کل، آج اور کل – جاوید چوہدری
عمران خان کو وزیراعظم بنانے کی پہلی کوشش جنرل احمد شجاع پاشا نے کی‘ 2011 میں وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی‘ میاں شہباز شریف پنجاب میں اچھا پرفارم کر رہے تھے‘ فوج ان سے مطمئن تھی لیکن جنرل پاشا میاں نواز شریف اور حمزہ شہباز کو پسند نہیں کرتے تھے‘ انھوں نے میرے ساتھ ایک ملاقات میں تسلیم کیا ’’میں کبھی نواز شریف سے نہیں ملا‘ مجھے شہباز شریف نے دو تین مرتبہ ملاقات کے لیے زور دیا لیکن میں نے معذرت کر لی‘‘۔
ان کا دعویٰ تھا حمزہ شہباز اس زمانے میں دن دگنا اور رات چوگنا امیر ہو رہے تھے اور ہمارے پاس ان کی کرپشن کی باقاعدہ رپورٹس تھیں‘ دوسری طرف پیپلز پارٹی وفاق کو نہیں سنبھال پا رہی تھی‘ اٹھارہویں ترمیم نے فیڈرل کو کم زور کر دیا تھا‘ فوج اسے اپنے خلاف سازش سمجھتی تھی‘ لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی بھی عروج پر تھی‘ روزانہ خودکش دھماکا ہوتا تھا اور یہ دس بیس جانیں لے جاتا تھا۔
ان حالات میں جنرل پاشا نے ایک دن آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کہا ’’ ہم سب سے ملتے ہیں لیکن ہم کبھی عمران خان سے نہیں ملے‘میرا خیال ہے ہمیں اسے بھی ملنا چاہیے‘‘ یوں جنرل کیانی کی اجازت سے جنرل پاشا کی عمران خان سے زمان پارک میں پہلی ملاقات ہوئی‘ یہ ملاقات اچھی نہیں رہی تھی‘ دوسری ملاقات بنی گالا میں ہوئی اور اس کے بعد عمران خان کی سیاسی پرورش شروع ہو گئی‘ فوج نے انھیں تین کو آرڈی نیٹرز دیے‘ ان کوآرڈی نیٹرز میں سے دو آج بھی عمران خان کے ساتھ ہیں۔
فوج کی سپورٹ سے عمران خان کے جلسوں میں جان آ گئی اور ان کی کوریج بھی شروع ہو گئی اور یوں عمران خان کا پروفائل اسپورٹس مین اور کینسر اسپتال سے سیاست دان میں تبدیل ہونے لگا‘ جنرل پاشا کے بعد جنرل ظہیر الاسلام عباسی ڈی جی آئی بنے‘ ان کی ’’درخواست‘‘ پر ملک کے ایک بڑے بزنس ٹائیکون نے 2013کے الیکشن سے قبل عمران خان کو ڈیڑھ ارب روپے دیے‘ میاں نواز شریف اس وقت دبئی میں تھے‘ بزنس ٹائیکون رقم دینے کے بعد دبئی گیا اور میاں صاحب کو بتا دیا‘ میں نے یہ رقم کس کی ہدایت پر کس کے ذریعے عمران خان کو دی تھی‘ میں نے 2016ء میں تصدیق کے لیے حسین نواز سے رابطہ کیا تو انھوں نے نہ صرف تصدیق کی بلکہ یہ بھی بتایا ’’یہ بات میرے سامنے ہوئی تھی‘‘۔
بہرحال قصہ مختصر 2013 کے الیکشن ہوئے اور عمران خان نے قومی اسمبلی میں 27سیٹیں حاصل کر لیں‘ یہ بڑا جمپ تھا مگر عمران خان خود کو وزیراعظم سمجھ رہے تھے چناں چہ نتائج نے انھیں حیران کر دیا‘ قصہ مزید مختصر نومبر 2013 میں جنرل راحیل شریف آرمی چیف بن گئے‘ یہ نواز شریف کے فین تھے لیکن جنرل عباسی اور ان کی ٹیم شریف برادران کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی‘ اس دوران مزید تین واقعات ہو گئے جن کی وجہ سے فوج اور نواز شریف کی دوریاں بڑھ گئیں۔
نواز شریف نے سی پیک شروع کرا دیا‘ امریکا اس پروجیکٹ سے خوش نہیں تھا‘ دوسرا نواز شریف نے افغانستان میں اشرف غنی سے ڈائیلاگ شروع کر دیے اور تیسرا یہ بھارت کے ساتھ بھی گفتگو کرنے لگے‘ یہ ایشوز فوج کے کور ایشوز تھے چناں چہ یہ نواز شریف سے ناراض ہو گئی‘ فوج کو اس دوران یہ بھی محسوس ہونے لگا نواز شریف دھڑا دھڑ بجلی اور گیس کے منصوبے بھی شروع کر رہا ہے اور معیشت بھی مضبوط ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ اگر چلتا رہا تو 2018میں بھی نواز شریف وزیراعظم بن جائے گا اور اگر اسے ایک اور ٹرم مل گئی تو یہ پندرہ بیس سال نہیں جائے گا۔
