اس سے اگلے دن – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

’’آج کا دن کیسا تھا؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا‘ اس نے چونک کر میری طرف دیکھا‘ میرے دوست کی آنکھوں میں نیند کی لالی تھی‘ رات کے دو بج چکے تھے‘ ہم گاڑی میں ہوٹل کی طرف جا رہے تھے‘ شہر میں سناٹا تھا اور ہم اس سناٹے میں ڈرائیو کر رہے تھے۔

انسان کی آنکھیں جب نیند سے سرخ ہونے لگتی ہیں تو اس کا دماغ سست ہو جاتا ہے‘ دل کی دھڑکن مدہم ہونے لگتی ہے‘ سانسیں آہستہ آہستہ چلنے لگتی ہیں اور یہ دس سال پرانی باتیں یاد کرنے لگتا ہے‘ ہم سب سونے سے پہلے چند لمحوں کے لیے ماضی کی طرف پلٹ جاتے ہیں‘ کیوں پلٹتے ہیں؟

یہ ہم آج تک نہیں جان سکے‘ شاید یہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے یا اس کا تعلق انسان کی روح کے ساتھ ہے لیکن یہ حقیقت ہے ہم نیند کے گہرے سمندر میں اترنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے ماضی کی طرف ضرور جاتے ہیں‘ شاید یہی وجہ ہے انسان جب مرنے لگتا ہے تو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس کی ساری زندگی فارورڈ ہوتی ہوئی سی ڈی کی طرح اس کے دماغ کی اسکرین سے گزرتی ہے‘ وہ ایک لمبی ہچکی لیتا ہے اور اپنی زندگی کا سارا ڈیٹا لے کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔

نیند بھی کیونکہ ایک عارضی موت ہوتی ہے شاید اسی لیے ہم سونے سے پہلے اپنے ماضی کی طرف پلٹتے ہیں اور ماضی کا یہ ڈیٹا لے کر نیند میں اتر جاتے ہیں‘ انسان کی آنکھوں میں جب نیند کی لالی اترتی ہے تو اسے ہلکا‘ نرم اور میدانی علاقوں کے بہتے دریائوں جیسا رواں میوزک اچھا لگتا ہے‘ اس وقت کا سفر بھی بہت شان دار ہوتا ہے‘ میں برسوں سے اس علت کا شکار ہوں‘ میں رات گئے آہستہ اسپیڈ میں گاڑی چلاتا ہوں‘ میوزک سنتا ہوں اور رات کی تنہائی میں آسمان سے اترتی ہوئی روشنیوں کو محسوس کرتا ہوں‘ میں نے آج تک ایسی ہزاروں راتوں کا تجربہ کیا اور ہر رات پچھلی رات سے مختلف تھی۔

چاند کی راتوں کا اپنا ذائقہ ہوتا ہے‘ گہری اندھیری راتوں کا اپنااسرار ہوتا ہے‘ راول ڈیم کے کنارے رات کے پچھلے پہر یوں محسوس ہوتا ہے یہ خوب صورتی‘ سکون اور امن کی انتہا ہے‘ برستی بارشوں کی راتیں ٹرکش کافی کی طرح کسیلی ہوتی ہیں‘ گرمیوں کی راتوں میں ذرا سی تلخی ہوتی ہے اور جب دو موسم ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں تو ان گلے ملتے موسموں کی کوکھ سے جنم لیتی راتیں مستانی ہوتی ہیں اور سردیوں کی راتیں! اف ان میں بڑی اداسی ہوتی ہے۔

میں اکثر رات کے گہرے اندھیرے میں جنگلوں میں بھی چلا جاتا ہوں اور اندھیرے کی خاموشی کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں‘ رات کی خاموشی میں جھینگروں کی آوازیں ’’لائف ٹائم‘‘ تجربہ ہے اور جو شخص اس تجربے سے نہیں گزرتا اس شخص کو شخص نہیں کہنا چاہیے‘ رات کا انسان کی روح‘ تخلیق اور منصوبہ بندی کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے‘ دنیا کی تمام بڑی تخلیقات‘ تمام بڑی ایجادات اور تمام بڑی دریافتیں رات کے وقت ہوئی تھیں‘ دنیا کے نوے فیصد بچے رات کے وقت پیدا ہوتے ہیں۔

