جب مت ماری جاتی ہے- جاوید چوہدری
عثمان بزدار کے دور میں پنجاب کیسے چلتا رہا آپ اس ضمن میں دو واقعات مزید ملاحظہ کرلیں‘ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم جان کے دور میں ہائی کورٹ اور پنجاب حکومت آمنے سامنے آ گئی‘ لڑائی چند انچ پر کھڑی تھی‘ لڑائی کی وجہ دل چسپ تھی۔
چیف جسٹس کی خواہش تھی پنجاب حکومت عدالتی اسٹاف کو بنیادی تنخواہ کے بجائے لم سم تنخواہ پر پنشن دے دے‘ حکومت اس کے لیے رضا مند نہیں تھی‘ کیوں؟ کیوں کہ سرکار تمام سرکاری ملازمین کو ان کی بنیادی تنخواہ پر پنشن دیتی ہے۔
آپ اس ایشو کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں آپ ایک سرکاری ملازم ہیں‘ آپ فرض کریں آپ کی بنیادی تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے لیکن آپ کو ملتے تین لاکھ روپے ہیں‘ کیسے؟ حکومت آپ کو آپ کی ڈیوٹی کی نوعیت کے مطابق مختلف الاؤنس بھی دیتی ہے‘ اس میں گاڑی‘ پٹرول‘ یوٹیلٹی بلز‘ رہائش‘ انٹرٹینمنٹ‘ فیملی‘ ہیلتھ اور بچوں کی تعلیم کے الاؤنس شامل ہوتے ہیں‘ یہ تمام الاؤنس مل ملا کر تین لاکھ ہو جاتے ہیں۔
آپ جب ریٹائر ہو جاتے ہیں تو سارے الاؤنسز خود بخود ختم ہو جاتے ہیں اور پیچھے آپ کی بنیادی تنخواہ رہ جاتی ہے‘ حکومت آپ کے انتقال تک آپ کو اس بنیادی تنخواہ سے پنشن دیتی رہتی ہے اور یہ فارمولا تمام سرکاری ملازمین کے لیے یکساں ہے۔
عدلیہ کے الاؤنس تمام سرکاری اداروں سے زیادہ ہیں‘ عدالت کا چپڑاسی اور ڈرائیور بھی 90 ہزار سے لاکھ روپے تک تنخواہ لیتا ہے‘ چیف جسٹس صاحب کی خواہش تھی عدالتی ملازمین کو لم سم تنخواہ پر پنشن دی جائے یوں چپڑاسی سے لے کر چیف جسٹس تک تمام عدالتی ملازمین کی پنشنز میں چار گنا اضافہ ہو جاتا‘ فنانس سیکریٹری کا جواب تھا ہم اگرعدالتی عملے کے لیے فارمولا تبدیل کرتے ہیں تو پھر ہمیں تمام سرکاری ملازمین کو یہ سہولت دینا ہوگی۔
پنجاب کے محکمہ تعلیم میں پانچ لاکھ حاضر سروس اور پانچ لاکھ ریٹائرڈ ملازمین ہیں‘ ہمیں یہ سہولت انھیں بھی دینا ہو گی اور یہ معاملہ پھر ایک صوبے تک نہیں رہے گا‘ باقی صوبوں کو بھی پنشن کا سسٹم بدلنا ہوگا اور یوںپنشن ہمارے ٹوٹل جی ڈی پی کے برابرہو جائے گی اور ملک ایک سال میں ڈیفالٹ کر جائے گا۔
وزارت خزانہ کا تخمینہ تھا ہم اگر یہ اجازت دے دیتے ہیں تو پنجاب کو فوری طور پر 900 ارب روپے کی ادائیگی کرنا پڑے گی اور یہ کسی طرح ممکن نہیں تھی‘ یہ دلیل چیف جسٹس کے لیے قابل قبول نہیں تھی لہٰذا عدلیہ اور حکومت کا ٹکراؤ شروع ہوگیا۔
عدالت میں حکومت کے خلاف سیکڑوں مقدمات زیر سماعت تھے‘ ان مقدمات کی اسپیڈ بھی تیز ہو گئی اور عدالت میں سرکاری افسروں کی سرعام بے عزتی بھی ہونے لگی‘ سیکریٹریوں نے چیف سیکریٹری سے وزیراعلیٰ کو مطلع کرنے اور مسئلے کا کوئی حل تلاش کرنے کی درخواست کی‘ جواد رفیق اس وقت چیف سیکریٹری تھے۔
چیف سیکریٹری نے وزیر قانون راجہ بشارت سے درخواست کی سر ایشو سیریس ہے‘ ہمیں فوری طور پر وزیراعلیٰ سے مل کر کسی سلوشن کی طرف جاناہو گا‘ راجہ بشارت نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کہا ’’جواد صاحب وزیراعلیٰ سے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں‘ آپ ان کا دیا ہوا حل سن کر اپنے سرپر مکا مار لیں گے۔
