جو اماں ملی تو کہاں ملی – اوریا مقبول جان
تمغہ امتیاز ہے اس مغرب کے لئے جس نے بالآخر جاوید احمد غامدی کو پناہ دے دی اور ڈوب مرنے کا مقام ہے اس پاکستان کیلئے جہاں انسان اپنی مرضی سے بول بھی نہیں سکتا۔میرے ملک کو جس نے گالی دینا ہو، برا بھلا کہنا ہو، دنیا کے سامنے یہ بتانا ہو کہ یہ جائے امن نہیں ہے، اسے گلا پھاڑ کر یہ سب کچھ کہنے، لکھنے اور چھاپنے کی آزادی امریکہ پر یورپ میں فورا میسر آجاتی ہے۔ آپ دہائیوں وہاں بیٹھ کر نفرت کا پرچار کریں،آپ کے اشارے پر لوگ بندوق لے کر سڑکوں پر نکل آئیں، خوانچے فروش، چائے والے، رکشہ چلانے والے بے گناہ قتل کر دیں۔ آپ کے پروردہ بھتہ خوروں کو کسی فیکٹری سے بھتہ نہ ملے تو آپ کے اشاروں پر ناچنے والے فیکٹری کے دروازے بند کر دیں اور وہاں پر کام کرنے والے تین سو انسانوں کو زندہ جلا دیں۔ ان بیچاروں کی چیخیں آسمانوں کو چھوتے ہوئے شعلوں سے بلند ہوتی رہیں اور ان چیخوں، آہوں، سسکیوں اور پسماندگان کے آنسوؤں کے سامنے آپ اس ”عظیم” ملک میں بیٹھ کر گھنٹوں اپنے دست بستہ کارکنان سے خطاب کریں اور آزادی اظہار کے نام پر آپ کا خطاب پوری دنیا میں جائز قرار دیا جائے۔ کیسی حیرت کی بات ہے کہ جیسے ہی آپکو مغرب میں ملی ہوئی اس آزادی
اظہار کا گلا گھونٹ دیا جائے اور آپکی نفرت کو پاکستان میں سنانے سے منع کردیا جائے تو فورا قتل و غارت رک جائے، بھتہ خوری کم ہوجائے، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں ختم ہو جائیں۔ اور نہ کوئی کسی کے سائز کی بوری بنانے کا اعلان کرے اور نہ ہی بوری بند لاشیں سڑکوں اور ویرانوں میں پڑی ہوئی ملیں۔ کمال کی بات ہے جسے پاکستان کی گرمی راس نہ آئے، لوڈشیڈنگ تنگ کرے یا پھر یہاں اسے کھل کر کھیلنے کا موقع نہ ملے تو اس بہانے ملک چھوڑ دیتا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں ایسا ماحول میسر ہے کہ وہ اپنے ”علمی” کام کو جاری رکھ سکے گا۔ مغرب کے اس خود ساختہ علمی، تحریکی، اور تنظیمی تصور کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس علمی کام میں آپ کو نفرت پھیلانے، لوگوں کو گالی دینے، انکی دل آزاری کرنے، ان کے مذہب کو برا بھلا کہنے، یہاں تک کہ ان کی محبوب شخصیات کی تضحیک کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ آپ وہاں سلمان رشدی کی طرح شیطانی آیات (Satanic verses) لکھ سکتے ہیں اور رسول رحمت ﷺ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں بکوا س کرسکتے ہیں۔ آپ اسی کتاب میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو براہ راست گالی دے سکتے ہیں اور وہ معاشرہ، حکومت اور ریاست آپ کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ آپ ممبئی میں پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسی گالیاں دینے کے لیے آپ کو جائے ”امن” لندن میں ملتی ہے۔ آپ تسلیمہ نسرین کی طرح بنگلہ دیش میں پیدا ہوتی ہیں، قرآن، اسلام اور مسلمانوں کی محبوب شخصیات کی تضحیک پر مبنی ناول ”لجا”لکھتی ہیں۔ آپ کو جائے پناہ سویڈن، فرانس، جرمنی اور امریکہ میں ملتی ہے، نیویارک یونیورسٹی میں آپکوریسرچ سکالر مقرر کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سیکولر، لبرل اور آزادی اظہار کے دیوانے جسے واحد عظیم جمہوری لیڈر پکارتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو،جس کے پاس ملک کے عوام کی دی ہوئی دوتہائی اکثریت تھی۔ اسکا بنایا ہوا آئین قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیتا ہے۔ اس مرزا غلام احمد کے افکار پر پابندی لگاتا ہے جو اپنے نہ ماننے والوں کوکہتا ہے ”دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور انکی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں (روحانی خزائن جلد 14)۔ لیکن اسکے ماننے والوں کو پاکستان کے آئین کی کھل کر خلاف ورزی کرنے اور اس ملک کو گالی دینے کی مغرب، کھلی اجازت دینے کے