فوج یہ بھی جانتی تھی نواز شریف کا راستہ صرف عمران خان روک سکتا ہے‘ میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں عمران خان نے اس وقت تک اپنی شکست مان لی تھی اور یہ کے پی میں اپنی حکومت سے مطمئن تھا اور یہ پارٹی کو ری آرگنائز کر کے 2018 کے الیکشنز کی تیاری کر رہا تھا مگر جنرل عباسی نے خان کو تیار کیا اور اسے اٹھا کر سڑکوں پر بٹھا دیا اور یہ حکومت کے سامنے اسپیڈ بریکر بن گیا اور اس نے پھر نواز شریف اور ملک دونوں کو چلنے نہیں دیا۔
جنرل راحیل شریف شروع میں ’’نواز ہٹائو پلان‘‘ کے خلاف تھے لیکن جوں جوں ان کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آنے لگا یہ بھی عمران خان کو سپورٹ کرنے لگے‘ اس سپورٹ کا واحد مقصد ایکسٹینشن تھی اور ایکسٹینشن کے لیے ڈان لیکس کو بھی ایشو بنایا گیا اور پاناما اسکینڈل کو بھی استعمال کیا گیا مگر ان تمام اسکینڈلز اور دبائو کے باوجود نواز شریف نے راحیل شریف کو ایکسٹینشن نہیں دی حتیٰ کہ یہ پروپوزل راحیل شریف خود بھی نواز شریف کے پاس لے کر گئے تھے مگر وزیراعظم نے انکار کر دیا بہرحال قصہ مزید مختصر جنرل باجوہ کا دور آ گیا۔
جنرل باجوہ بھی نواز شریف کے فین تھے اور یہ معاملات کو حل کرنا چاہتے تھے لیکن فوج میں اس وقت تک عمران خان کا دھڑا مضبوط ہو چکا تھا اور اس دھڑے نے جنرل باجوہ کو نواز شریف کے ساتھ نہیں چلنے دیا‘ ڈان لیکس کی رپورٹ‘ رپورٹ پر آئی ایس پی آر کا ٹویٹ اور پھر اس ٹویٹ کی واپسی نے بھی جنرل باجوہ کو عمران خان کے قریب دھکیل دیا‘ جنرل باجوہ نے ایک بار خود اعتراف کیا ہم جب ٹویٹ واپس لینا چاہتے تھے تو ن لیگ کے اپنے وزراء میرے پاس آ کر کہتے تھے سر فوج کبھی پیچھے نہیں ہٹتی گویا اس وقت ن لیگ کے اندر بھی عمران خان کے سپورٹر اور نواز شریف کے مخالف موجود تھے۔
بہرحال قصہ مزید مختصر جنرل باجوہ کو آئی ایس پی آر کے ایک سابق ڈی جی نے عمران خان سے ملاقات کے لیے راضی کیا اور یوں دونوں کی پہلی ملاقات ہو گئی‘ نواز شریف اس وقت تک پاناما کیس میں ڈس کوالی فائی ہو چکے تھے اور سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف بنی گالا اور منی لانڈرنگ کا کیس چل رہا تھا‘ یہ کیس حنیف عباسی نے دائر کیا تھا اور عمران خان اس کیس میں سیدھے سادے ڈس کوالی فائی ہو رہے تھے‘ بہرحال خان نے جنرل باجوہ سے مدد مانگی اور جنرل باجوہ نے انھیں بچا لیا مگر اس کوشش کے دوران جہانگیر ترین بیلنسنگ ایکٹ کا نشانہ بن گئے۔
جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید عمران خان کو وزیراعظم بنانے میں مصروف ہو گئے‘ میاں شہباز شریف ان کے راستے کی بڑی رکاوٹ تھے‘ اس کی وجہ پنجاب میں شہباز شریف کی پرفارمنس تھی‘ ن لیگ نے بلاشبہ خوف ناک رکاوٹوں کے باوجود پرفارم کیا تھا لہٰذا پنجاب ن لیگ کا تھا اور پنجاب کی مدد کے بغیر عمران خان وزیراعظم نہیں بن سکتا تھا چناں چہ پنجاب میں سیاسی انجینئرنگ شروع کر دی گئی‘ الیکٹیبلز کو توڑ توڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا‘ حلقے بھی بدل دیے گئے۔
نواز شریف کو بھی جیل میں بند کر دیا گیا اور شہباز شریف کو تیسری بار وزیراعلیٰ پنجاب کا ’’لارا‘‘ بھی دے دیا گیا لیکن اس کے باوجود 2018 کے الیکشن میں ن لیگ کو ووٹ پڑ گئے چناں چہ جنرل فیض حمید کو آر ٹی ایس بٹھانا پڑ گیا یوں عمران خان کام یاب ہو گئے مگر ان کے پاس بڑی باریک سی اکثریت تھی‘ جنرل فیض حمید کو اتحادیوں کا بندوبست کرنا پڑ گیا اور یوں عمران خان وزیراعظم بن گئے۔
عمران خان خالصتاً اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار تھے‘ ان کی پارٹی تک فوج نے بنانی تھی‘ بازار روڈ کے دفتر کا کرایہ بھی ریٹائرڈ فوجی دیتے تھے لیکن عمران خان کیوں کہ ایک انتہائی چالاک انسان ہیں لہٰذا یہ بیس سالہ ساتھ کی وجہ سے فوج کی کم زوریاں جان گئے ‘ یہ سمجھ گئے تھے نواز شریف اور زرداری فوج پر اعتبار کے لیے تیار نہیں ہیں اور فوج بھی اب ان کی طرف نہیں جائے گی‘ دونوں کے درمیان ’’ٹرسٹ ڈیفی سٹ‘‘ ہے چناں چہ اب فوج کے پاس میرے علاوہ کوئی آپشن نہیں‘ دوسرا فوج کبھی اپنے عوام کے سامنے کھڑی نہیں ہو گی‘ اس نے 1971 میں بنگلہ دیش میں اپنے عوام سے لڑ کر دیکھ لیا ہے‘ یہ اب کبھی 1971 کی غلطی نہیں دہرائے گی۔
تیسرا فوج اپنے امیج کے بارے میں بہت حساس ہے‘ یہ لوگ اپنی جان قربان کر دیتے ہیں مگر اپنے امیج پر آنچ نہیں آنے دیتے‘ چوتھا فوج نے جنرل پاشا کے زمانے سے مجھے جونیئر افسروں میں قوم کا سیور (Saver) بنا رکھا ہے چناں چہ فوج کا 90 فیصد حصہ میری پوجا کرتا ہے‘ پانچواں ملک کی 63فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور سوشل میڈیا ان کی خوراک ہے۔
نوجوان ملک کی تاریخ سے بھی واقف نہیں ہیں چناں چہ آپ انھیں جس سائیڈ پر چاہیں لے جائیں اور چھٹا ملک کی 52 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے اور میں 80 سال کی نانی دادی سے لے کر 14 سال کی پوتی نواسی تک ان کا ہیرو ہوں اور یہ خواتین اور یہ نوجوان میری اصل طاقت ہیں لہٰذا عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد حکومت کے تمام کام فوج کے ’’متھے‘‘ مار دیے اور خود خواتین اور نوجوانوں کو اپنی فوج بنانے لگا‘ چین سے کورونا کی ویکسین تک جنرل فیض لے کر آئے تھے‘ قطر سے ایل این جی کا سودا جنرل باجوہ کرتے تھے۔
ملک کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالنا بھی فوج کی ذمے داری تھی‘ سعودی عرب اور یو اے ای سے رقم بھی جنرل باجوہ مانگ کر لاتے تھے‘ بزنس مینوں کو تسلی بھی آرمی چیف دیتے تھے‘ آئی ایم ایف سے قرضہ بھی آرمی لیتی تھی‘ اتحادیوں اور پارٹی کے ناراض ارکان کو بھی فوج ’’راضی‘‘ کرتی تھی اور قومی اسمبلی سے بل اور بجٹ بھی فوج پاس کراتی تھی جب کہ عمران خان کی ساری توجہ اپنی کور پاور (نوجوان‘ خواتین اور میڈیا) پر تھی۔
وزیراعظم تین تین ماہ اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی کی میٹنگ نہیں لیتے تھے لیکن پارٹی ترجمانوں کی میٹنگ ہفتے میں دو بار ہوتی تھی اور وزیراعظم اپنے ترجمانوں کو ’’دشمنوں‘‘ کو منہ توڑ جواب دینے کی تکنیکس بتاتے تھے‘ ہمیں یہاں عمران خان کو یہ داد دینی پڑے گی اس نے ساڑھے تین برسوں میں سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ملک کے اندر اپنا ایک الگ ملک بنا لیا اور اس ملک کے آٹھ دس کروڑ شہری ہیں‘ ان کا اپنا جھنڈا ہے اور نعوذ باللہ‘ نعوذ باللہ ان کا اپنا فرقہ بھی ہے‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا عمران خان نے ساڑھے تین برسوں میں اپنے آپ کو ریاست سے زیادہ مضبوط بنا لیا۔ (جاری ہے)
Source: Express News
Must Read Urdu column Kal aaj aur KAl By Javed Chaudhry