کیلاش کا سیاحتی نوحہ – جاوید چوہدری
کیلاش کے لوگ 22 اگست کو اوچال کا تہوار مناتے ہیں‘ اوچال فصلیں پکنے اور پھل اترنے کا فیسٹول ہوتا ہے‘ کیلاشی مہینہ تیاری کرتے ہیں‘ نئے کپڑے سلواتے ہیں‘ کھانا پکاتے ہیں‘ 22 اگست کو روایتی رقص کرتے ہیں اور دنیا کی قدیم ترین زبان میں گیت گاتے ہیں۔
ہم 35 ہم خیال اوچال تہوار دیکھنے کے لیے 20 اگست کو اسلام آباد سے چترال اور پھر وہاں سے کیلاش وادی روانہ ہوئے‘ حکومت پاکستان سیاحت کے بخار میں مبتلا ہے‘ یہ ٹورازم فرینڈلی ہونے کے مسلسل دعوے کرتی رہتی ہے لیکن کیلاش کے سفر نے یہ تمام دعوے دھو کر رکھ دیے‘ ابتدا ہی خراب نکلی‘ ہم لوگوں نے فلائیٹ کے ذریعے چترال جانا تھا‘ ہمیں ٹکٹوں کے لیے جتنے پاپڑ بیلنا پڑے آپ تصور نہیں کر سکتے‘ پی آئی اے کا رویہ اور ریسپانس دونوں نامعقول تھے‘ یہ ایک طرف ملک میں سیاحت کا فروغ چاہتی ہے۔
دنیا کی بہترین ائیر لائین بھی بننا چاہتی ہے اور دوسری طرف یہ 35 لوگوں کے گروپ کو ریسپانس کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتی اور ہمیں صرف ریسپانس کے لیے سفارش کرانا پڑ گئی‘ 20 اگست کو صبح دس بج کر 50 منٹ پر فلائیٹ تھی‘ پتا چلا جہاز گلگت چلا گیا ہے اور فلائیٹ اب ڈیڑھ بجے جائے گی‘ ہمارے لوگ ملک کے مختلف حصوں سے پانچ پانچ‘ دس دس گھنٹے کا سفر طے کر کے ائیرپورٹ آئے تھے‘ یہ ائیرپورٹ کے اندر داخل نہیں ہو سکتے تھے اور وفاقی دارالحکومت کے ائیرپورٹ کے باہر ریستوران ہیں۔
کافی شاپس ہیں اور نہ ہی عزت کے ساتھ بیٹھنے کی ڈھنگ کی جگہ ہے چناں چہ ہم لوگ خوار ہو گئے‘ بارہ بجے اندر داخل ہوئے‘ بورڈنگ کرائی‘ لاؤنج میں بیٹھے اور پھر بیٹھے ہی رہے‘ فلائیٹ آدھ آدھ گھنٹے بعد آگے شفٹ ہوتی رہی‘ پہلے جہاز نہیں آ رہا تھا اور جب جہاز آیا تو پتا چلا چترال میں موسم ٹھیک نہیں‘ یہ سلسلہ چار بجے تک چلتا رہا‘ چار بجے اعلان ہوا فلائیٹ منسوخ ہو گئی ہے اور یہ اب 23 اگست کو جائے گی یعنی آپ ملاحظہ کیجیے‘ 20 اگست کی منسوخ شدہ فلائیٹ 23 اگست کو جائے گی اور اس زیادتی پر کسی نے معذرت نہیں کی‘ دنیا میں موسم پریگ نینسی(Pregnancy) بن چکے ہیں۔
یہ فوراً معلوم ہو جاتے ہیں لیکن یہاں سول ایوی ایشن تک اس سے واقف نہیں ہوتی‘ دوسرا چترال ایسا علاقہ ہے جہاں دن ایک بجے کے بعد موسم تبدیل ہو جاتا ہے اور چترال کے بچے تک اس سے واقف ہیں لیکن یہ حقیقت پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کے نوٹس میں نہیں ہے‘ اگر اس دن بھی ہماری فلائیٹ وقت پر روانہ ہو جاتی تو ہم پہنچ سکتے تھے لیکن کیوں کہ پی آئی اے ہو یا حکومت اسے دوسروں کی چھٹیوں یا خوشی سے کوئی غرض نہیں ہوتی چناں چہ یہ لوگوں کو خوار کرنے کے بعد ہنس کر گھر چلے جاتے ہیں اور اس دن بھی یہی ہوا۔
ہمارے پاس اب ’’بائی روڈ‘‘ کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا‘ ایمرجنسی میں کوسٹرز اور پھر لواری ٹنل سے آگے جیپوں کا بندوبست کرنا اور پھر رات کے وقت سفر کرنا آپ ہماری تکلیف کا اندازہ کر سکتے ہیں اور گروپ میں جب خواتین بھی ہوں‘ بزرگ بھی ہوں اور بچے بھی ہوں؟ ہمارے پاس بہرحال کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم نے اس ٹور کے لیے بہت محنت کی تھی‘ بمبوریت میں اچھے ہوٹل نہیں ہیں‘ پی ڈی سی کا موٹل سب سے اچھا ہے لیکن ذلفی بخاری کی مہربانی سے اس کو تالہ لگا ہوا ہے۔
