اسرائیل سے تعلقات کس کے ایماء پر (آخری قسط) – اوریا مقبول جان
پاکستان کے سیکولر، لبرل میڈیائی دانشور، قیامِ اسرائیل سے لے کر اب تک اسرائیل کے حوالے سے لاتعداد سوالات پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان سوالات میں شدت اس لابی کے سرپرستِ اعلیٰ پرویز مشرف کے دَور میں آئی۔ یہ سوالات اور مباحث ایک عام اور سادہ لوح دُنیا دار شخص کو فوراً اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ اسرائیل کی وکالت کرتے وقت یہ لوگ ان مظلوم فلسطینیوں کا تذکرہ بالکل نہیں کرتے جو گذشتہ ستر سال سے دُنیا بھر میں دربدر ہیں۔ اگر وہ اسرائیل رہ رہے ہیں تو ایسے جیسے ایک بہت بڑے جیل خانے میں قید ہوں۔ وہ روزانہ نہ صرف ذلّت و رُسوائی جھیلتے ہیں بلکہ تشدد و اذیت اور قتل و غارت کا بھی سامنا کرتے ہیں۔ ہمارے سیکولر، لبرل دانشور ویت نام کے عوام کی مظلومیت کا تذکرہ کرتے ہیں، جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے عالمی مقاطعہ کو درست گردانتے ہیں اور نیلسن منڈیلا کو صدی کی اہم ترین شخصیت شمار کرتے ہیں لیکن اسرائیل کی وکالت کرتے وقت ان کی زبانیں فلسطینیوں کے خون کی ارزانی پر گنگ ہو جاتی ہیں۔ سوالات اور مباحث یوں ہیں کہ؛ کیا اسرائیل سے ہماری کوئی سرحدی یا علاقائی دُشمنی ہے؟ کیا اس نے ہماری معاشی زندگی کو برباد کیا ہے؟ اس کا جھگڑا تو عربوں کے ساتھ ہے، اور اس کے پڑوسی عربوں نے تو اسے تسلیم کر لیا ہے، پھر ہم کیوں جذباتی ہو رہے ہیں۔ اسرائیل سے اس خوامخواہ کے جھگڑے کی وجہ سے امریکہ میں اسرائیلی لابی ہمارے خلاف ہو جاتی ہے اور ہماری پوزیشن کمزور ہو جاتی ہے۔
بعد ازاں ایسے فوائد بیان کرتے ہیں، جیسے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد پاکستان فوراً معاشی ترقی کی سیڑھیاں اس تیزی سے پھلانگے گا کہ اس کی مثال نہیں ہو گی۔ اس ساری بحث کا اہم نکتہ جس پر گفتگو نہیں ہوتی، وہ یہ ہے کہ اسرائیل ایک عام قومی ریاست نہیں، جو نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو بلکہ یہ ایک مذہبی ریاست ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ سلوان شالوم نے جب یکم ستمبر 2005ء کو پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے ساتھ ترکی میں صحافیوں سے گفتگو کی تو اپنی اس شناخت کو دہراتے ہوئے اسرائیل کو ایک یہودی ریاست (Jewish State) کہا۔ اسی طرح پاکستان بھی دُنیا کے نقشے پر قائم ہونے والی واحد مذہبی ریاست ہے۔ دونوں کی خارجہ پالیسی عالمی حالات اور علاقائی تنازعات سے زیادہ اپنے اپنے مذاہب کی تابع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے عوام اپنی خارجہ پالیسی اور دفاعی معاملات میں شدید جذباتی ہیں۔ یہودیوں کی یہ ریاست مغربی طاقتوں نے پوری دُنیا کے یہودیوں کو بزورِ طاقت وہاں اکٹھا کر کے بنائی تھی۔ یہودی، مذہبی اعتقاد کے مطابق یروشلم واپس آنا چاہتے تھے جہاں ایک دن ان کا ’’مسیحا‘‘ نازل ہو گا اور وہاں سے پوری دُنیا پر ایک عالمی حکومت قائم کرے گا۔ اسرائیل کا وجود خالصتاً ایک مذہبی مقصد کی تکمیل ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ دُنیا بھر سے اور خصوصاً مسلمانوں سے لڑائی کے لئے گذشتہ ستر سال سے مسلسل تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اسی طرح پاکستان کا قیام بھی ایک مسلمان ملت کے طور پر ہوا ہے اور آئین بھی اس کو قرآن و سنت سے بغاوت کی اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی خارجہ پالیسی بھی اسرائیل کی خارجہ پالیسی کی طرح مذہب کی تابع ہے۔ اس تناظر میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو دیکھیں تو دُنیا میں آباد یہودیوں کے بارے میں اللہ قرآنِ پاک میں مسلمانوں کو بار بار انتباہ کرتا ہے اور ان سے تعلقات رکھنے سے منع فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست مت بنائو، وہ صرف آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہی میں سے ہے‘‘ (المائدہ: 51) ۔ ایک اور جگہ مسلمانوں کو مستقل اور شدید دُشمنوں کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، ’’ضرور تم مسلمانوں کا سب سے زیادہ شدید دُشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائو گے‘‘ (المائدہ: 82)۔ ان دونوں صریح قرآنی احکامات کے بعد کسی بھی مسلمان ریاست کے لئے تھوڑی سی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی اس کے برعکس مرتب کرے۔
عرب ریاستوں کے لئے تو سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت حرفِ آخر ہے۔ سیدنا عمر ابن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں زندہ رہا تو انشاء اللہ جزیرۂ عرب سے یہود و نصاریٰ کو نکال باہر کروں گا‘‘ (صحیح مسلم، ابو دائود، مسند احمد)۔ اسی طرح موطآ امام مالکؒ کی یہ روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عرب میں دو دین جمع نہ ہوں گے‘‘۔ اس پر امام مالکؒ نے لکھا ہے کہ اسی حدیث کی بنیاد پر حضرت عمرؓ نے نجران اور فدک کے یہودیوں کو نکال دیا تھا۔ جزیرۂ عرب کی سرحدوں کا بھی سنن ابی دائود کی اس روایت میں تذکرہ ہے کہ ’’جزیرۃ العرب یمن سے لے کر عراق کی سرحد اور سمندر تک ہے‘‘۔ اس کے علاوہ ایک عالمی معاہدہ ہے جو حضرت عمرؓ اور بیت المقدس کے عیسائی حاکم کے درمیان ہوا تھا جب وہ بیت المقدس کی چابیاں دے رہا تھا۔ معاہدے میں لکھا ہے، ’’ہم مسلمانوں کو یہ شہر اس شرط پر حوالے کر رہے ہیں کہ یہاں یہودیوں کو مستقل آباد ہونے کی اجازت نہیں ہو گی۔ وہ صرف زیارت کے لئے آ سکتے ہیں‘‘۔ ان تمام احکاماتِ الٰہی کے بعد کسی عمومی مسلمان کے لئے اور خصوصاً جزیرۂ عرب کے رہائشیوں کے لئے لازم ہے کہ وہ یہود سے تعلقات استوار نہ کریں اور بحیثیت اسلامی ریاست پاکستان پر تو یہ لازم ہے کہ وہ اپنی وہ آئینی ذمہ داری پوری کرے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بن سکتا اور خارجہ تعلقات بھی ایک قانون کے تحت ہی استوار کئے جاتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ جب عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں۔ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ اللہ کے احکامات کے انکار میں کسی کی پیروی لازم نہیں ہے۔
جن چند عرب ممالک نے اسرائیل سے تعلقات بنائے، اس کا کوئی ایک فائدہ بھی نہیں گنوایا جا سکتا۔ اُلٹا وہ تمام حکمران اپنی عوام کی نفرت کی زد میں آ چکے ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں تیزی گذشتہ چند سالوں میں اس وقت آئی جب یمن تنازع کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ایران کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کو اپنی بقاء کا راستہ سمجھا۔ اس ضمن میں پاکستان کو آگے بڑھنے کے لئے کہا گیا تاکہ باقی ممالک اس کی مثال دے کر اپنی عوام کو مطمئن کر سکیں۔ نومبر 2020ء میں عمران خان نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا تھا کہ اس پر دوست ممالک کی طرف سے بہت زیادہ دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ صہیونی ریاست کو تسلیم کر لے، لیکن پاکستان کبھی بھی اس صہیونی ریاست کو تسلیم نہیں کرے گا جب تک مسلمانوں کے ساتھ ایک منصفانہ فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس دبائو سے آزاد ہونے کے لئے ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہو گا۔ اس انکار کے بعد ہی پاکستان سے سٹیٹ بینک میں رکھے ہوئے دو ارب ڈالر واپس منگوا لئے گئے تھے اور گذشتہ دنوں مفتاح اسماعیل نے بھی کہا ہے کہ عرب ممالک ہماری مدد کو تیار ہیں مگر ان کی ایک شرط ہے اور وہ اس شرط کو گول کر گیا۔ باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ چار بڑوں کی اس میٹنگ میں واحد عمران خان ہی تھے جنہوں نے انکار کیا، ورنہ باقی تینوں وہی دلائل دے رہے تھے جو سیکولر، لبرل دانشور عموماً دیتے ہیں۔ یہودی دُنیا بھر سے پُر آسائش زندگیاں چھوڑ کر اپنی مذہبی پیش گوئیوں کے مطابق مسلمانوں سے لڑنے کے لئے وہاں جمع ہوئے ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پیش گوئی فرما دی ہے کہ ’’قیامت قائم نہ ہو گی مگر یہ ہے کہ اس سے پہلے مسلمان یہودیوں سے آخری معرکہ لڑیں گے، پھر مسلمان ان کو قتل کرتے چلے جائیں گے، حتیٰ کہ یہودی اگر کسی پتھر یا کسی درخت کی آڑ میں چھپا ہو گا تو وہ پتھر اور درخت بولے گا، اے مسلمان ! اے اللہ کے بندے! میرے پیچھے ایک یہودی چھپا بیٹھا ہے۔ اِدھر آ اور اسے قتل کر دے‘‘ (صحیح مسلم، الفتن)۔ اسرائیل جانے والے تمام وفود بے معنی اور لاحاصل ہی رہیں گے۔ یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ (ختم شد)
Source: 92 news
Must Read Urdu column Israel se taeluq kis ki Iemaa Par Last Part By Orya Maqbool jan