جمہوریت کی اکثریت میں اقلیت کی غلامی – اوریا مقبول جان
گجرات ،کاٹھیا وار کا تاریخی علاقہ جسے 1197ء میں قطب الدین ایبک نے اپنی سلطنت میں شامل کیا تھااوراس خطے پر مسلمانوں کا یہ اقتدار 1614ء تک قائم رہا۔بحرِ ہند کے کنارے آباد اس خطے میں ولندیزی، پرتگالی، فرانسیسی اور انگریز، چاروں نو آبادیاتی قوتوں نے اپنے اپنے اڈے قائم کیے۔ یوں اس علاقے میں آپ کو ہر مذہب کے ماننے والوں کی ایک نمائندہ تعداد ضرور مل جائے گی، لیکن اتنی زیادہ نو آبادیاتی قوتوں کی حکومتوں کے باوجود آج بھی یہاں ہندو آبادی 90فیصد کے قریب ہے ،جبکہ ایک فیصد آبادی میں عیسائی، پارسی، جین اور بدھ شامل ہیں۔ آج یہ علاقہ پورے بھارت میں ہندو انتہا پسندی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ نریندر مودی، اسی علاقے میں اپنی مقبولیت کے پرچم گاڑتا ہوا، بھارت کی وزارتِ عظمیٰ کے مسند تک پہنچا ہے۔مودی کی مقبولیت کی بنیاد ہندو انتہا پسندی کا وہ ظلم ہے جو احمد آباد کے مسلمانوں پر گذشتہ باون سال سے جاری ہے۔ بھارت میں بڑے پیمانے پر سب سے پہلے مسلم کش فسادات ستمبر 1969ء میں گجرات میں ہی ہوئے تھے۔ان فسادات میں 2ہزار مسلمان شہید کر دیئے گئے اور ان کی بیشتر املاک کو آگ لگا دی گئی۔ احمد آباد کے فروری 2002ء کے فسادات کو کون بھول سکتا ہے، ان مظالم کے دل دہلا دینے والے مناظر، آج بھی مسلمانوں کی آنکھوں میں ڈراونے خوابوں کی طرح نقش ہیں۔ مسلمان عورتوں کو چوراہوں میں لاکر سر عام زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور معصوم بچوں کو جلتی آگ میں پھینکا گیا۔دنیا بھر کے میڈیا پر ایک مسلمان درزی قطب الدین انصاری کی تصویر بہت عام ہوئی تھی، جس میں وہ ہاتھ جوڑے ہوئے ایک جلتے ہوئے مکان کی دوسری منزل پر رحم کی بھیک مانگ رہا تھااور مکان کو چاروں طرف سے غنڈوں نے گھیرا ہوا تھا۔ کانگریس کے مسلمان ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری کے جلتے ہوئے گھر کے مناظر تو سب کو یاد ہوں گے ،جس میں ہندو بلوائیوںکے ڈر سے مسلمانوں نے پناہ لی تھی کہ شاید ان کی زندگیاں بچ جائیں گی ،لیکن ان 89 مسلمانوں کو زندہ جلادیا گیا۔ گجرات کے شہر احمد آباد میں ان فسادات کی راکھ سے دو بدترین واقعات نے جنم لیا۔ ایک یہ کہ احمد آباد سے چند سو کلومیٹر دور ’’جوہا پورہ‘‘ کا وہ علاقہ وجود میں آیا، جس میں لٹے پٹے مسلمان خاندان جا کر آباد ہونا شروع ہوئے اور آج اس علاقے کی آبادی سات لاکھ کے قریب ہے۔ اس علاقے کو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ’’گھیٹو‘‘ (Ghetto)کہا جاتا ہے۔ گھیٹو ایک ایسی آبادی کو کہتے ہیں جس میں قابلِ نفرت اقلیت کو ایسی حالت میں رکھا جاتا ہے، کہ انہیں کسی قسم کی شہری سہولت مثلاً پانی، سیوریج، بجلی، گیس اور پکی سڑکیں وغیرہ میسر نہیں ہوتیں، اور دوسراواقعہ یہ کہ بھارت میں یہ تصور جڑ پکڑ گیا کہ اس ملک میں صرف اور صرف ایک ہی مذہب اور ایک ہی قوم کی اجارہ داری ہونی چاہیے اور اس اجارہ داری کو نریندر مودی کی طرح جمہوری اکثریت کی قوت سے ہی نافذ کیا جانا چاہیے۔ ٹھیک سو سال پہلے ’’ہندوتوا‘‘ کا جو بیج، ’’شدھی‘‘، ’’سنگٹھن ‘‘اور’’ وشو ہندو پر یشد‘‘نے لگایا تھا، اس کی سب سے اہم کونپل گجرات کے انہی علاقوں میں پھوٹی اور پھر ایک آکاش بیل کی طرح پورے بھارت میں براستہ جمہوریت چھا گئی۔ ہندو ووٹر کی اکثریت کی
یہ آمریت جو اس وقت بھارت پر مسلط ہے، یہ کسی ہتھیار، شدت پسند گروہ یا افواج کی مدد سے نہیں بلکہ خالصتاً جمہوری سیاسی عمل سے وہاں قائم ہوئی۔ جمہوریت اس کی پشت بان اور نگہبان ہے اور اکثریت سے قائم کردہ آمریت کی حکومت اس ظلم و تشدد کی سب سے بڑی علامت ہے۔ جمہوری اکثریت سے قائم کردہ آمریت کے تحت زندگی گذارنے والی اقلیت کے دلوں میں جو خوف ہوتا ہے اور زندگی گذارنے کے لیئے انہیںجو سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں، ان کی اذیت کا دکھ صرف وہی جانتا ہے جس پر یہ سب کچھ بیت رہا ہوتا ہے۔ اس خوف اور اندورنی اذیت سے جنم لینے والے سمجھوتے والے روّیے کا ایک اظہار گذشتہ دنوں گجرات کے مشہور شہر ’’پتن‘‘ کے ایک مسلمان ڈاکٹر حامد منصوری اور ان کی بیگم مختار بانو کے ویڈیو پیغام میں ہوا ہے، جسے اس وقت ’’راشٹریا سیوک سنگھ‘‘ اور’’ ویشو ہندو پریشد‘‘ کے افراد پورے بھارت میں پھیلا رہے ہیں۔ ڈاکٹر حامد منصوری اور ان کی بیگم ممتاز بانو نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ بننے والے رام مندر کی تعمیر کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے چندہ دیا ہے۔ ڈاکٹر حامد منصوری کا بچپن اور جوانی احمد آباد میں گذرا ہے اور اس نے بی جے میڈیکل کالج میں میڈیسن کی تعلیم حاصل کی ہے۔ یعنی دونوں میاں بیوی مسلمان اقلیت پر ہونے والے پچاس سالہ ظلم سے بخوبی واقف بھی ہیں اور ایودھیا کے لئے چلائی جانے والی ’’رام جنم بھومی‘‘کی نفرت انگیز تحریک سے بھی مکمل آشنا ہیں۔ دونوں اس سال حج پر گئے اور پھر واپس آکر انہوں نے بابری مسجد کی جگہ پر بننے والے چھوٹے سے رام مندر میں جا کرماتھا بھی ٹیکا۔ ممتاز بانو نے نے ویڈیو میںیہاں تک کہا ہے کہ اس نے رام مندرکی تعمیر کے لئے دعا حرم میں جا کر مانگی تھی۔ ڈاکٹر حامد منصوری، پتن شہر میں امراضِ قلب کا سب سے بڑا ہسپتال ’’Riya‘‘چلا رہے ہیں۔ ویڈیومیں ڈاکٹر حامد منصوری کے چہرے کا کربناک تاثر چھپائے نہیں چھپتا۔ کوئی سیکولر، ملحد یالا مذہب شخص ہوتا تو شاید اسے اپنے چہرے پر لبادہ اوڑھنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی، لیکن ایک نماز روزے کے پابند اور حج کرنے والے مسلمان ڈاکٹر کے منہ سے ’’رام‘‘ کو تمام مذاہب کا نمائندہ کہنے کے الفاظ جس کرب سے ادا ہوئے ہیں اس کا دکھ صرف وہی جانتا ہے،
