کام یاب اور کم کام یاب – جاوید چوہدری
’’انسان ناکام ہونے پر شرمندہ نہیں ہوتے ٹرائی نہ کرنے پر شرم سار ہوتے ہیں اور میری کام یابی کی وجہ ٹرائی ہے‘ میں کوشش کرنے سے کبھی نہیں گھبرایا‘‘ آرنلڈ شوارزنیگر کے ان الفاظ نے مجھے ہمیشہ سہارا دیا‘ زندگی کا کتنا بڑا فلسفہ اس شخص نے کتنی آسانی سے بیان کر دیا۔
آرنلڈ شیوارزنیگر آسٹریا کے چھوٹے سے گاؤں تھال میں پیدا ہوا‘ والد پولیس میں تھا اور بہت سخت گیر تھا جب کہ والدہ ایک ڈری سہمی وفادار عورت تھی‘ آرنلڈ دو بھائی تھے‘ یہ دونوں والد سے بہت مار کھاتے تھے‘ دوسری جنگ عظیم نے یورپ کے ہر شخص پر برے اثرات چھوڑے تھے‘ لوگ شرابی بھی ہو گئے تھے اور تشدد پسند بھی‘ آرنلڈ کے والد میں دونوں عادتیں تھیں لہٰذا آرنلڈ کا بچپن بہت برا گزرا‘ 15 سال کی عمر میں ایک دن اس نے کسی دکان پر ایک بروشر دیکھا‘ ٹائٹل پر ایک باڈی بلڈر کی تصویر چھپی تھی‘ وہ ہرکولیس فلم کا بروشر تھا‘ مشہور امریکی باڈی بلڈر رگ پارک (Reg Park) فلم میں ہرکولیس کا کردار ادا کر رہا تھا‘ وہ اس زمانے میں مسٹر یونیورس تھا‘آرنلڈ رگ کی باڈی سے متاثر ہو گیا‘اس نے اس کی تصویر کاٹی اور دیوار پر لگا دی اور یہاں سے اس کا وہ سفر شروع ہو گیا جس نے دنیا کو مبہوت کر دیا۔
آرنلڈ نے اس زمانے کے تمام بڑے باڈی بلڈرز کی تصویریں کاٹیں‘ دیوار پر لگائیں اور وہ دن رات وہ تصویریں دیکھتا رہتا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے کم زور جسم اور لکڑی جیسے بازوؤں کے ساتھ پوز بناتا رہتا‘ وہ خواب میں بھی خود کو رگ پارک کے ساتھ کھڑا اور مسٹر یونیورس کی ٹرافی لیتا دیکھتا تھا‘ خواب نے اسے ایکسرسائز پر مجبور کر دیا اور اس نے کمرے میں ’’پش اپس‘‘ لگانا شروع کر دیے‘ وہ ہزار پش اپس تک چلاگیا‘ تھال میں جم نہیں تھا‘ قریبی قصبہ گریز (Graze) 11 کلو میٹر دور تھا‘ وہاں ایک معمولی سا جم تھا‘ آرنلