جنسی زیادتی، ظالم ہی مظلوم کیوں؟- علی معین نوازش
دنیا میں ریپ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور ایسا جرم ہو جس کے سرزد ہونے پرظالم سے زیادہ مظلوم پر سوال اُٹھائے جاتے ہیں، ظالم سے زیادہ مظلوم کی کردار کشی کی جاتی ہے اور اِس ظلم کی روک تھام کے لئے ظالم کو نہیں مظلوم کو ہدایت کی جاتی ہے۔ اگر کسی شخص کا دشمنی میں قتل ہو جاتا ہے تو کوئی بھی مرنے والے کے بارے میں یہ نہیں کہے گا یا ایسا نہیں سوچے گا کہ اُس کی دشمنی تھی تو اِس لئے اُس کا قتل ہو گیا بلکہ سب لوگ اِس قتل کو ایک گھناؤنا جرم اور اُس قاتل کو واحد قصوروار سمجھتے ہیں۔
جب کوئی عورت جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے تو نہ صرف اُس کے کردار پر سوالات اُٹھا دیے جاتے ہیں بلکہ معاشرے میں عورتوں کے مجموعی رویے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اِس کی ایک مثال کچھ عرصہ قبل لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر ہونے والے ریپ کیس کی ہے۔ جب یہ سانحہ پیش آیا تو باقی سب تو ایک طرف، اُس وقت کے سی سی پی او لاہور واقعہ کی مذمت کرنے اور اِس واقعہ میں ملوث افراد کو پکڑنے کی بجائے یہ سوال اُٹھانا شروع ہو گئے کہ وہ خاتون رات کو گاڑی کا پیٹرول دیکھے بغیر اکیلے سفر کیوں کر رہی تھی؟ اتنی رات کو عورت کو اکیلے گاڑی لے کر باہر ہی نہیں نکلنا چاہئے، وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے معاشرے میں مردوں کے کردارپر کم اور عورتوں کے کردار پر زیادہ بات کی جاتی ہے۔ اِسی کردار کشی کی وجہ سے بیشتر ریپ کیس رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے اور جو رپورٹ ہوتے ہیں اُن میں عورت کے لئے انصاف کا حصول مشکل تر ہو جاتا ہے۔ کسی نے بھی سانحہ موٹر وے پر اُن دونوں مجرموں پر اُتنے سوالات نہیں اُٹھائے تھے جتنا زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون پر اُٹھائے گئے۔
اِس ضمن میں حیران کُن بات یہ ہے کہ اگر کوئی مرد جنسی زیادتی کاشکار ہو جائے، جیسا کہ حالیہ دِنوں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ہوا، تب اِس طرح کے کردار کُشی پر مبنی سوالات نہیں اُٹھائے جاتے،چاہے وہ شراب بھی پیتا ہو اور منشیات میں بھی ملوث ہو۔ اگر کوئی شخص کسی ایسی بُری لت میں مبتلا بھی ہو تو یہ کسی بھی صورت اُس کیساتھ جنسی زیادتی کا جواز نہیں ہو سکتا۔ جنسی زیادتی ایک ایسا جرم ہے جو مظلوم کیساتھ ہوتا ہے اور ظالم کی وجہ سے ہوتا ہے، مظلوم کی وجہ سے نہیں۔ عورتوں کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں واضح تعصب موجود ہے۔ والدین ہر وقت اپنی بیٹیوں کو اِس معاشرے میں سنبھل کر چلنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن یہی والدین کتنی دفعہ اپنے بیٹوں کو سمجھاتے ہیں کہ عورت کا احترام کرو اور کسی بھی عورت کو غلط نظر سے نہ دیکھو؟ بلکہ اکثر اوقات والدین یہ کہہ کر بیٹوں کی غلطیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں یا اُنہیں نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ’’لڑکے تو ہوتے ہی ایسے ہیں‘‘۔