باقی ہوٹل چھوٹے بھی ہیں اور بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں لہٰذا ہم نے دو ہفتے لگا کر ذراسا مناسب ہوٹل تلاش کیا ‘ اس میں کموڈ لگوائے ‘ بیڈ شیٹس‘ تکیے‘ کمبل اور باتھ روم کا سامان اسلام آباد سے پہنچایا‘ کھانے کی نگرانی کے لیے بندہ بھیجا ‘ اسٹاف کا بندوبست کیا ‘ ہم نے تین راتیں ٹھہرنا تھا لیکن حفظ ماتقدم کے لیے ہوٹل دو دن قبل اپنے کنٹرول میں لے لیا اور آٹھ جیپیں بھی پانچ دن کے لیے بک کرا لیں لہٰذا ہمارے پاس اب وہاں جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔
ہمارے گروپ کے لوگ بہت اچھے اور پرانے تھے‘ یہ بارہ گھنٹے کی خواری کے لیے تیار ہو گئے‘ ہم روانہ ہو گئے لیکن آپ یقین کریں بارہ گھنٹے کے سفر کے دوران راستے میں کوئی واش روم تھا اور نہ ہی ڈھنگ کا ریستوران‘ ہماری ایڈوانس ٹیم جیسے تیسے بندوبست کرتی رہی‘ ہم دو کوسٹرز پر رات ساڑھے بارہ بجے دیربالا پہنچے‘ ہماری جیپیں چار گھنٹے سفر کر کے وہاں پہنچ چکی تھیں‘ ہم نے کوسٹرز واپس بھجوائیں اور باقی سفر جیپوں پر شروع کر دیا‘ لواری ٹنل واقعی انسانی معجزہ ہے‘ لوگ 10کلو میٹر کی ٹنل بنانے پر جنرل پرویز مشرف کو دعائیں دیتے ہیں۔
ٹنل نے چترال اور دیر کو ملک سے جوڑ دیا ورنہ اس سے قبل عوام سردیوں میں افغانستان سے ہو کرچترال آتے تھے‘ سڑک لواری ٹنل تک ٹھیک تھی لیکن اس کے بعد امتحان ہی امتحان تھا‘ ہم ایون ویلی سے کیلاش کی طرف مڑ گئے اور پھر انتہائی مشکل‘ بے آرام اور دشوار گزار سفر شروع ہو گیا‘ سڑک سرے سے نہیں تھی‘ جیپیں دو دو فٹ کے پتھروں پر اچھلتی تھیں اور اندھیرے میں بہتے دریا کی طرف دوڑتی تھیں‘ اس روڈ پر جیپ چلانے والوں کو بہادری کا تمغہ ملنا چاہیے۔
ہم نے تیس کلومیٹر کا فاصلہ اڑھائی گھنٹے میں طے کیا اور ہمارے جسم میں وہاں وہاں درد ہوا جہاں آج تک نہیں ہوا تھا‘ ہمارے دائیں ہاتھ ابھری ہوئی جھکی ہوئی چٹانیں تھیں اور بائیں ہاتھ پتھروں سے سر ٹکراتا ہوا دریا اور تاحد نظر گہرا اندھیرا‘ ہم آٹھ سال سے سن رہے ہیں کے پی کے حکومت نے صوبے میں سڑکوں کا جال بچھا دیا ہے اور حکومت نے سیاحت کو اپنا مقصد حیات بنا رکھا ہے لیکن ہمیں دور دور تک وہ عظیم کے پی کے نظر نہیں آیا‘ کیلاش دنیا میں پاکستان کی پہچان ہے‘ یہ دس ایسی حیران کن تہذیبوں میں شامل ہے جو تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔
لہٰذا دنیا کیلاش کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہے‘ آج گورے سیاح صرف کیلاش کے لیے پاکستان آتے ہیں‘ پاکستان کے اپنے لوگ بھی دھڑا دھڑ کیلاش جاتے ہیں‘ اوچال فیسٹول کے لیے بھی ہزاروں لوگ بمبوریت پہنچ رہے تھے‘ امریکا‘ یورپ اور جاپان سے گورے بھی آئے تھے لیکن آپ اگر ایک بار چترال سے بمبوریت کی سڑک دیکھ لیں تو آپ چند لمحوں میں پاکستان کا سیاحتی مستقبل سمجھ جائیں گے‘ میری وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر ایک بار عام جیپ میں کیلاش کی روڈ پر سفر کر لیں‘ آپ اگر اس کے بعد نئے پاکستان اور سیاحتی کے پی کے کا نام بھی لے گئے تو آپ بے شک میرا نام محمود خان رکھ دیجیے گا۔