جس نے کسی جمہوری ملک میں اکثریت کی بدترین آمریت دیکھی ہو۔ لشکروں کے بل بوتے پر قائم آمریت کو تاریخ میں بڑی آسانی کے ساتھ بدنام کیا جاتا رہا ہے۔ چنگیز خان ہو یا ہلاکو، نادر شاہ ہو یا تیمور، فرعون ہو یا نمرود، سب تاریخ میں ظالم کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ جنرل فرانکو ہو یا جنرل پنوشے، جنرل ایوب ہو یا کرنل جمال ناصر، یہ جدید دور کے ظالم ڈکٹیٹر ہیں جنہیں ’’آمر‘‘ کہہ کر گالی نکالی جا سکتی ہے۔ لیکن کیا بھارت میں ظالم وزیراعظم نریندر مودی ہے۔ نہیں، ہر گز نہیں،بلکہ ظالم تو دراصل وہ79.8فیصد ہندو اکثریت ہے جس کی آمریت ’’ووٹ‘‘ کے ذریعے باقی 19.2فیصد اقلیت پر ظالموں ، جابروں، آمروں اور قاتلوں کی طرح مسلط کی گئی ہے۔ اس آمریت کو کسی فوج یا لشکر نے مسلط نہیں کیا، بلکہ یہ عوام کی جمہوری اکثریت نے مسلط کیا ہے۔ ہر کوئی نریندر مودی کو گالی دیتا ہے، لیکن اگر اس کے پاؤں تلے سے اس جمہوری اکثریت کی سیڑھی کو کھینچ لیا جائے تو وہ دھڑام سے نیچے آگرے گا۔ بھارت کی جمہوریت اپنے تمام اصولوں کے مطابق ایک آئیڈیل جمہوری نظام ہے۔ پچھتربرسوں میں کبھی فوج نے مداخلت کر کے آئین نہیں توڑا اور نہ ہی اسے معطل کیا۔ وہاں جمہوریت کا ایک تسلسل قائم رہا۔ کبھی فوج، سپریم کورٹ یا کسی خفیہ ایجنسی پر اپنی حدود سے تجاوز کرکے سیاست دانوں کو خوفزدہ کرنے کا الزام نہیں لگا۔
کوئی نیب نام کا ادارہ وہاں موجود نہیں ہے جولاتعداد مجرمانہ پس منظر رکھنے والے ممبران اسمبلی کو پکڑے ،جیل میں ڈالے اور پھر ان سے این آر او کی طرح پولیٹیکل انجینئرنگ کرے۔ بھارت میں آئینی بالادستی قائم ہے اور وہاں ہمیشہ دھاندلی سے پاک شفاف الیکشن ہوتے ہیں۔ ایسی شاندار جمہوریت میں دنیا کی سب سے بدقسمت اور مظلوم مسلمان اقلیت خوف کے عالم میں زندگی بسر کرتی ہے۔ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گھری ہوئی اور تشدد کی سان پر چڑھی ہوئی بد نصیب مسلمان اقلیت۔ کسی بھی ملک میں مذہبی، نسلی، علاقائی یا لسانی گروہ جو اکثریت میں بھی ہوں، ان کے لئے اقلیت پر ظلم روا رکھنے کے لئے جمہوریت سے بہتر کوئی اور نظام نہیں ہوسکتا۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Jamhoriat ki Aksariat mian aqliat ki gulami By Orya Maqbool jan