دنیا کے تمام بڑے منصوبے رات کے وقت بنتے ہیں اور انسان کی روح بھی رات کے وقت ہی ایک درجے سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے درجے میں داخل ہوتی ہے‘ دنیا کے تمام اولیاء کرام رات کے وقت سلوک کی منزلیں طے کرتے ہیں‘ اس پورے کرہ ارض پر‘ تمام ممالک‘ تمام معاشروں‘ تمام مذاہب اور تمام سماجوں میں شادیوں کی تقریبات رات کے وقت ہی اختتام پذیر ہوتی ہیں اور تاریخ کی تمام بڑی ہجرتیں‘ تمام بڑے واقعات‘ تمام بڑی کتابیں‘ تمام بڑی دھنیں اور تمام بڑی پینٹگز بھی رات ہی کے وقت مکمل ہوئی تھیں‘ رات میں کوئی ایسا اسرار‘ کوئی ایساجادو ضرور ہے ورنہ دنیا بھر کے اولیاء اور تمام نبی راتوں کو نہ جاگتے۔

یہ بھی ایک ایسی ہی را ت تھی خاموش‘ رواں‘ مدہم لیکن ٹرکش کافی کی طرح کسیلی‘ میرے دوست نے جواب دیا ’’نتھنگ‘ ایز یوژول‘‘ (کوئی خاص نہیں‘ بس عام دنوں کی طرح) میں نے اس سے پوچھا ’’کیا یہ دن آپ کی زندگی میں دوبارہ آئے گا‘‘ اس نے چند لمحے سوچا اور انکار میں سر ہلا دیا‘ میں نے عرض کیا ’’ہاں یہ دن دنیا کی تاریخ میں دوبارہ کبھی طلوع نہیں ہو گا‘ کل بھی آج کی طرح سورج نکلے گا اور غروب بھی ہو گا لیکن وہ اگلا دن ہو گا‘ آج کا دن نہیں چناننچہ یہ ایک خاص دن تھا لیکن ہم نے اسے عام سمجھ کر ضایع کر دیا‘‘ اس کی آنکھوں میں اب نیند کے ساتھ ساتھ حیرت بھی تیرنے لگی‘ جس طرح نیند کا رنگ سرخ ہوتا ہے بالکل اسی طرح حیرت نیلے رنگ کی ہوتی ہے۔

آپ کسی حیران شخص کی طرف دیکھیں وہ آپ کو نیلے رنگ کا دکھائی دے گا‘ اسی طرح غصے کا رنگ آتشی ہوتا ہے‘ سکون کا رنگ برف کی طرح سفید‘ حسد کا رنگ پیلا‘ محبت چاندی کی طرح چمکیلی ہوتی ہے‘ نفرت کا رنگ بجھے ہوئے کوئلے جیسا ہوتا ہے اور رقابت ہمیشہ دو رنگی ہوتی ہے ‘ اس میں پیلا اور آتشی دونوں رنگ ہوتے ہیں‘ اس کی آنکھوں میں اب نیند کے سرخ ڈوروں کے ساتھ ساتھ حیرت کی نیلی لکیریں بھی تیر رہی تھیں‘ اس نے پوچھا ’’کیا ہم ہر دن کو خاص بنا سکتے ہیں‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’دنیا کا ہر دن عام‘ ایز یوژول‘ نتھنگ ہوتا ہے اور یہ ہم ہوتے ہیں جو اس ایزیوژول دن کو خاص بنا دیتے ہیں۔

14 اگست ایک عام دن تھا لیکن قائد اعظم نے اسے خاص بنا دیا‘ 31 اگست ایک عام دن ہے لیکن دنیا کے بے شمار لوگوں کے لیے یہ ایک خاص دن ہو گا‘ کیوں؟ کیونکہ ان لوگوں نے اسے خاص دن بنا لیا ہے‘ چار نومبر ایک عام دن ہے لیکن ہزاروں‘ لاکھوں‘ کروڑوں لوگوں کے لیے یہ عام دن‘ عام دن نہیں ہو گا‘ کیوں؟ کیوںکہ ان لوگوںنے 4 نومبر کو محض چار نومبر نہیں رہنے دیا‘ چار جولائی عام دن ہوتا لیکن امریکن ہسٹری نے اسے خاص بنا دیا‘ اگر کچھ لوگ کچھ دنوں کو خاص بنا سکتے ہیں توہم لوگ بھی ہر دن کو اپنی حد تک خاص بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ میرا کل کا دن بہت خاص تھا‘ میں اس دن بارش میں بیٹھا رہا۔

