جوانی اور بڑھاپا – حسن نثار
طبیعت ناہموار ہو تو آدمی بیزار ہو جاتا ہے۔ معمولی باتیں بھی ناگوار گزرتی ہیں۔ تھاٹ پراسیس سے لے کر نیند تک سب کچھ ڈسٹرب ہو جاتا ہے۔ میرے فیورٹ منیر نیازیؔ نے کہا تھا:
کتابِ عمر کا اک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا
’’کتابِ عمر‘‘ کی جگہ شاید ’’کتابِ زیست‘‘ ہو لیکن کیا فرق پڑتا ہے؟ اصل بات تو شباب کے ساتھ عذاب ختم ہونے کی ہے۔ منیر اتنے خوبصورت انسان اور شاعر تھے کہ ان سے اختلاف میرے بس میں نہیں لیکن کیا کروں کہ زندگی میں بھی اس شعر پر ان سے اختلاف رہا اور میری بکواس پر منیر اپنی مخصوص ہنستی ہنستے رہے۔
میرے نزدیک کہانی کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ شباب اور بعد از شباب کے اپنے اپنے عذاب ہوتے ہیں لیکن یہ چوپائے نما دو پایوں کا مسئلہ یقیناً نہیں کہ ڈنگر ہر عمر میں ڈنگر ہوتا ہے اور یہ ’’رونے‘‘ صرف حساس لوگوں کا مسئلہ ہے۔
شباب یعنی جوانی تو زندگی کا طوفانی اور طغیانی سے بھرپور حصہ ہے جہاں واقعی سولی پر بھی نیند آ جاتی ہے جبکہ بڑھاپے میں قیمتی امپورٹڈ قسم کے آرتھوپیڈک گدے بھی کام نہیں آتے۔
"AGE IS THE BEST POSSIBLE FIRE EXTINGUISHER FOR FLAMING YOUTH.”
واقعی بڑھاپا جوانی کی بھڑکتی آگ بجھانے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن مردہ آتش فشاں بھی تو کس کام کا؟
جوانی تو عمر ہوتی ہے سب کچھ جاننے کی اور بڑھاپا وقت ہوتا ہے یہ ماننے کا کہ میں تو کچھ بھی نہیں جانتا۔
وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ بڑھاپا عمر کا کوئی حصہ نہیں، فقط اک ’’سٹیٹ آف مائنڈ‘‘ ہے تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ حضرات! کیا آپ نے زندگی بھر کبھی غور فرمایا کہ ’’مائنڈ‘‘ اور ’’برین‘‘ میں فرق کیا ہے؟ اور جب بڑھاپے میں اٹھتے بیٹھتے آپ کے گوڈے ’’کَڑ کَڑ کَڑ کَڑ‘‘ کرتے ہیں تو آپ کی زیادہ توجہ ’’کَڑ کَڑ‘‘ والے اس بیک گرائونڈ میوزک پر ہوتی ہے یا اس نام نہاد ’’سٹیٹ آف مائنڈ‘‘ پر؟
البتہ اس بات پر کومپرومائز ضرور ہو سکتا ہے کہ انسان کو YOUTHFUL رہنے کیلئے ہمیشہ USEFULرہنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن یہ بھی کب تک؟ میں نے زندگی میں دو ’’جوان بوڑھے‘‘ دیکھے ہیں۔ ایک سردار فاروق خان لغاری جو تہجد کے بعد خاصا وقت جم میں گزارتے لیکن انہیں لمبی عمر نصیب نہ ہوئی۔ دوسرا بندہ ہے عمران خان جس کی جسمانی فٹنس مثالی سے بھی بڑھ کر ہے لیکن کیا سو سال کی عمر میں بھی عمران اتنا ہی فٹ ہو گا؟ اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن دعائوں اور دوائوں کا بھی اپنا اپنا میرٹ ہوتا ہے۔ قدرت کچھ لوگوں کیلئے اپنے رولز ریلیکس تو کر سکتی ہے، تبدیل نہیں کر سکتی۔
مختصراً یہ کہ بڑھاپا صرف سٹیٹ آف مائنڈ نہیں، سفید بالوں، ایج ٹیگز والی کھالوں، کھڑکتی ہڈیوں وغیرہ پر مشتمل اک حقیقت ہے۔ کیری گرانٹ جیسے ایکڑ نے کہا تھا کہ ’’جب لوگ آپ سے کہتے ہیں تم جوان دکھائی دے رہے ہو تو دراصل وہ مہذب طریقے سے تمہیں یاد دلا رہے ہوتے ہیں کہ دراصل تم بوڑھے ہو گئے ہو۔‘‘
چین کے ساتھ ہماری دوستی پہاڑوں سے اونچی، سمندروں سے گہری، شہد سے میٹھی اور فولاد سے مضبوط وغیرہ ہے تو ان کے اک محاورے کا انگریزی ترجمہ بھی پڑھ لیں
"THE WOMAN WHO TELLS HER AGE IS EITHER TOO YOUNG TO HAVE ANYTHING TO LOSE OR TOO OLD TO HAVE ANYTHING TO GAIN.”
اور یہ بھی سچ ہے کہ خواتین کی زندگیوں کے وہ دس سال خوب صورت ترین ہوتے ہیں جب وہ 29اور 30سال کے درمیان ہوتی ہیں۔
مردوں کیلئے 40سال کی عمر جوانی کا بڑھاپا ہوتا ہے اور 50سال کی عمر بڑھاپے کی جوانی ہوتی ہے۔
قارئین!
معاف کیجئے لکھنا تو یہ تھا کہ ڈھلتی عمر میں کیسے کیسے عجیب سوال بندے کو یا یوں کہہ لیجئے کہ اس خاکسار کو سوجھتے رہتے ہیں لیکن میں کالم کے شروع میں ہی پٹڑی سے اتر گیا اور کسی اور طرف جا نکلا حالانکہ شیئر تو وہ خیالات کرنے تھے جو اکثر دماغ میں گردش کرتے رہتے ہیں۔
پھر کبھی سہی کہ اس عمر میں جنم لینے والے سوالوں کی اک اپنی ہی دنیا، ذائقہ اور مزہ ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Jawani Aur Budhapa By Hassan Nisar