اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اسلامی امارتِ افغانستان – اوریا مقبول جان
کیا پاکستان پر مسلّط، آکسفورڈ، کیمبرج اور ہاروڈ کے پڑھے ہوئے معاشی پنڈتوں کو ذرا بھی حیرت اور شرمندگی نہیں ہوتی کہ اس وقت عالمی مالیاتی نظام کے ترازو میں پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں حیثیت اور اوقات 200 ’’روپے‘‘ تک گر چکی ہے اور وہ طالبان جنہیں یہ ’’ماہرین‘‘ پسماندہ، دقیانوس، اور جدید علم سے بے بہرہ کہہ کر حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، اس عالمی مالیاتی ترازو میں ان کے ’’افغانی‘‘ کی قیمت تقریب100 ہے۔ یعنی اگر پاکستان کا کوئی امریکہ پلٹ ’’معاشی بزرجمہر‘‘ افغانستان چلا جائے تو ہوٹل کا جو کمرہ افغانستان کے رہنے والوں کو دس ہزار افغانی میں ملے گا، پاکستانی کو اس کے بیس ہزار سکہ رائج الوقت پاکستانی روپے ادا کرنے پڑیں گے۔ کیا ہم وسائل میں افغانستان سے کم ہیں؟ کیا ہماری صلاحیتیں ان جیسی نہیں؟ کیا ہم ان کی نسبت کم محنتی ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں۔ ہمارے وسائل خواہ وہ معدنی ہوں یا زرعی، آبی ہوں یا زمینی افغانستان سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہماری قابلِ کاشت اراضی سات لاکھ چھیانوے ہزار مربع کلومیٹر ہے جس میں سے ہم دو لاکھ اٹھائیس ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر فصلیں اُگاتے ہیں اور پھر بھی دُنیا میں سولہویں (16) نمبر پر ہیں۔ جبکہ افغانستان کے پاس قابلِ کاشت رقبہ چھ لاکھ تریپن ہزار مربع کلو میٹر ہے اور وہ صرف اسّی ہزار مربع کلو میٹر پر فصلیں اُگاتا ہے اور دُنیا میں چھتیسویں (36) نمبر پر ہے۔
ہم دُنیا میں آبی وسائل کے حساب سے پینتیسویں (35) نمبر پر ہیں۔ آبی وسائل کو سائنسی زبان میں (Renewable Water Resource) یعنی پانی کا ایسا ذخیرہ، جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی کمی پوری کرتا رہتا ہے، جیسے دریا، جھیلیں یا زیرِ زمین پانی کے ذخائر وغیرہ۔ ہمارے پاس اس وقت 1,163 کیوبک میٹر فی کس کے حساب سے پانی کے ذخائر ہیں، جبکہ افغانستان اس حساب سے دُنیا میں ایک سو چودھویں (114) نمبر پر ہے۔ لیکن آبادی کم ہونے کی وجہ سے اس کے پاس فی کس 1,758 کیوبک میٹر پانی موجود ہے۔ خوراک کے بعد وسائل کی اہمیت کے اعتبار سے معدنیات ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس حوالے سے، دونوں ممالک میں موجود زیرِ زمین معدنیات سے متعلق جتنے بھی سروے ہوئے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ دونوں ممالک کو اللہ نے معدنی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ افغانستان چونکہ گذشتہ 42 سال سے جنگ کا میدان بنا رہا، اس لئے وہاں ان معدنیات کو نکالنا اور ان سے اپنی معیشت کو بہتر بنانا تقریباً ناممکن تھا۔ جبکہ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جنہوں نے انہی 42 سالوں میں اپنے معدنی وسائل پر سے اپنی نااہلی اور بدترین کرپشن کی وجہ سے کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ اُٹھانا تو دُور کی بات، اُلٹا نقصان کیا ہے۔ صرف ایک ضلع چاغی میں موجود سونے اور چاندی کے دو ذخائر، سیندک اور ریکوڈک کا حشر ہم سب کے سامنے ہے۔
پاکستان میں صنعتی ترقی کی ایک تاریخ ہے جو آغاز سے ہی شاندار تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی آمد سے پہلے تک ہمارا شمار دُنیا کی ان چند تیز رفتار ترقی کرتی ہوئی صنعتی معیشتوں میں ہوتا تھا، مگر بھٹو کی ’’ذہین‘‘ قیادت کی وجہ سے پاکستان جس تیز رفتار زوال اور بربادی کی طرف گامزن ہوا اس کی بھی دُنیا میں مثال نہیں ملتی۔ ہمارے مقابلے میں افغانستان میں سوائے قیمتی پتھروں کی تراش خراش یا کان کنی کے علاوہ کوئی بھی صنعت پروان نہیں چڑھ سکی۔ چالیس سالہ جنگ میں یہ سب ناممکن تھا مگر اس سے پہلے بھی افغانستان میں صنعتی ترقی کا کوئی رجحان ہی نہیں تھا۔ میں نے ان تمام وسائل کا موازنہ اس لئے کیا ہے، کیونکہ کسی بھی ملک کی کرنسی کی قدر و قیمت اس ملک کے ان مجموعی وسائل کی بنیاد پر لگائی جاتی ہے جسے "Good will of the Country” کہتے ہیں۔ پہلے یہ قیمت اس ملک کے پاس موجود سونے کے ذخائر کے حساب سے متعین کی جاتی تھی، لیکن پھر جب 1974ء میں تیل کی خریداری کو ڈالر کے ساتھ منسلک کر دیا گیا تو پھر اس عالمی مالیاتی سُودی نظام کے معاشی ترازو یعنی ’’بینک برائے عالمی معاشی تنازعات‘‘ (Bank of International Settlements) کو یہ بتا دیا گیا کہ اب تم کسی بھی ملک کے وسائل کو جانچو اور پرکھو گے اور پھر اس کی کرنسی کی قیمت متعین کرو گے۔ اس کے لئے بھی دُنیا بھر میں اس مصنوعی، جعلی بے قیمت کاغذی کرنسی کو سٹاک ایکسچینجوں، سیاسی عدمِ استحکام، سرمائے کی منتقلی اور بلاوجہ کرنسی چھاپ کر مارکیٹ میں پھینکنے جیسے مختلف طریقوں سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ سارا گورکھ دھندا ایک بے قیمت کاغذ یعنی کرنسی نوٹ کے گرد گھومتا ہے جس کی اپنی کوئی ذاتی قدروقیمت (Intrinsic Value) نہیں ہوتی۔ آپ کاغذ کے نوٹ کو کسی بھی ’’ریاستی وعدے‘‘ سے علیحدہ کر کے مارکیٹ میں بیچنے جائیں تو کوئی اسے ردّی کے بھائو بھی نہیں خریدے گا۔ لیکن سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اُصول کے مطابق کہ ’’ تم سونا اور چاندی میں کاروبار کرو‘‘، تو پھر اگر کوئی ریاست یہ کہے کہ میں فلاں سونے کے سکّے کو نہیں مانتی یا اس کی اتنی کم قیمت لگاتی ہوں تو اس کے انکار کے باوجود بھی وہ مارکیٹ میں اپنی پوری قیمت کے مطابق بِک جائے گا۔ یہ سب کچھ اس قدر تفصیل سے اس لئے لکھ دیا ہے تاکہ کہیں پاکستان کا آکسفورڈ کیمبرج اور ہاروڈ سے پڑھا ہوا معاشی ماہر لوگوں کو افغانستان میں ڈالر کی قیمت گرنے کی کوئی بے بنیاد توجیہہ بتا کر گمراہ نہ کرتا پھرے۔ افغانستان پر جب 15 اگست 2021ء کو طالبان نے اپنا کلمۂ طیبہ والا جھنڈا لہرایا تو پوری دُنیا جو انہیں گذشتہ بیس سالوں میں میدانِ جنگ میں شکست نہ دے سکی، وہ ان کے خلاف معاشی میدان میں متحد ہو گئی اور ان کے لئے ایک معاشی ’’شعب ابی طالب‘‘ والا سماں پیدا کر دیا گیا۔ دُنیا کا ہر تجزیہ نگار چیخ رہا تھا کہ اب یہ ملک فوراً خانہ جنگی، قحط اور بیماری کا شکار ہو جائے گا۔ افغانستان پر سخت ترین پابندیاں لگائی گئیں اور عالمی معاشی منڈی کو ان کے خلاف متحرک کیا گیا جس سے افغانی کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 112 تک گر گئی۔ لیکن اس ہفتے جب افغان حکومت نے اپنا سالانہ بجٹ پیش کر کے دُنیا کو حیران کیا، اس لمحے ان کے ’’افغانی‘‘ کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 87.75 ’’افغانی‘‘ تھی اور یہ مزید بہتری کی طرف گامزن ہے۔ امارتِ اسلامی افغانستان نے دُنیا کی تمام بڑی معاشی طاقتوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی مدد کے بغیر اگلے مالی سال کیلئے 231.4 ارب ’’افغانی‘‘ کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ بجٹ کے مطابق یہ تخمینہ ہے کہ حکومت بغیر کسی بیرونی مدد افغانستان ہی سے 186.7 ارب ٹیکس اکٹھا کرے گی جبکہ 44 ارب افغانی کا ’’بجٹ خسارہ‘‘ہے۔ یہ اس وقت دُنیا کے تمام ممالک میں پیش کردہ بجٹوں کے خساروں میں سے سب سے کم خسارہ ہے۔ امریکی بجٹ کا خسارہ 2 ہزار آٹھ سو ڈالر ہے اور پاکستان کے تازہ بجٹ کا خسارہ چار ہزار تین سو ارب روپے ہے۔ افغانستان کے بجٹ میں 203 ارب غیر ترقیاتی اخراجات یعنی تنخواہوں، لاء اینڈ آرڈر اور حکومتی بندوبست، تعلیم، صحت وغیرہ کے لئے رکھے گئے ہیں جبکہ 27.9 ارب ترقیاتی بجٹ کیلئے مختص ہیں۔ ان ترقیاتی منصوبوں میں دریائے آموں (Oxus) سے نہر نکالنے کا ایک منصوبہ بھی شامل ہے۔یہ نہر 280 کلو میٹر طویل، سو میٹر چوڑی اور 8.5 میٹر گہری ہو گی۔ اس سے ہر سیکنڈ میں 650 کیوبک میٹر پانی بہے گا اور اس سے کلدار، بلخ، جوازجان اور فاریاب کے علاقے سیراب ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے بعد نہ صرف افغانستان خوراک میں خود کفیل ہو جائے گا بلکہ ہمسایہ ممالک میں بھی خوراک برآمد کر سکے گا۔ یہ وہی شمالی افغانستان کا علاقہ ہے جس پر امریکہ اور بھارت نے مل کر طالبان کے خلاف 1995ء سے محاذ بنا رکھا تھا اور وہاں وسائل پر قبضے کے تعصب کی نفرت کو پروان چڑھایا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک دریائے آموں پر کوئی بند تعمیر نہ ہو سکا۔ طالبان حکومت کے آتے ہی نہ کوئی تعصب باقی رہا اور نہ ہی وسائل پر لڑائی۔ لیکن ہم آج تک کالا باغ کے تعصب سے باہر نہیں آ سکے۔ صرف ایک لمحے کو رُک کر سوچیں ہماری تباہی، بربادی، ذلّت و رُسوائی اور معاشی بدحالی کی وجہ کیا ہے؟ اسلامی جمہوریہ افغانستان اور اسلامی امارتِ افغانستان میں فرق صرف ’’جمہوریت‘‘ کا ہے۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Islami Jamhoria PAkistan, Islami Amarat Afghanistan By Orya Maqbool jan