے مغل بادشاہوں کی سکھ ڈاکوؤں کے ہاتھوں حالت دیکھی تو فرمایا:
اُلٹے ہور زمانے آئے
کاں لگڑ نوں مارن لگے
چڑیاں جُرؔے ڈھائے
گھوڑے چگن اڑوڑیاں گدھوں خوید پوائے
سچیاں نوں پئے ملدے دھکے، چہوٹھے کول بٹھائے
پیو پُتر اتفاق نہ کوئی، دھیاں نال نہ مائے
بلھیا حکم حضوروں آیا
تس نوں کون ہٹائے
اُلٹے ہور زمانے آئے
بابا بھلے شاہ نے بھی شکوہ کیا کہ الٹا زمانہ آگیا ہے کوے شکروں کو مارتے ہیں اور چڑیاں شاہین مار گراتی ہیں۔ گھوڑے کوڑے کے ڈھیر میں مُنہ مار رہے ہیں اور گدھے گیہوں کی بالیں کھا رہے ہیں۔ اُلٹا زمانہ آ گیا ہے۔
بابا بلھے شاہ کا کلام آج کے حالات پر بھی موزوں ہے ۔۔۔ سوچنے سمجھنے والے موجودہ سیاسی اور سماجی حالات میں جس چُپ کا سامان لیے ہوئے ہیں اُس میں کوئی طوفان چھپا ہوا نہیں۔۔۔ سو سب ستے خیراں نیں۔
Must Read Urdu column Is chup main koi Toufan nahi By Asma Shirazi
Source: BBC URDU