جاتی عمرہ….. جائے عبرت حسن نثار
تجب یہ پہلے برباد اورجلاوطن ہوئے اور جاتی عمرہ اجڑا تو میں نے اداس ہو کر اک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ’’جاتی عمرہ سے صدا آتی ہے‘‘ تب ایک تو میں جذباتی بہت تھادوسرا یہ کہ مجھ احمق کا خیال تھا کہ اگر یہ کبھی واپس آئے توبہتر انداز میں ’’بی ہیو‘‘ کریں گےلیکن انہوں نے آتے ہی سب سے پہلے سڑکوں پر ناجائز قبضہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد ہی میں نے ’’بیلی پور‘‘ میں اپنی ’’ہانسی حویلی‘‘ چھوڑ دی اورخود سے یہ عہد کیا کہ تب تک میرا اپنا گھر مجھ پہ حرام رہے گا جب تک ان سے رستوں کا ناجائز قبضہ نہیں چھڑوالیاجاتا۔اللہ اور عدلیہ کا شکریہ۔ رکاوٹیں اور تجاوزات کا خاتمہ ہوچکا اور کل جب چند سال بعد میںجاتی عمرے کے آگے سے گزرا تو منظر تبدیل ہوچکا تھا۔ کوئی سرخرو اور کوئی بری طرح ذلیل ہوچکا تھا۔ تب مجھے یہ صدا آئی، ندا سنائی دی کہ جاتی عمرہ، جائے عبرت میں تبدیل ہونے والا ہے۔انشاء اللہ، یہ اپنے منطقی انجام سے دوچارہوں گے۔ میں روزِ اول سے کہہ رہاہوں کہ یہ ’’نسل شریفیہ‘‘ کسی قانون نہیں، قانون قدرت کی لپیٹ میں ہے۔ میں نے سوچ سمجھ اور ناپ تول کر ’’نسل شریفیہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے کہ ’’آل تیمور‘‘ اور ’’آل عثمان‘‘ جیسی اصطلاحیں محمد شریف مرحوم و مغفور کی جاتی عمرہ اولاد پر نہیں جچتیں۔بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال کے نتیجہ میں انہیں سیاسی مائیلیج حاصل ہوگا۔ کچھ انہیں بھٹو اور پیپلزپارٹی سے ملاتے ہیں جبکہ میرا یقین یہ کہ نواز شریف اپنی قسم کا الطاف حسین اور اس کی نواز لیگ اپنی قسم کی ایم کیو ایم ہوگی۔جاتی عمرہ نے جائے عبرت میں تبدیل ہونا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ جائے عبرت سے میری مراد کیا ہے۔ کئی سال پہلے میں ایرانی حکومت کی دعوت پر ایران گیا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب صادق گنجی مرحوم و مغفور لاہور میں ایران کا قونصل جنرل تھا۔ تب ہمیں تہران کے مضافات میں شاہ ایران کے محلات دکھائے گئے جس کی مین اینٹرنس کے سامنے مفرور رضا شاہ پہلوی کا دیوقامت دھاتی مجسمہ تھا، جسے گھٹنوں سے اوپرتوڑ دیا گیا تھا۔ شاہ کی صرف گھٹنوں تک کٹی ہوئی ٹانگیں نظر آرہی تھیں اور پیچھے اک جناتی قسم کےبورڈ پر لکھا تھا ’’جائے عبرت‘‘جاتی عمرہ اپنی قسم کا ’’جائے عبرت‘‘ بننے کے مراحل میں ہے ا ورہر جائے عبرت کی اپنی دنیا ہوتی ہے اور کچھ ملے نہ ملے باٹم لائن یعنی ’’عبرت‘‘ میں گہری مماثلت ہوتی ہے۔نواز شریف کے نام نہاد بیانیہ کی کریش لینڈنگ ہوچکی۔ کوئی پوچھے….. کیسے؟ توعرض کروں گاکہ پوری ریاستی مشینری اور وسائل کے زورپر ہجوم اکٹھے کرنا نہیں، بلکہ میاں صاحب کا اصل ’’ٹارگٹ‘‘مجمعوں کے زور پر عدلیہ کو دبائو میں لانا تھا، جس میں وہ بری طرح ناکام رہے اور یہ جعلی جنگجویانہ حکمت عملی، حماقت عملی ثابت ہوئی۔ عدلیہ سوفیصد میرٹ پر بغیر کسی پریشر کے نواز کو صدارت کے لئے بھی نااہل کرچکی تو بیانیہ توظاہر ہے بھاڑ میں جاچکا۔آنےوالے دنوں میں جب بغیر کسی اقامہ ابہام کے سیدھے سبھائو افقی عمودی طور پر کرپٹ ترین ثابت ہوگئے تو کوئی کسٹم میڈ یا بکتربند قسم کا ڈھیٹ، بے شرم ہی ساتھ رہ جائے گا۔ کبھی کبھی ثبوت ایسے ناقابل تردید ہوتے ہیں کہ محبوب ترین ہستی کو اون (Own) کرنے کی بھی ہمت نہیں پڑتی۔ بے حیائی کی بھی کوئی نہ کوئی حد تو ہوتی ہوگی۔ رہی سہی کسر مسلم لیگ کا کیریکٹر پوری کردے گا جو فصلی بٹیروں سے ملتا جلتا ہے۔ جوباوقار، بااصول ہوں گے وہ جرم کی نوعیت کے سبب خود منہ چھپاتے پھریں گے۔لوہے کے چنوں کو یہ بات سمجھ ہی نہ آسکی کہ کبھی کبھار فولاد کے دانتوں سے بھی پالا پڑ جاتا ہے۔ زمین تنگ کرنے والے بھول گئے کہ کبھی کبھی اپنے پیروں تلے سے زمین ہی کھسک جاتی ہے۔ تکبر اور تعفن انہیں کہاں سے کہاں کھینچ لایا۔ رسی جل گئی، بل نہیں گئے۔ بلبل مرگئی لیکن رنگ قائم ہیں۔بگٹٹ اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہیں اور رفتار ایسی ہے کہ رکتے رکتے بھی فنشنگ لائن سے آگے نکل جائیں گے اور عجیب ہیں وہ لوگ جو نواز کا موازنہ بھٹو اور پی پی پی کا ن لیگ کے ساتھ کرتے ہیں جبکہ دونوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا پاتال اور ساتویں آسمان میں ہے۔ بھٹو کچھ بھی ہو کرپٹ نہیں تھا۔’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ پنجاب کے فوادحسن فواد یعنی احد چیمہ کی گرفتاری والا مختصر سا ایپی سوڈ بھی کئی سیریلز پر بھاری ہوگا کہ ڈی جی نیب بارے کوئی بتا رہاتھا کہ بلا کا پرہیزگار، باکردار اور باصلاحیت شخص ہے اور چیئرمین ’’نیب‘‘جسٹس (ر) جاوید اقبال نے تو ’’نیب‘‘ کو سچ مچ کے ’’نیب‘‘میں تبدیل کردیا۔ احد چیمہ کی گرفتاری کس قسم کے چین ری ایکشن کو جنم دے گی؟ دیکھتے جائیں کہ گزشتہ کالم میں ہی عرض کیا تھا کہ ’’70سال تک ایک ہی پہلو پر پڑا لیٹا پاکستان کروٹ بدلنے کو بے تاب اور بے قرار ہے‘‘ اندازہ نہیں تھا کہ اگلے روز ہی جاتی عمرہ، جائے عبرت بنا دکھائی دے گا۔تجب یہ پہلے برباد اورجلاوطن ہوئے اور جاتی عمرہ اجڑا تو میں نے اداس ہو کر اک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ’’جاتی عمرہ سے صدا آتی ہے‘‘ تب ایک تو میں جذباتی بہت تھادوسرا یہ کہ مجھ احمق کا خیال تھا کہ اگر یہ کبھی واپس آئے توبہتر انداز میں ’’بی ہیو‘‘ کریں گےلیکن انہوں نے آتے ہی سب سے پہلے سڑکوں پر ناجائز قبضہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد ہی میں نے ’’بیلی پور‘‘ میں اپنی ’’ہانسی حویلی‘‘ چھوڑ دی اورخود سے یہ عہد کیا کہ تب تک میرا اپنا گھر مجھ پہ حرام رہے گا جب تک ان سے رستوں کا ناجائز قبضہ نہیں چھڑوالیاجاتا۔اللہ اور عدلیہ کا شکریہ۔ رکاوٹیں اور تجاوزات کا خاتمہ ہوچکا اور کل جب چند سال بعد میںجاتی عمرے کے آگے سے گزرا تو منظر تبدیل ہوچکا تھا۔ کوئی سرخرو اور کوئی بری طرح ذلیل ہوچکا تھا۔ تب مجھے یہ صدا آئی، ندا سنائی دی کہ جاتی عمرہ، جائے عبرت میں تبدیل ہونے والا ہے۔انشاء اللہ، یہ اپنے منطقی انجام سے دوچارہوں گے۔ میں روزِ اول سے کہہ رہاہوں کہ یہ ’’نسل شریفیہ‘‘ کسی قانون نہیں، قانون قدرت کی لپیٹ میں ہے۔ میں نے سوچ سمجھ اور ناپ تول کر ’’نسل شریفیہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے کہ ’’آل تیمور‘‘ اور ’’آل عثمان‘‘ جیسی اصطلاحیں محمد شریف مرحوم و مغفور کی جاتی عمرہ اولاد پر نہیں جچتیں۔بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال کے نتیجہ میں انہیں سیاسی مائیلیج حاصل ہوگا۔ کچھ انہیں بھٹو اور پیپلزپارٹی سے ملاتے ہیں جبکہ میرا یقین یہ کہ نواز شریف اپنی قسم کا الطاف حسین اور اس کی نواز لیگ اپنی قسم کی ایم کیو ایم ہوگی۔