ساتھ ساتھ پوری امت مسلمہ کے خلاف ایک محاذ بنا کر گفتگو کرنے کے لئے بھی آزادی دیتا ہے۔ یہ سب اس بات کا انعام ہے کہ انکے ذریعے میرے ملک کو گالی دی جاتی ہے، اسے غیر محفوظ ثابت کیا جاتا ہے۔ اسے خطرناک شدت پسند اور دہشت گرد ملک بتایا جاتا ہے۔ آزادی تحریر و تقریر کے نام پر جو خود مغرب کا مفکر کرتا ہے میں یہاں اس کا ذکر نہیں کروں گا۔ لیکن یہ مغرب، دنیا کے تقریبا ہر ملک سے آنے والے ایسے مسلمانوں کیلئے پناہ گاہ ضرور ہے،جو اپنے ملکوں میں مذہب، دین اور لوگوں کی محبوب شخصیات پر گندگی اچھالتے رہے، انکے خلاف زہر اگلتے رہے اور ایک دن انہوں نے مغرب میں جا کر پناہ لے لی۔ غامدی صاحب کا میزبان امریکہ، صرف لکھنے والے نہیں بلکہ ہر چور، ڈاکو، لٹیرے، سمگلر اور قاتل کے لیے بھی پناہ گاہ ہے،جنت ہے۔ شاہ ایران کا ساتھی جنرل منصور مہرا وی جو اس کے دور میں جیل خانہ جات کا انچارج تھا جس نے ہزاروں ایرانیوں کو جیل میں اذیت دے کر اور تشدد کے ذریعے قتل کیا، آج کل امریکہ کی ریاست
کیلیفورنیا میں مزے سے زندگی گزار رہا ہے۔انڈونیشیا کا جنرل سنتانک پنجین جس نے 1991ء میں امریکہ کے ایما پر مشرقی تیمور کے علاقے میں معرکہ سانتا کروز کا قتل عام کیا جس میں ہزاروں لوگوں کو بیدردی کے ساتھ قتل کیا گیا آجکل امریکہ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ہنڈراس آرمی کی پوری بٹالین نمبر 316 جس نے 1980ء میں ہزاروں شہریوں کو بجلی کے جھٹکے دے کر، چھوٹے کمروں میں ٹھونس کر دم گھونٹ کر اور تشدد کے نئے طریقے ایجاد کرکے ہلاک کردیا آج یہ پوری بٹالین امریکہ میں مزے اڑا رہی ہے۔ ارجنٹائن کا ایڈمرل جورگے ایز کو ”نایاک” کی جنگ میں سات سال ایک بد نام ترین تشدد کا مرکز السیکیو لامنیکا چلاتا رہا جہاں کتنے لوگوں کو قتل کیا گیا، معذور کیا گیا، اس وقت امریکہ کی ریاست ہوائی میں مقیم ہے۔چلی کے ملٹری سکوارڈ کا رکن ارمنیڈو فرنینڈز لیرلوس جس نے سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو تشدد سے ہلاک کیا اور 72 قیدیوں کی موت کا اعتراف بھی کیا اسے امریکہ کی ایف آئی بی نے ایک اہم حیثیت سے رہائش عطا کی ہوئی ہے۔ایل سلواڈور کا جنرل کارلوس جس کی ظلم کی داستانیں کبھی دل ہلا دیتی تھیں۔ اپنے ہزاروں ہم وطن لوگوں کے قتل کے علاوہ اس نے تین امریکی عورتوں کو 1980ء میں خود بے حرمتی کرنے کے بعد ہلاک کیا، آج کل سن شاٹن اسٹیٹ میں رہائش پذیر ہے۔جوزگلیر مورگا رشیا جسکا ڈیتھ سکواڈ افسانوی حیثیت رکھتا ہے جس کے سامنے لاکھوں بے گناہ افراد کو صرف شبہ کے طور پر ہلاک کردیا گیا آج کل فلوریڈا میں مقیم ہے۔گوئٹے مالا کا وزیر دفاع ہیکٹر کرامیجور موریلز جس نے ہزاروں انڈین افراد کو قتل کیا اور امریکہ کے بھی آٹھ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا اس کا کہنا تھا کہ میں نے 70 فیصد آبادی کی ترقی کیلئے 30 فیصد آبادی کو قتل کر دیا تھا۔ اسے امریکی عدالت نے قید اور جرمانے کی سزا سنائی مگر امریکی حکومت اسے صاف بچا کر اپنے جلو میں لے گئی۔کیوبا سے
طیارے اغواء کرنیوالا کوئی ایسا دہشتگرد نہیں جس نے امریکی شہریت نہ حاصل کر لی ہو اور آج باعزت امریکی شہری کی حیثیت سے زندگی نہ گزار رہا ہو۔ ہیٹی کے جزائر میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے ہزاروں افراد ایسے ہیں جو امریکہ کی ریاستوں کے معزز شہری کی حیثیت رکھتے ہیں۔جنوبی ویتنام کے وہ 20 افراد جنہوں نے انسانی حقوق کی عدالتوں میں اپنے جرم قبول کیے، بچوں کے قتل، عورتوں کی آبروریزی اور زندہ جلانے کے مرتکب ہوئے یہ 20 افراد آج کیلیفورنیا میں قانونی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ سلمان رشدی سے لیکر تسلیمہ نسرین تک، الطاف حسین سے لے کر براہمداخ بگٹی تک، طاہرالقادری، فرحت ہاشمی یا اب جاوید احمد غامدی تک کوئی بھی ہو،ہماری اولادیں،دوست،رشتے دار کیوں نہ ہوں،میرے رسول اکرم ﷺ کا فرمان سب پر لاگو آتا ہے ’’انا بری’‘ من کل مسلم یقیم بین اظہرالمشرکین‘‘۔ ’’میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان سکونت اختیار کرتا ہے‘‘ (مسلم)۔آج کسی بھی بہانے مغرب میں پناہ لینے والے روز محشر اس فرمان کی موجودگی میں کس منہ سے شفاعت کے طلب گار ہوں گے۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Jo amma mili to kahan mili By Orya Maqbool Jan