جوش و جذبہ کے بعد غم و غصہ، عقیدت و احترام – حسن نثار
گزشتہ کل میں نے ’’جوش و جذبہ‘‘ پر تھوڑی روشنی اور بہت سا اندھیرا ڈالا تھا جس کی باٹم لائن یہ تھی کہ علم، عقل، تفکر، تدبر، توازن کےبغیر خالی خولی کھوکھلا جذبہ بغیر دستہ کے تلوار اور بغیر تیر کے کمان جیسا ہوتا ہے۔ کالم مکمل کرکے آفس بھجوانے کے بعد بھی میں دیر تک اس موضوع پر سوچتا اور جلتا کڑھتا رہا تو اچانک یاد آیا کہ ہمارے ہاں ’’جوش و جذبہ‘‘ کے علاوہ بھی چند اصطلاحات بہت پاپولر ہیں لیکن ان پر دیانتداری سے غور کرنے کا رواج نہیں ہے ورنہ ہم لوگ عرصہ پہلے ان کا استعمال ترک کرچکے ہوتے یا اپنی عادات ترک کرچکے ہوتے۔ یہ دو پاپولر ترین اصطلاحات ہیں…….
اول: ’’غم و غصہ‘‘
دوم: عقیدت و احترام‘‘
بنیادی طور پر یہ تینوں اصطلاحیں یعنی جوش و جذبہ، غم و غصہ، عقیدت و احترام آپس میں فرسٹ کزنز ہیں جن کا عمل اور اعمال کے ساتھ دور پار کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ سب زبانی جمع خرچ ہے، جسے بول بچن کی بادشاہت بھی کہا جاسکتا ہے۔ خدا جانے کس دل جلے کا مصرع ہے لیکن خوب ہے کہ :
’’ہم ہیں منافقت کے سمندر کی مچھلیاں‘‘
خود اپنی ذات کی قسم کھا کر بتایئے کہ اگر ہمارا جوش و جذبہ …. غم و غصہ…. عقیدت و احترام دکھاوے کی بجائے جینوئن ہوتا تو کیا ہم لوگ وہیں کھڑے ہوتے جس مقام عبرت پر آج تن کے کھڑے ہیں؟ روزِ اوّل سے آج تک ہم کشمیریوں اور فلسطینیوں کے لئے لفظوں، تقریروں، قراردادوں، احتجاجوں، جوش و جذبوں، غم و غصوں کے انبار لگائے جا رہے ہیں اور صورت حال بتدریج بد سے بدتر اور بدتر سے بدترین ہوتی چلی گئی لیکن مجال ہے جو کبھی کسی صاحب حال، صاحب کمال، صاحب جلال و جمال نے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے کے بعد اس حماقت زدہ حکمت عملی پر اک معمولی سی نگاہ ڈالنے کی زحمت بھی گوارا فرمائی ہو۔ پورے دھوم دھڑکے سے دائرے کا یہ سفر جاری ہے اور کون جانے کب تک جاری رہے گا۔
سمجھ نہیں آتی مزید کتنی نسلیں قربان کرنے کے بعد یہ سادہ سی بات سمجھ آئے گی کہ مسائل کے حل کے لئے کوئی ’’شارٹ کٹ‘‘ نہ تھا، نہ ہے، نہ کبھی ہوگا، بلکہ تلخ ترین سچائی یہ ہے کہ ’’شارٹ کٹ‘‘ کی تلاش کے چکر میں فاصلے مزید طویل ہوتے چلے جائیں گے بلکہ بات یہاں تک بھی پہنچ سکتی ہے کہ ریورس کرنابھی ممکن نہ رہے۔
’’انہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے‘‘
ایسا ہی حال ’’عقیدت و احترام‘‘ کا ہے۔ چند سال پہلے جگہ جگہ لکھا ہوتا تھا ’’حرمت رسولؐ پر جان بھی قربان ہے‘‘تب بھی میں نے پوچھا تھا کہ ’’حرمت رسولؐ پر جان قربان کرنا اپنی جگہ، آپؐ کی ہدایات و تعلیمات پر عمل کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ نہ تب جواب آیا تھا، نہ اب کوئی امید ہے کیونکہ اس سوال کا جواب تو خود میرے پاس بھی موجود نہیں۔ کبھی کبھی اکیلا بیٹھ کر حساب لگاتا ہوں کہ آقاؐ کی ہدایات و تعلیمات پر کم سے کم کتنے فیصد بھی عمل کیا ہوتا تو آج کہاں کھڑے ہوتے۔ طویل سوچ بچار کے بعد میں اس حیرت انگیز نتیجہ پر پہنچا کہ آپؐ کی کسی ایک ہدایت پر بھی سو فیصد عمل کرلیا ہوتا تو یوں پرِکاہ و رسوانہ ہو تے بلکہ باوقار ہوتے۔ ان کی بے شمار ہدایات میں سے صرف چند پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ فرمایا :
’’جس کو مسلمان کا غم نہ ہو، وہ میری امت میں سے نہیں‘‘
آج عالم اسلام کو ایک دوسرے کا کتنا غم اور درد ہے۔ اس کو بھی چھوڑیں خود ملک کے اندر ہمیں ایک دوسرے کا کتنا غم اور درد ہے؟
فرمایا ’’جو چیز تو اپنے لئے پسند نہیں کرتا، کسی مسلمان کے لئے بھی پسند نہ کر‘‘ ….. ہم کیا کر رہے ہیں؟
فرمایا ’’علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے‘‘۔ ہم نے جبل جہالت میں پناہ لی حالانکہ اسی ایک حکم پر عمل کرلیا ہوتا اور ’’جاپان‘‘ ہی بن گئے ہوتے تو جو کچھ ہو رہا ہے، شاید ممکن ہی نہ ہوتا۔
’’علم عمل کو آواز دیتا ہے، جواب نہ ملے تو کوچ کر جاتا ہے‘‘ کر چکا ۔
’’دستِ بالا، دستِ زیریں سے بہتر ہے‘‘ والا حکم ہی مان لیتے تو نہ مقروض ہوتے نہ ہماری نسلیں گروی پڑی ہوتیں۔
یہ خالی خولی جوش و جذبہ، کھوکھلا غم و غصہ اور عمل سے انکار والا عقیدت و احترام ہمیں کس مقام تک لے آیا ہے؟‘‘ ہمیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا‘‘۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column JOsh o Jazabay K bad Gum o Gusa, Aqeedat Ehteram By Hassan Nisar