آپ خود ہی کوئی حل نکال لیں‘‘ جواد رفیق کا جواب تھا ’’سر یہ میری اوقات سے بڑا کام ہے‘ میں یہ مسئلہ خود حل نہیں کر سکوں گا‘‘ بہرحال چیف سیکریٹری کے اصرار پر راجہ بشارت نے عثمان بزدار سے وقت لے لیا اور یوں وزیر قانون‘ چیف سیکریٹری اور ہوم سیکریٹری وزیراعلیٰ کے پاس چلے گئے‘ چیف سیکریٹری اور وزیر قانون وزیراعلیٰ کے سامنے بیٹھ گئے جب کہ ہوم سیکریٹری کو بریفنگ کی ذمے داری دے دی گئی‘ ہوم سیکریٹری نے طویل بریفنگ دی۔
عثمان بزدار اطمینان سے بات سنتے رہے‘ ہوم سیکریٹری تھک گیا تو بزدار نے راجہ بشارت اور چیف سیکریٹری کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور وہ وزیراعلیٰ کی طرف دیکھنے لگے‘ نظروں کا یہ تبادلہ بڑی دیر تک جاری رہا لیکن وزیراعلیٰ خاموش بیٹھے رہے‘ آخر میں ہوم سیکریٹری نے ہمت کی اور عرض کیا ’’سر حکم کریں ہم کیا کریں؟‘‘ عثمان بزدار نے چند لمحے سوچا اور پھر کہا ’’سیکریٹری صاحب گھر جائیں‘ دو نفل نماز پڑھیں اور یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں‘‘ اور اس کے ساتھ ہی یہ میٹنگ ختم ہو گئی۔
راجہ بشارت نے سی ایم آفس سے نکلتے ہوئے چیف سیکریٹری سے کہا ’’جواد صاحب میں نے آپ کو ٹھیک کہا تھا ناں‘ آپ نے اب وزیراعلیٰ کا حل سن لیا‘‘ اور یہ تینوں خاموشی سے اپنے اپنے دفتر چلے گئے اور یہ معاملہ بھی بعدازاں فوج کو سلجھانا پڑ گیا‘ اس میں ایک میڈیا مالک نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا‘ یہ میڈیا مالک بزنس مین ہیں اور یہ سابق چیف جسٹس کے ذاتی دوست تھے‘ انھوں نے چیف جسٹس کی منت کی اور یوں حکومت اور عدالت کے درمیان سیز فائر ہو گیا۔
عثمان بزدار کی شان دار ایڈمنسٹریشن کا دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دل چسپ تھا‘ پنجاب میں تحریک لبیک نے مظاہروں کا اعلان کر دیا‘ ریاست کا فیصلہ تھا ہم اس بار انھیں لاہور سے نہیں نکلنے دیں گے‘ پنجاب کے مختلف شہروں میںمتعدد مقامات پر ہنگامے شروع ہو گئے‘ سڑکیں‘ چوراہے اور موٹروے بند کر دی گئی۔
لاہور کے بیڑی چوک میں مسجدکے سامنے حالات زیادہ کشیدہ تھے‘ ہوم سیکریٹری نے چیف سیکریٹری کو مشورہ دیا ’’سر ہمیں رینجرز بلا لینی چاہیے‘‘ چیف سیکریٹری رینجرز نہیں بلانا چاہتے تھے‘ ہوم سیکریٹری کا خیال تھا اگر ہم نے آپریشن کیا تو لوگ مریں گے اور کل ہم سب عدالتوں میں دھکے کھائیں گے‘ ہم رینجرز طلب کرلیتے ہیں۔
لوگ رینجرز پر حملہ بھی نہیں کرتے اور دوسرا ان کے خلاف پرچہ بھی نہیں ہو سکتا یوں ہم سب بھی بچ جائیں گے اور صوبے میں امن بھی ہو جائے گا‘ چیف سیکریٹری اور ہوم سیکریٹری نے وزیراعلیٰ سے رابطہ شروع کر دیا لیکن وزیراعلیٰ غائب تھے۔
سی ایم کے ذاتی اسٹاف سے منتیں کر کے عثمان بزدار سے فون پر رابطہ کیا گیا‘ وزیراعلیٰ کا جواب تھا ’’میں نے کمیٹی بنا دی ہے‘ کمیٹی جانے اور ٹی ایل پی جانے‘ آپ اپنا فیصلہ خود کریں‘ میں سونے جا رہا ہوں‘ مجھے ڈسٹرب نہ کیا جائے‘‘ اور وہ اس کے بعد سارے فون بند کر کے سو گئے‘ یہ آپریشن جتنے دن چلتا رہا‘ وزیراعلیٰ غائب رہے۔