وزیراعظم عمران خان نے جوناتھن سوان کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں اپنے اُس بیان کی وضاحت کی جس میں اُنہوں نے خواتین کے لباس کو ریپ کی ایک وجہ کہا تھا۔ اِس بیان کے حوالے سے کئے گئے سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ ہمارا کلچر مختلف ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین جب کم کپڑے پہنتی ہیں تو مردوں پر اِس کا اثر ہوتا ہے۔ وزیراعظم کے اِس بیان پر بہت سے تبصرے کئے جا سکتے ہیں جو شاید ایک کالم میں پورے بھی نہ آسکیں لیکن جو سب سے بنیادی چیز ہے وہ یہ کہ یہاں پر بھی ہمارے اُس غلط معاشرتی تصور کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ مرد قصوروار نہیں ہے، وہ مجبور ہے۔ جنسی زیادتی کے معاملے میں مردوں کو ایسے مظلوم بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے اُن سے اُن کی قوتِ ارادی چھین لی گئی ہو۔ اِس معاملے میں ہمارے معاشرے کو دیگر معاشروں سے مختلف تصور کیا جاتا ہے۔
اگر کم لباس پہننے والے جواز کو درست مان لیا جائے تو اِسی معاشرے کے مرد جب بیرونِ ملک کلبوں اور ساحلِ سمندر پر جاتے ہیں تو وہاں جنسی زیادتی کے مرتکب کیوں نہیں ہوتے؟ ہمارے معاشرے میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جب برقعے میں ملبوس عورتوں کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ چھوٹے بچے جس درندگی کا نشانہ بنتے ہیں ، اُس میں کس چیز نے مرد کو مجبور کیا ہوتا ہے؟
علم اور تحقیق پر مبنی بات ہمیشہ ہوائی باتوں سے زیادہ وزن رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں جنسی زیادتی کے موضوع پر کافی تحقیق بھی ہوئی اور اِس پر ماہرین نے بہت کام بھی کیا۔ Victim Blamming(مظلوم کو قصوروار ٹھہرانا) ایک غلط تصور ہے جو ہر معاشرے میں پھیلا ہوا ہے، کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والا بھی کہیں نہ کہیں قصوروار ہے۔ جبکہ جنسی زیادتی کی وجوہات مرد اور عورت میں برابری نہ ہونا، منفی مرادنگی سوچ، قانون کی کمزروی یا سزا سے بچنے کا یقین یا پھر ریپ کلچر سمجھا جاتا ہے۔
ریپ کلچر کا مطلب ایک ایسا ماحول ہے جہاں پر ریپ کا شکار ہونے والے کو قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے، عورتوں کیساتھ بُرا سلوک عام ہوتا ہے، عورتوں کو انصاف نہیں ملتا، عورتوں کو غلط نظر سے دیکھا جاتا ہے، ریپ کو بہت بڑا جرم نہیں سمجھا جاتا یا ریپ کی تعداد یا اُس سے ہونے والے اثرات کو کم سمجھا جاتا ہے۔ ریپ کلچر موجود ہونے کے لئے اِن میں سے چند شرائط ہی کافی ہیں۔
ریپ انسانیت کیخلاف ایک گھناؤنا جرم ہے۔ ہماری تمام تر توانائی انفرادی آزادی نہیں بلکہ ایسے ماحول کے خلاف صرف ہونی چاہئے جہاں ریپ کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔ اِس کلچر کے خاتمے کے لئےاُن وجوہات کو سمجھنا ہوگا جو اِس موضوع پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے بیان کی ہیں۔ اگر ہم اِسی طرح سارا ملبہ مظلوم پر ڈال کر عورتوں کی کردار کشی کرتے رہے تو ریپ کو ختم نہیں کر پائیں گےکیونکہ یہ مظلوم کی وجہ سے نہیں بلکہ ظالم کی وجہ سے ہوتا ہے۔
Must Read Urdu column Jinsi Ziadti Zalim hi Mazloom kyn By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang