جوں کا توں- جاوید چوہدری
چاچا چنڈ میرے کالج کے زمانے کا ایک کردار تھا‘ وہ ڈپریشن اور غربت کا مارا ہواخود اذیتی کا شکار ایک مظلوم شخص تھا‘ وہ دوسروں کی ہر زیادتی‘ ہر ظلم اور ہر توہین کا بدلہ اپنے آپ سے لیتا تھا‘ لوگوں نے ’’چاچا چنڈ‘‘ کے نام سے اس کی چھیڑ بنا لی تھی‘ پنجابی زبان میں تھپڑ کو چنڈ یا چپیڑ کہتے ہیں‘ چاچا چنڈ کو چاچا چنڈ اسی لیے کہا جاتا تھا کہ اسے جب بھی کوئی چاچا چنڈ کہہ کر چھیڑتا تھا تو وہ غصے میں آ جاتا تھا اور وہ پہلے خود کو گالیاں دیتا تھااور پھر اپنے منہ پر تھپڑ مارنا شروع کر دیتا تھا۔
وہ اس دوران روتا جاتا تھا‘ اپنے آپ کو ننگی گالیاں دیتا جاتا تھا اور اپنے منہ پر تھپڑ مارتا جاتا تھا اور لوگ ہنستے جاتے تھے یہاں تک کہ اس کے منہ‘ دانتوں اور ناک سے خون بہنے لگتا تھا‘ چاچے کا بیوی بچہ کوئی نہیں تھا‘ والدین فوت ہو چکے تھے‘ بھائی کنارہ کش ہو گئے تھے‘ صرف ایک بہن تھی‘ وہ بے چاری گالیاں اور چیخیں سن کر ننگے پاؤں دوڑتی ہوئی گلی میں آتی تھی‘ چھیڑنے والوں کو بددعائیں دیتی تھی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے شانت کرنے کی کوشش کرتی تھی‘ وہ اپنے پلو سے اس کا منہ صاف کرتی تھی اور اسے بچے کی طرح اپنے سینے سے چمٹا لیتی تھی‘ چاچا چنڈ ہچکیاں لے لے کر روتا تھا‘ پورا محلہ کھی کھی ہنستا تھا اور آخر میں دونوں بہن بھائی روتے‘ منہ صاف کرتے ہوئے گھر واپس چلے جاتے تھے۔
وہ دونوں چھوٹے سے پرانے مکان میں رہتے تھے‘ بہن نے بیٹھک میں کریانے کی دکان بنا رکھی تھی‘ وہ ان دونوں کا واحد ’’سورس آف انکم‘‘ تھا‘ بہن بھائی کو اندر بند کر کے سارا دن دکان چلاتی تھی‘ شام کو ہانڈی روٹی کا بندوبست کرتی تھی‘ اپنے ہاتھ سے بھائی کو کھانا کھلاتی تھی اور یوں یہ دونوں رو دھو کر سو جاتے تھے‘ یہ دونوں بہن بھائی محلے کی واحد انٹرٹینمنٹ تھے چناں چہ لوگ آتے جاتے ان کے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر چاچا چنڈ کا نعرہ لگا جاتے تھے‘ یہ نعرہ سن کر چاچا چنڈ کمرے میں بے چین ہو جاتا تھا اور اس کی بہن جھولی پھیلا کر تنگ کرنے والے کو بددعائیں دیتی تھی۔
محلے کے بزرگوں کو بہن بھائی سے ہمدردی تھی‘ وہ نوجوانوں کو بدتمیزی سے روکتے رہتے تھے مگر جوان خون کہاں سمجھتا ہے چناں چہ پورے محلے کے بچوں اور جوانوں نے اسے تفریح بنا لیا تھا اور وہ انھیں جہاں نظر آ جاتا تھا وہ چاچا چنڈ کے نعرے لگانا شروع کر دیتے تھے‘ وہ ابتدا میں غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا تھا لیکن جب اس کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا تھا تو وہ اپنے منہ پر تھپڑ مارنا شروع کر دیتا تھا‘ لوگ ہنستے جاتے تھے اور اس کا جنون بڑھتا جاتا تھا‘ ڈاکٹروں کا خیال تھا وقت گزرنے کے ساتھ اس کا جنون کم ہو جائے گا۔
