جماعتوں، ذاتوں میں جمہوریت ! – ارشاد بھٹی
خواجہ آصف پکڑے گئے، گرفتاری کے کئی پہلو، ایک پہلو وزیراعظم کی خواہش خواجہ آصف گرفتار ہوں، سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن بتا چکے، وزیراعظم نے انہیں بلا کر کہا کہ بحیثیت وزیر دبئی میں ملازمت کرنا، غداری کے زمرے میں آئے، خواجہ آصف پر آرٹیکل سکس مطلب غداری کا مقدمہ چلایا جائے، وزیراعظم انہیں رنگ بازخواجہ بھی کہہ چکے، اس لحاظ سے تو گرفتاری مطلب بدلے کی بھاونا کو شانتی مل گئی
دوسرا پہلو، نیب مؤقف، خواجہ آصف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات پر پکڑا گیا، 1991میں سینیٹر بننے سے پہلے خواجہ آصف کے اثاثوں کی مالیت 51لاکھ تھی،سیاست میں آنے کے بعد 2018تک پہنچتے پہنچتے خواجہ صاحب کے اثاثے 221ملین تک پہنچ گئے، خواجہ صاحب پاکستان میں وزیرا ور یواے ای کمپنی میں ہنرمند مزدور نمبر 303تھے، فل ٹائم ملازم، روزانہ 8گھنٹے، ہفتے میں 6دن کام کرنے کے پابند، سال میں 30چھٹیاں، ایک بونس، گھر سمیت کئی سہولتوں کے حقدار، 16لاکھ ماہانہ تنخواہ کی مد میں 13کروڑ ظاہر کی مگر اس رقم کا کوئی ٹھوس ثبوت نہ پیش کر سکے، خواجہ آصف اپنے ملازم طارق میر کے نام پر ’طارق میر اینڈ کمپنی‘ بھی چلار ہے تھے جس کے اکاؤنٹ میں 40کروڑ کی رقم جمع کروائی گئی ۔
خواجہ آصف گرفتاری پر مریم نواز نے پریس کانفرنس کھڑکائی، وہی گھسا پٹامؤقف کہ خواجہ آصف کو نواز شریف کا ساتھ نہ چھوڑنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا، بندہ پوچھے نواز شریف خود نااہل، سزا یافتہ، اشتہاری، عدالتیں بلار ہیں، آنہیں رہے، جو خود اپنی جان بچاتا پھر رہا ہو،اسکا کسی نے کیا ساتھ دینا، کیا ساتھ چھوڑنا، مریم نواز کے کیا کہنے، سپریم کورٹ میں جعلسازی کر چکیں، میری بیرون ملک کیا اندرون ملک کوئی جائیداد نہیں والا جھوٹ بول چکیں، جعلی ٹرسٹ ڈیڈ، جعلی کیلبری فونٹ معاملے بھگتا چکیں،
ابھی بے نظیر بھٹو کی 13ویں برسی پر لاڑکانہ میں کہہ رہی تھیں، بے نظیر بھٹو بھی اپنے باپ کے مشن کیلئے باہر نکلی تھیں، میں بھی اپنے باپ کے مشن کیلئے نکلی ہوئی ہوں، اندازہ لگائیے، کہاں بھٹو صاحب اور کہاں نواز شریف، کہاں بے نظیر بھٹو اور کہاں مریم نواز، کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں، پھر وہ شاید یہ بھول گئیں، اگر ضیاء مارشل لا نہ لگاتا، بھٹو صاحب کوپھانسی نہ لگواتا، نواز شریف سیاست میں آنے کی بجائے اس وقت اپنا کاروبار چلار ہے ہوتے،بھٹو صاحب کو پھانسی لگوانے والے ضیاء جبکہ نواز شریف کو سیاست میں لانے والے بھی ضیاء، یعنی کہ ضیاء الحق بھٹو کی موت ، ضیاء الحق نواز شریف کی حیات، ویسے جو کچھ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کے ساتھ کر چکے، جو کچھ زرداری صاحب، بلا ول بھٹو اور شریف برادران، مریم نواز ایک دوسرے کے بارے میں کہہ چکے.