میں نے ایک گھنٹہ باہر بیٹھ کر بارش کا ذائقہ چکھا‘ میرا آج کا دن بھی خاص تھا‘ میں آج سارا دن تمہارے ساتھ رہا‘ میرا کل کا دن بھی خاص ہو گا میں کل الکیمسٹ دوسری بار ختم کروں گا‘ میرا پرسوں بھی خاص ہو گا میں وہ دن دو یتیم بچوں کے ساتھ گزاروں گا‘ میں انھیں یہ بتائوں گا دنیا کے تمام بڑے لوگ یتیم تھے اور اگر یتیمی بری بات ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی نبی اکرمﷺ کو یتیم پیدا نہ کرتا‘ میں اس سے اگلا پورا دن جھوٹ نہیں بولوں گا‘ یہ میرا ’’جھوٹ فری ڈے‘‘ ہو گا‘ میں اس سے اگلے دن شام کے وقت کسی گائوں میں چلا جائوں گا‘ میں اس گائوں کی گلیوں میں پھروں گا‘ لوگوں سے ملوں گا‘ ان کے چہرے اور نام یاد رکھنے کی کوشش کروں گا۔

میں ان کی زندگی کا مطالعہ اور مشاہدہ کروں گا‘ میں اس سے اگلے دن لوگوں کو بتائوں گا آپ کو سڑکوں پر بوتلیں‘ ریپر‘ کاغذ اور لفافے نہیں پھینکنے چاہئیں‘ میں اس سے اگلے دن اپنی بیٹی کے بالوں میں برش کروں گا‘ میں اس سے اگلے دن مصیبت زدہ خاندانوں میں سے کسی ایک خاندان کے ساتھ رابطہ کروں گا اور اس کا کوئی ایک مسئلہ حل کرنے کی کوشش کروں گا‘ میں اس سے اگلے دن کسی اداس شخص کو اس کی اداسی کی وجہ بتائوں گا اور اسے اس اداسی سے نکالوں گا‘ میں اس سے اگلے دن کسی راہ چلتے شخص کو بتائوں گا اللہ تعالیٰ نے اسے کس کس خوبی سے نواز رکھا ہے۔

وہ ہنستا ہے تو وہ کتنا اچھا لگتا ہے اور اگروہ ہنستے ہنستے اپنا ہاتھ چہرے پر اس طرح رکھ لے کہ اس کا آدھا چہرہ دکھائی دے اور آدھا چھپ جائے اور وہ آدھے چھپے ہوئے چہرے سے جھانک کر دوسروں کی طرف دیکھے تو اس کی فیس ویلیو میں ہزار گنا اضافہ ہو جائے گا‘ اس سے اگلے دن میں کسی ریڑھی والے‘ کسی کھوکھے والے اور کسی مزدور کو یہ بتائوں گا وہ اگر اپنی دکان پر فلاں چیز رکھ لے تو اس کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہو سکتا ہے‘ میں اس سے اگلے دن اسکول کے بچوں میں دنیا کی دس بہترین کتابیں تقسیم کروں گا۔

میں اس سے اگلے دن لوگوں کو یہ بتائوں گا خوشی وہ خزانہ ہے جو انسان کے اپنے اندر دفن ہوتا ہے لیکن ہم اسے دوسروں کے چہروں‘ دوسروں کے ہاتھوں‘ دوسروں کے ہونٹوں اور دوسروں کی جیبوں میں تلاش کرتے رہتے ہیں‘ میں اس سے اگلے دن جیل کے قیدیوں سے ملنے جائوں گا اور یہ دیکھوں گا انسان کس طرح جذبات کے بہکاوے میں اپنی آزادی کو قید میں بدل دیتا ہے۔

میں یہ دیکھوں گا ہم کس طرح چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور غلط فہمیوں کی وجہ سے اپنی زندگی کو عذاب بنا لیتے ہیں‘ میںاس سے اگلے دن اسپتال جائوں گا اور یہ دیکھوں گا جو لوگ زندگی کے خوب صورت دنوں کو ایز یوژول سمجھ کر ضایع کر دیتے ہیں وہ بیماری کے عالم میں کیسے لگتے ہیں اور میں اولڈ ہوم جا کر ایک گھنٹہ بوڑھوں کے ساتھ بیٹھوں گا‘ میرا ہر دن عام ہے لیکن تم دیکھو میں اسے کس طرح خاص بنا رہا ہوں‘‘۔

اس کی آنکھوں سے نیند کی سرخی غائب ہو گئی‘ اس نے مجھ سے کہا ’’آپ گاڑی روکیے‘ میں آج کے دن کو خاص بنانا چاہتا ہوں‘‘ میں نہر کے کنارے رک گیا‘وہ گاڑی سے نکلا‘ نہر کے کنارے پہنچا اور رات کی سیاہی کو نہر کے پانیوں میں گھلتے ہوئے دیکھنے لگا‘ یہ واقعی ایک خاص رات تھی‘ ہماری روحوں کے دروازے آہستہ آہستہ کھل رہے تھے اور نہر کے اس کنارے ہمیں زندگی میں پہلی بار کشف کی حقیقت معلوم ہوئی۔۔

Source

Must Read Urdu column Is se Aglay din by Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.