یہ شاید ہو بھی جاتا مگر لوگ یہ ہونے نہیں دے رہے تھے‘ وہ جتھوں کی شکل میں اس کے گھر کے سامنے آتے تھے‘ کورس میں چاچا چنڈ‘ چاچا چنڈ کے نعرے لگاتے تھے اور وہ کمرے میں بند بھی اپنے آپ کو تھپڑ مارنے لگتا تھا‘ اس کی بہن بے چاری دکان بند کر کے اندر جاتی تھی‘ اسے سینے سے لگاتی تھی اور دونوں پہروں روتے رہتے تھے‘ چاچا چنڈ کا اختتام بہت ٹریجک ہوا‘ بہن دکان کا سودا خریدنے کے لیے منڈی گئی ہوئی تھی‘ چاچا چھت پر مرچیں سکھا رہا تھا اور اسکول سے چھٹی ہو گئی۔
بچے بستے لے کر واپس آ رہے تھے‘ انھیں چھت پر چاچا نظر آ گیا اور انھوں نے گلی میں کھڑے ہو کر چاچا چنڈ‘ چاچا چنڈ کے نعرے لگانا شروع کر دیے‘ چاچا انھیں اور پھر اپنے آپ کو گالیاں دینے لگا‘ گالیاں سن کر بچوں کے نعروں میں جوش آ گیا‘ چاچا نے تھوڑی دیر بعد اپنے منہ پر تھپڑ مارنا شروع کر دیے‘ بچے اچھل اچھل کر کورس میں چاچا چنڈ‘ چاچا چنڈ کہنے لگے‘ چاچے کا جنون بڑھنے لگا‘ یہ تماشا دیکھ کر محلے کے نوجوان بھی بچوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور یوں تماشا تھیٹر میں تبدیل ہو گیا‘ چاچے کی بہن گھر پر موجود نہیں تھی لہٰذا اسے کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں تھا‘ چاچے کا جنون بڑھتا رہا‘ بڑھتا رہا یہاں تک کہ وہ چھت کی منڈیر پر کھڑا ہوا۔
اس نے اپنے آپ کو طویل گالی دی اور نیچے کود گیا‘ نیچے گلی میں پانی کا نلکا تھا‘ وہ سیدھا نلکے پر گرا‘ نلکے کا پائپ اس کے سر میں ترازو ہو گیا‘ اس کا جسم پھڑکا اور اس نے نلکے کے ساتھ لٹکے ہوئے دم دے دیا‘ ہجوم پر سکتہ طاری ہو گیا‘ یہ سکتہ ایک بچے نے توڑا‘ اس کے منہ سے نکلا ’’اوئے چاچا چنڈ مر گیا جے‘‘ ہجوم نے جھرجھری لی اور سارے بچے اور نوجوان بھاگ گئے اور وہاں گلی میں اس کی لاش اور اس کا خون رہ گیا‘ چاچا چنڈ دنیا سے رخصت ہو گیا۔
ہم سب انسان مختلف نفسیاتی عارضوں کا شکار ہوتے ہیں‘ ان میں سب سے خوف ناک عارضہ ’’خود اذیتی‘‘ہوتا ہے‘ اس کا شکار اپنے آپ کو تکلیف دے کر لذت محسوس کرتا ہے‘ خود اذیتی کے شکار لوگ اپنے جسم کو بلیڈ سے تھوڑا تھوڑا کاٹتے رہتے ہیں‘ یہ شیشے کے ٹکڑے نگل لیتے ہیں یا پھر لوہے کی گرم سلاخوں سے خود کو داغنا شروع کر دیتے ہیں‘ لوگ ٹرین کے نیچے بھی لیٹ جاتے ہیں اور یہ سانپ کے بل میں بھی ہاتھ ڈال دیتے ہیں‘ خود اذیتی کے شکار لوگوں کی یہ حرکتیں مختلف ٹریگر(Trigger) کی محتاج ہوتی ہیں‘ یہ لوگ جوں ہی ٹریگر دیکھتے ہیں‘ یہ اپنے آپ کو کاٹنا چھیلنا شروع کر دیتے ہیں‘ چاچاچنڈ بھی خود اذیتی کا شکار تھا اور ’’چاچاچنڈ‘‘ کا فقرہ اس کے لیے ٹریگر کی حیثیت رکھتا تھا‘ یہ لفظ جوں ہی اس کے کان کے پردے پر گرتا تھا اس کا دوران خون تیز ہو جاتا تھا اور وہ اپنے منہ پر تھپڑ مارنے لگتا تھا چناں چہ اس بے چارے کا انجام وہی ہوا جو عموماً ایسے کیسز میں ہوتا ہے۔