اس کے بعد بڑی ہمت کی بات ہے، مریم نواز کا بی بی کی قبر پر جانا اور بلاول بھٹو کا مریم نوازکو قبر پر لے جانا، یہاں مجھے یہ بھی یاد آرہا کہ بی بی کو قتل ہوئے 13سال ہوگئے، بی بی کے قاتلوں کا کچھ پتا نہ چلا، حالانکہ 12سال پہلے زرداری صاحب کہہ چکے کہ میں قاتلوں کو جانتا ہوں، پی پی 5سال مرکز میں حکومت کر چکی، 13سال سے سندھ پر حکومت مگر بی بی کے قاتل نہ پکڑے گئے۔
ویسے تو پی پی کے ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشن لڑنے کے اعلان کے بعد جہاں پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکل چکی، وہاں پی پی اور مسلم لیگ قربتوں کو بھی بریکیں لگ چکیں، لیکن یہ بتا تا چلوں، یہ بڑے سیانے لوگ، پہنچے ہوئے بزرگ، ان کے بے حساب چہرے، ان گنت زبانیں، یہ کمال کے جگاڑو، جب پھنس جائیں، مشکل وقت آئے، فوراً ملک وقوم اورجمہوریت کے نام پر اکٹھے ہوجائیں، جونہی مشکل وقت گزر جائے، ملک وقوم اور جمہوریت کیلئے علیحدہ علیحدہ ہوجائیں
گزرے 32سالوں میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف نے 13مرتبہ اتحاد واتفاق کی باتیں کیں، باہم ملکر چلنے کے وعدے کئے، بی بی نواز حکومت میں جذبہ خیر سگالی کے تحت خارجہ کمیٹی کی چیئر پرسن بھی بنیں، باری باری حکومت کرنے پر بھی اتفاق ہوا، جلاوطنی کے دور میں بے نظیر بھٹو سرور پیلس جدہ گئیں، جبکہ شریف برادران میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے رحمٰن ملک کے لند ن والے گھر جا پہنچے(حالانکہ شریف برادران رحمٰن ملک کے گھر نہیں جانا چاہتے تھے،ان کا کہنا تھا کہ چونکہ رحمٰن ملک نے ہمارے والد میاں شریف کو گرفتار کروایا، اس لئے ہم ان کے گھر نہیں جائیں گے، جب بینظیر بھٹو نے یہ سنا تو کہا اگر میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے ہیں تو رحمٰن ملک کے گھر ہی آنا پڑے گا، بالآخر شریف برادران رحمٰن ملک کے گھر گئے اور میثاق جمہوریت پر دستخط کئے)۔ دونوں جماعتوں میں میثاق مری بھی ہوا، زرداری صاحب 52ڈشز کھانے رائے ونڈ آئے جبکہ شہباز شریف بلاول ہاؤس کراچی پہنچے
مگر نتیجہ کیا نکلا جو اب کی قربتوں سے نکلے گا، اور اب تو زرداری صاحب یہ پیغام بڑے واضح انداز میں پہنچا چکے کہ لانگ مارچ،دھرنے، استعفے تبھی سب کچھ ہوگا جب نواز شریف لندن سے پاکستان آکر پی ڈی ایم کو لیڈ کریں گے مطلب نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی، نہ نواز شریف نے آنا نہ بات استعفوں کی طرف جائے گی۔
ویسے تو پی ڈی ایم شہر شہر جمہوریت ڈھونڈتی پھر رہی مگر اپنی جماعتوں اور اپنی ذاتوں میں، بس اتنی جمہوریت کہ مولانا شیرانی یہ کہہ بیٹھے کہ مولانا فضل الرحمٰن کیسے عمران خان کو سلیکٹڈ کہہ سکتے ہیں، وہ تو خود سلیکٹڈ ہیں اور پی ڈی ایم ذاتی مفادات کی وجہ سے بنی ہے، شیرانی صاحب نے یہ کہا اور مولانا فضل الرحمٰن نے انہیں جماعت سے ہی نکال باہر کیا، حافظ حسین احمد نے کہہ دیا کہ نواز شریف آستین کا سانپ ہے، مولانا نے انہیں بھی جماعت سے نکال دیا، اسی طرح مولانا نے گل نصیب، شجاع الملک کوبھی اپنے مخالف بیانات دینے پر جماعت سے نکال دیا، یہ ہے ان کی جمہوریت، خود فوج کو گالیاں دے لیں
آزاد بلوچستان کی سلپ آف ٹنگ ہوجائے، قائداعظم مزار کی بے حرمتی کردیں، اردو زبان اور پنجابیوں کو بر ا بھلا کہہ دیں یا افغان بارڈ ر باڑ اکھاڑ کر پھینک دینے کا نعرہ مار دیں، خود سب کچھ جائز، مگر کوئی اپنا ذرا سا اختلاف بھی کرے، اسے پارٹی سے نکال دو، قطع تعلق کرلو، یہی ہے ان کی اصلی تے ودھیا جمہوریت ۔
Source: Jung News
Read Urdu column Jamaton Zaaton mai Jamhoriat By Irshad Bhatti