وزیراعلیٰ کیوں غائب رہے؟ کیوں کہ وزیراعلیٰ جانتے تھے آپریشن میں لوگ مریں گے‘ کمیشن بنے گا اور کمیشن میں وزیراعلیٰ کو بھی طلب کیا جائے گا لہٰذا میں یہ ذمے داری کمیٹی پر ڈال کر نکل جاؤں گا‘ عثمان بزدار کی یہ تکنیک ٹھیک تھی۔
یہ فیصلہ سازی کے کسی بھی عمل کا حصہ نہیں ہوتا تھا چناں چہ آپ دیکھ لیں‘ یہ آج کسی بھی میگا کرپشن کیس میں مطلوب نہیں ہے‘ میں نے عثمان بزدار کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں سے بار بار ایک سوال پوچھا ’’کیا یہ واقعی سادہ انسان تھا؟‘‘ مجھے جواب نے حیران کر دیا۔
ان کا کہنا تھا ’’یہ انتہائی چالاک انسان تھا‘ ساڑھے تین سال میں اس کی توجہ صرف ڈی جی خان پر رہی‘ یہ جب بھی ڈی جی خان کی اسکیموں پر میٹنگ لیتا تھا تو یہ پورا شہباز شریف بن جاتا تھا‘ اسے وہاں ایک ایک ٹھیکے دار اور ایک ایک کانٹریکٹ کا علم ہوتا تھا لیکن باقی صوبہ اس کی بلا سے تنور میں چلا جائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔‘‘
میں اکثر سوچتا ہوں ہمارے ساتھ آخر ہوا کیا تھا اور ہمارے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے تو مجھے دو تین باتیں سمجھ آتی ہیں‘ پہلی بات‘ عمران خان اور عثمان بزدار دونوں کی یہ پہلی فلائیٹ تھی‘ پہلی فلائیٹ کی ایک قیمت ہوتی ہے اور اس قوم نے یہ خوف ناک قیمت ادا کی‘ دوسری بات‘ اس ملک کے ڈی این اے میں پاگل پن کی حد تک جذباتیت تھی اور اس پاگل جذباتیت کو اب ایک لیڈر مل گیا ہے چناں چہ آپ اس کا نتیجہ دیکھ لیں۔
آج اس ملک میں عقل کی بات‘ دلیل اور ریزن فوت ہو چکی ہے‘ آپ کسی فورم پر عقل کی بات کر کے دیکھ لیں لوگ آپ کے گلے پڑ جائیں گے‘ میرا دعویٰ ہے آج اگر عمران خان بھی عقل کی بات کریں تو ان کی ٹرولنگ بھی شروع ہو جائے گی۔
کیوں؟ کیوں کہ عقل اس ملک میں فوت ہو چکی ہے‘ مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے زمانے کے درویش بہلول دانا سے ایک بار پوچھا تھا‘ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے ناراض ہو تا ہے تو وہ کیا کرتا ہے؟ بہلول نے ہنس کر جواب دیا ’’اللہ اس قوم کی مت مار دیتا ہے‘‘ اور آج یقین کریں ہماری مت ماری گئی ہے۔
ہمیں سامنے کھدے ہوئے گڑھے بھی نظر نہیں آ رہے‘ ملک کی حالت یہ ہے ہماری انرجی سیکیورٹی زیرو‘ ہمیں آج فرنس آئل نہ ملے تو چار دن بعد پورے ملک کی بجلی بند ہو جائے گی‘ اکنامک سیکیورٹی زیرو‘ لائف سیونگ ادویات تک کی ایل سی کھولنے کے لیے بھی ڈالرز نہیں ہیں‘ فوڈ سیکیورٹی زیرو‘ لوگ آٹے کے لیے ایک دوسرے کو کچل رہے ہیں۔
گورننس زیرو‘ پورے ملک کی بیوروکریسی احکامات کے لیے اتھارٹی تلاش کر رہی ہے اوراسے نہیں مل رہی اور سینس آف ڈائریکشن بھی زیرو‘ پوری قوم نہیں جانتی یہ کس کھائی کی طرف دوڑ رہی ہے اور جو شخص اس ساری صورت حال کا ذمے دار ہے اور جو روز ڈوبتی کشتی کے پیندے میں سوراخ کر رہا ہے وہ اس وقت ہیرو ہے‘ واقعی جب قوموں کی مت ماری جاتی ہے تو یہ اپنی اکلوتی رضائی بھی جلا کر آگ تاپنے لگتی ہیں‘ اللہ ہی کرم کرے‘ اب تو کوئی امید بھی باقی نہیں بچی۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Jab Mut Mari Jati hai By Javed Chaudhry