یہ بیماری صرف افراد کو نہیں ہوتی بعض اوقات قومیں بھی خود اذیتی کا شکار ہو جاتی ہیں اور جب یہ اس مرض کا شکار ہوتی ہیں تو پھر اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو اس وقت اس ملک میں نکل رہا ہے‘ ہم سب الحمد للہ مسلمان ہیں‘ ہم سب عاشق رسولؐ بھی ہیں‘ ہم میں کون ہو گا جو حرمت رسولؐ کو اپنی زندگی سے اہم نہیں سمجھے گا‘ مسلمان تو پیدا ہی عشق رسولؐ کے ساتھ ہوتا ہے‘ ہماری مائیں ہمیں پیدائش سے پہلے اللہ اور اس کے رسولؐ سے متعارف کرا دیتی ہیں‘ ہمارے کانوں میں ماں کی آواز سے پہلے اذان دی جاتی ہے اور اس میں اشہداَن لا الٰہ اِلااللہ اور اشہدان محمد الرسول اللہ ﷺ پر زور دیا جاتا ہے‘ ہم میں سے ہر پہلے شخص کے نام میں محمد اور دوسرے میں احمد آتا ہے‘ درود شریف پانچ بڑی تسبیحات میں شامل ہے۔
میں سیاسی پروگرام کرتا ہوں لیکن اس کا آغاز بھی درود شریف سے کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ ماننا ہوگا ہم خوداذیتی کا شکار ہیں اور ہمارا مرض اس قدر بڑھ چکا ہے کہ کوئی بھی پاگل شخص دنیا کے کسی کونے میں بھونکتا ہے اور ہم یہاں اپنے منہ پر تھپڑ مارنا شروع کر دیتے ہیں‘ گستاخی فرانس میں ہوتی ہے لیکن سڑکیں ہم اپنی بلاک کر کے بیٹھ جاتے ہیں‘ گاڑیاں ہم اپنے لوگوں کی توڑ دیتے ہیں‘ دکانیں‘ گھر اور ایمبولینس ہم اپنے بھائیوں کی جلا دیتے ہیں‘ موبائل فون اور انٹرنیٹ بھی ہم نے اپنا بند کر دیا ہے‘ کیا یہ عقل مندی ہے؟ کیا اس سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا‘ دنیا ہماری اس خامی سے واقف ہے چناں چہ یہ جان بوجھ کر سال دو سال بعد یہ ایشو چھیڑ دیتی ہے اور ہم ڈنڈے لے کر اپنے لوگوں پر پل پڑتے ہیں‘ ہم اپنی پولیس اور اپنی ایمبولینسوں کا حشر کر دیتے ہیں۔
ہم اپنی سڑکیں بند کر دیتے ہیں‘ آپ یقین کریں یہ گستاخی صرف اور صرف ہمیں ڈسٹرب کرنے کے لیے جان بوجھ کر کی جاتی ہے اور ہم ہر بار اس ٹریپ میں آ جاتے ہیں‘ دنیا میں 58 اسلامی ملک ہیں لیکن جب بھی گستاخی ہوتی ہے ان 58 ملکوں میں پاکستان واحد ملک ہوتا ہے جس میں ہم لوگ خود اپنا نقصان کرتے ہیں‘ سوال یہ ہے ہم اگر سب مر بھی جائیں‘ ہم اگر پورے ملک کو آگ بھی لگا دیں تو اس سے گستاخی کرنے والوں کا کیا بگڑے گا‘ یہ ملعون آرام سے اپنی زندگی انجوائے کرتے رہیں گے لیکن ہم ایک دوسرے کے ہاتھوں مر جائیں گے۔
کیا ہم گستاخی رکوانا چاہتے ہیں یا پھر اپنے آپ کو اذیت دینا چاہتے ہیں؟ میرا خیال ہم گستاخی رکوانا چاہتے ہیں‘ ہمیں اس کے لیے کیا طریقہ استعمال کرنا چاہیے؟اس کا حل صرف اور صرف سفارتی دباؤ ہے اور یہ دباؤ جب تک پوری اسلامی دنیا سے نہیں آئے گا یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکے گا لہٰذا ہمیں چاہیے ہم اسکالر تیار کریں‘ انھیں انگریزی‘ فرنچ‘ جرمن اور چینی زبان سکھائیں اور یہ اسکالر دنیا کو بتائیں ہم مسلمان رسول اللہ ﷺ کی حرمت پر کمپرومائز نہیں کرتے‘دنیا اس سے سمجھے گی ورنہ ہم اپنے آپ کو مارتے مارتے مر جائیں گے اور یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا‘ صرف عثمان بزدار کی جگہ مخدوم ہاشم وزیراعلیٰ بن جائیں گے اور بس۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Joon Ka Toon By Javed Chaudhry