کانوں والو، کان بڑی ’’نعامت‘‘ ہیں! – عطا ء الحق قاسمی
دو ہفتے ہونے کو آئے ہیں مگر میرا دایاں کان ٹھیک ہونے کو نہیں آ رہا، یہ کان بہہ بھی رہا ہے اور اس سے سنائی بھی نہیں دے رہا، مگر اللہ کا شکر ہے اس نے سب کی طرح مجھے بھی دو کان دیئے ہیں۔ جب میں نے کسی کی بات نہ سننا ہو تو میں دایاں کان آگے کر دیتا ہوں اور اگر سننا ہو تو بائیں کان سے کام لیتا ہوں۔ ویسے آپس کی بات ہے یہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہیں، ان کے ساتھ بھی ہے، جن کے دونوں کان ٹھیک ہیں۔ اس حوالے سے بہت سے لوگ اور ادارے بھی یقیناً خوش نصیب ہیں۔ وہ بھی اپنے مطلب کی بات سنتے ہیں۔ ویسے ہم لوگ عمومی طور پر کانوں کے بہت کچے ہیں تاہم یہ کانوں کا کچا ہونا صرف منفی باتوں کے حوالے سے ہے۔ اور تو اور سوشل میڈیا پر کی گئی کسی بھی معزز شخص کی کردار کشی پر مشتمل خبریں پڑھ کر خوش ہوتے ہیں، گویا آنکھوں کے بھی کچے ہیں۔
آنکھوں سے یاد آیا کہ ہر شخص آنکھوں ہی کے قصیدے کیوں پڑھتا ہے۔ مثلاً میں نے کئی دفعہ یہ منظر دیکھا کہ پانچ چھ معززین ایک دوسرے کے پیچھے چلے جا رہے ہیں اور ’’آنکھوں والو، آنکھیں بڑی نعمت ہیں‘‘ کی صدا لحن دائودی میں لگاتے ہیں اور لوگ ہیں کہ آنکھوں کی تعریف سن کر انہیں انعام و اکرام سے نوازتے ہیں، ادھر نوجوانانِ ملت ہیں کہ اگر کسی لڑکی کی صرف آنکھیں پسند آجاتی ہیں تو بقول شفیق الرحمٰن ’’سالم‘‘ لڑکی سے شادی کر بیٹھتے ہیں اسی طرح آنکھوں کے درجات بلند کرنے والے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
ایسے مصرعوں کی مدد سے باقی تمام اعضائے جسمانی کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید یہ اسی بے جا تعریف کا ردعمل ہے کہ کچھ منصف مزاج لوگوں نے ان آنکھوں کو تمام مصیبتوں کی جڑ قرار دے دیا۔ ایک ہندو شاعر مکند کا شعر ہے ؎
دل کی نہیں تقصیر مکند آنکھیں ہیں ظالم
یہ جا کے نہ ٹکراتیں، وہ گرفتار نہ ہوتا
اور یہ ردعمل اپنی جگہ بالکل درست ہے کیونکہ سارا ستم یہ آنکھیں ہی ڈھاتی ہیں بیچارے باقی اعضا تو خاصے مرنجاں مرنج واقع ہوئے ہیں۔
یہ جو باقی اعضائے جسمانی کو میں نے مرنجاں مرنج قرار دیا ہے تو ایسا روا روی میں نہیں کہا بلکہ آپ کسی بھی عضو کو لے لیں مثلاً ہاتھوں ہی کو دیکھیں، ہمارے ملک میں ہر شخص کے دو ہاتھ ہیں اور اتفاق یہ ہے کہ تمام دنیا میں ہر شخص کے دو ہاتھ ہیں بہرحال ہمارے ہاں (اور غالباً کچھ دوسرے ممالک میں بھی) دائیں ہاتھ کو ’’دایاں بازو‘‘ اور بائیں ہاتھ کو ’’بایاں بازو‘‘ کہتے ہیں (اور اس کی نظریاتی تعریف بدلتی رہتی ہے)۔ اس ضمن میں خوش آئند بات یہ ہے کہ ’’دایاں بازو‘‘ اور ’’بایاں بازو‘‘ گو آپس میں لڑتے جھگڑتے بھی رہے ہیں لیکن چونکہ بنیادی طور پر یہ مرنجاں مرنج واقع ہوئے ہیں لہٰذا صبح ہوتے ہی یہ دونوں بھائی ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے اور پھر دونوں کسب زر کے لئے گھر سے نکل کھڑے ہوتے۔اسی طرح زبان ہی کو دیکھ لیں، یہ نہ ہو تو ہم چیزوں کے ذائقے ہی سے نا واقف ہوں، انسان کی زبان تو ذائقے کا پتا دیتی ہے جبکہ گائے اور بکرے کی زبان تو بٹ صاحبان کے نزدیک خود ذائقے دار ہوتی ہے، کچھ ایسی ہی صفات گردے میں بھی ہیں، باقی صفات تو چھوڑیں کسی کے بارے میں صرف اتنا کہہ دینا کہ ’’وہ بڑے دل گردے والا آدمی ہے‘‘ خاصی جامع تعریف سمجھی جاتی ہے۔