جاتی عمرہ نے جائے عبرت میں تبدیل ہونا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ جائے عبرت سے میری مراد کیا ہے۔ کئی سال پہلے میں ایرانی حکومت کی دعوت پر ایران گیا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب صادق گنجی مرحوم و مغفور لاہور میں ایران کا قونصل جنرل تھا۔ تب ہمیں تہران کے مضافات میں شاہ ایران کے محلات دکھائے گئے جس کی مین اینٹرنس کے سامنے مفرور رضا شاہ پہلوی کا دیوقامت دھاتی مجسمہ تھا، جسے گھٹنوں سے اوپرتوڑ دیا گیا تھا۔ شاہ کی صرف گھٹنوں تک کٹی ہوئی ٹانگیں نظر آرہی تھیں اور پیچھے اک جناتی قسم کےبورڈ پر لکھا تھا ’’جائے عبرت‘‘جاتی عمرہ اپنی قسم کا ’’جائے عبرت‘‘ بننے کے مراحل میں ہے ا ورہر جائے عبرت کی اپنی دنیا ہوتی ہے اور کچھ ملے نہ ملے باٹم لائن یعنی ’’عبرت‘‘ میں گہری مماثلت ہوتی ہے۔نواز شریف کے نام نہاد بیانیہ کی کریش لینڈنگ ہوچکی۔ کوئی پوچھے….. کیسے؟ توعرض کروں گاکہ پوری ریاستی مشینری اور وسائل کے زورپر ہجوم اکٹھے کرنا نہیں، بلکہ میاں صاحب کا اصل ’’ٹارگٹ‘‘مجمعوں کے زور پر عدلیہ کو دبائو میں لانا تھا، جس میں وہ بری طرح ناکام رہے اور یہ جعلی جنگجویانہ حکمت عملی، حماقت عملی ثابت ہوئی۔ عدلیہ سوفیصد میرٹ پر بغیر کسی پریشر کے نواز کو صدارت کے لئے بھی نااہل کرچکی تو بیانیہ توظاہر ہے بھاڑ میں جاچکا۔آنےوالے دنوں میں جب بغیر کسی اقامہ ابہام کے سیدھے سبھائو افقی عمودی طور پر کرپٹ ترین ثابت ہوگئے تو کوئی کسٹم میڈ یا بکتربند قسم کا ڈھیٹ، بے شرم ہی ساتھ رہ جائے گا۔ کبھی کبھی ثبوت ایسے ناقابل تردید ہوتے ہیں کہ محبوب ترین ہستی کو اون (Own) کرنے کی بھی ہمت نہیں پڑتی۔ بے حیائی کی بھی کوئی نہ کوئی حد تو ہوتی ہوگی۔ رہی سہی کسر مسلم لیگ کا کیریکٹر پوری کردے گا جو فصلی بٹیروں سے ملتا جلتا ہے۔ جوباوقار، بااصول ہوں گے وہ جرم کی نوعیت کے سبب خود منہ چھپاتے پھریں گے۔لوہے کے چنوں کو یہ بات سمجھ ہی نہ آسکی کہ کبھی کبھار فولاد کے دانتوں سے بھی پالا پڑ جاتا ہے۔ زمین تنگ کرنے والے بھول گئے کہ کبھی کبھی اپنے پیروں تلے سے زمین ہی کھسک جاتی ہے۔ تکبر اور تعفن انہیں کہاں سے کہاں کھینچ لایا۔ رسی جل گئی، بل نہیں گئے۔ بلبل مرگئی لیکن رنگ قائم ہیں۔بگٹٹ اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہیں اور رفتار ایسی ہے کہ رکتے رکتے بھی فنشنگ لائن سے آگے نکل جائیں گے اور عجیب ہیں وہ لوگ جو نواز کا موازنہ بھٹو اور پی پی پی کا ن لیگ کے ساتھ کرتے ہیں جبکہ دونوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا پاتال اور ساتویں آسمان میں ہے۔ بھٹو کچھ بھی ہو کرپٹ نہیں تھا۔’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ پنجاب کے فوادحسن فواد یعنی احد چیمہ کی گرفتاری والا مختصر سا ایپی سوڈ بھی کئی سیریلز پر بھاری ہوگا کہ ڈی جی نیب بارے کوئی بتا رہاتھا کہ بلا کا پرہیزگار، باکردار اور باصلاحیت شخص ہے اور چیئرمین ’’نیب‘‘جسٹس (ر) جاوید اقبال نے تو ’’نیب‘‘ کو سچ مچ کے ’’نیب‘‘میں تبدیل کردیا۔ احد چیمہ کی گرفتاری کس قسم کے چین ری ایکشن کو جنم دے گی؟ دیکھتے جائیں کہ گزشتہ کالم میں ہی عرض کیا تھا کہ ’’70سال تک ایک ہی پہلو پر پڑا لیٹا پاکستان کروٹ بدلنے کو بے تاب اور بے قرار ہے‘‘ اندازہ نہیں تھا کہ اگلے روز ہی جاتی عمرہ، جائے عبرت بنا دکھائی دے گا۔
Source: Jung News
Read Urdu column Jati umrah jaye ibrat By Hassan Nisar