ہم لوگ بہرحال رات کے وقت بارہ گھنٹے سفر کر کے صبح بمبوریت پہنچ گئے اور پھر اس کے بعد آدھا دن سوتے رہے لیکن ہم جب اٹھے تو کیلاش کی تہذیب نے ہمیں ششدر کر دیا‘ ہمارے ہوٹل کے لان میں سیب‘ ناشپاتی‘ خوبانی اور شہتوت کے درخت تھے‘ہم نے ان درختوں کے نیچے ناشتہ کیا‘ کیلاش میں دو قسم کے سیب پیدا ہوتے ہیں‘ گولڈن سیب جون تک پک کر اتر جاتے ہیں جب کہ سرخ سیب ستمبر میں تیار ہوتے ہیں‘ ہم سیب کے جن درختوں کے نیچے بیٹھے تھے وہاں ستمبر میں سیب پکیں گے لیکن درخت ان سے لدے ہوئے تھے۔
ہوٹل کی بیک سائیڈ پر مکئی کا کھیت تھا اور کھیت کے آخر میں سیب اور ناشپاتی کے درجن بھر درخت تھے‘ حکیم بابر صبح سویرے کھیت کے مالکان سے رشتے داری گانٹھ آئے تھے‘ یہ مجھے تازہ ناشپاتی کا لالچ دے کر وہاں لے گئے‘ مکئی کی فصل کے آخر میں تین کیلاشی گھر تھے‘ خواتین صحنوں میں کام کر رہی تھیں اور خاندان کا بزرگ دریا کی طرف ناکا لگا رہا تھا‘ حکیم بابر مجھے اس کے پاس لے گئے‘ بابے کے چار بیٹے تھے‘ دو ایون ویلی میں کام کرتے تھے اور دو چترال میں‘ وہ خوش دلی سے ملا‘ اس نے ہمیں ناشپاتی توڑنے کی اجازت دے دی لیکن اس کی صرف ایک شرط تھی‘ ہم پھل توڑ کر صرف وہاں کھڑے ہو کر کھا سکتے تھے‘ ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے۔
میں نے زندگی میں تیسری بار درخت سے ناشپاتیاں توڑ کر کھائیں‘ آپ یقین کریں وہ مزہ ہی مختلف تھا‘ سیب اور خوبانیاں ابھی کچی تھیں تاہم چھت سے انگوروں کی بیلیں لٹک رہی تھیں اور ان پر سرخ انگوروں کے خوشے بھی تھے لیکن وہ ہماری دسترس سے دور تھے‘ ہم انھیں صرف دیکھ سکتے تھے اور ’’انگور ابھی کچے ہیں‘‘ کہہ سکتے تھے اور ہم نے جی بھر کر یہ کہا‘ حکیم بابر نے بابے کی نظریں چرا کر دو ناشپاتیاں چرا لیں اور ہم دیر تک اس چوری پر قہقہے لگاتے رہے‘ بابے کو دور سے سلام کیا اور واپس آ گئے‘ دریا کھیت کے ساتھ ساتھ بہہ رہا تھا اور اس کا شور میوزک کی طرح فضا میں گھل رہا تھا۔
ہوٹل کا مالک کیلاشی تھا‘ وہ واپسی پر مجھ سے ملنے آیا‘ اس کا کہنا تھا‘ ہم پر سکون کمیونٹی تھے‘ ہم اپنے حصار میں بہت خوش تھے لیکن پھر یہاں مبلغوں نے آنا شروع کر دیا‘ چترال‘ دیر اور پشاور کے پارسا لوگ بھی ہمارے پیچھے پڑ گئے‘ یہ ہمیں زبردستی مسلمان بنانے لگے‘ کیلاش میں جب کوئی شخص اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے تو ہم اسے اپنے قبیلے سے نکال دیتے ہیں‘ وہ اس کے بعد ہمارا لباس پہن سکتا ہے‘ ہمارے کسی تہوار میں شریک ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہم سے میل ملاپ کر سکتا ہے‘ کیلاشی پیدائشی کیلاشی ہوتے ہیں۔
کوئی دوسراشخص کیلاشی نہیں بن سکتا‘ہمارے بے شمار لوگ تبلیغ‘ خوف اور لالچ کی وجہ سے مسلمان ہونے لگے اور یوں ہم اب صرف چار ہزار رہ گئے ہیں‘ آپ لوگ دنیا میں ڈیڑھ ارب ہیں‘ ہم صرف چار ہزار ہیں‘ آپ لوگ ہمارے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں؟ ہم بھی اگر مسلمان ہو گئے تو آپ کو کیا فائدہ ہو گا! آپ پلیز ہمیں بس کیلاشی رہنے دیں‘ ہم اپنی روایات کے ساتھ بہت خوش ہیں‘ ہم پر دوسرا عذاب ٹیلی نار کی شکل میں نازل ہوا‘ ہم 2015 تک دنیا سے کٹے ہوئے تھے‘ ہم خوش تھے لیکن پھر ٹیلی نار نے یہاں بوسٹر لگا دیا اور بمبوریت میں موبائل فون بجنا شروع ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی ہمارا سکون غارت ہو گیا‘ آپ پلیز کسی طرح ہمارے موبائل بند کرا دیں۔
میری ہنسی نکل گئی لیکن اس کے دونوں مطالبے جینوئن تھے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Kailaash ka seyahti Nohha By Javed Chaudhry