تاہم تمام اعضائے جسمانی میں سے جس عضو کا میں بہت ارادت مند ہوں وہ کان ہے، اللہ نے ہر شخص کو دو کان دیئے ہیں اور یہ اختیار بھی دیا ہے کہ وہ ایک سے اچھی بات سنے اور دوسرے سے اسے نکال دے۔ میرے کچھ دوست تو ایسے بھی ہیں جنہیں کان، آنکھ سے بھی زیادہ عزیز ہیں چنانچہ وہ جو سنتے ہیں اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ ملّا نصر الدین بھی انہی لوگوں میں سے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا کہ فلاں آدمی بہت بُرا ہے، ملّا نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو، وہ اٹھا تو وہی شخص آ گیا، جس کی غیبت ہوئی تھی، اس نے غیبت کرنے والے کے بارے میں ملّا سے کہا کہ وہ شخص بہت بُرا ہے، ملّا نے اس کی بات کا بھی یقین کر لیا اور کہا ’’تم ٹھیک کہتے ہو‘‘ محفل میں موجود ایک سادہ لوح شخص یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوا، اس نے ملّا کو مخاطب کیا اور کہا ’’جناب یہ کیا؟ آپ نے دونوں کی بات کو درست قرار دے دیا، آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا‘‘ ملّا نے اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’تم بھی ٹھیک کہتے ہو‘‘۔
اور چونکہ ہمارے ہاں اپنی بات صحیح ثابت کرنے کے لئے بس اتنے اور ایسے ہی دلائل کافی سمجھے جاتے ہیں جو ملّا کے حوالے سے میں نے ابھی بیان کئے ہیں، پس ثابت ہوا کہ کان جسم کا افضل ترین عضو ہے اور اس کی حفاظت کے لئے ہمیں سر دھڑ کی بازی لگا دینی چاہئے۔ باقی اعضا میں سے بیشتر کی حفاظت کا ذمہ خدا نے خود لیا ہے مثلاً دل خاصی محفوظ جگہ پر واقع ہے، آنکھوں کی حفاظت کے لئے بھی معقول انتظامات موجود ہیں، گردے اور پھیپھڑے بھی کسی تیز دھار آلے از قسم چاقو وغیرہ کی مدد کے بغیر نہیں نکال جا سکتے، ٹانگیں اور ہاتھ اپنی مضبوطی کی وجہ سے اپنی حفاظت میں ’’خود کفیل‘‘ ہیں۔ اب لے دے کے کان باقی بچتے ہیں جن کا شمار اگر اشیائے خور و نوش میں کیا جائے تو انہیں چبانے والی (مرکنی) ہڈی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور یہ غالباً اسی کا شاخسانہ ہے کہ ایک شخص کا کان جڑ سے اکھڑا ہوا تھا اور اس میں سے ’’زار و قطار‘‘ لہو بہہ رہا تھا۔ اس کے ایک دوست نے پریشان ہو کر پوچھا ’’ارے بھئی یہ کیا ہوا؟‘‘ اس نے تلخی سے جواب دیا ’’بزرگوں کا ستیاناس ہوا ہے‘‘ اس پر دوست نے حیران ہو کر پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ بولا ’’بزرگوں سے سنا تھا کہ اگر کتا کاٹنے لگے تو فوراً بیٹھ جانا چاہئے‘‘۔
Source: Jung News
Read Urdu column Kaano walo kaan bari naemat hen By Ata ul Haq Qasmi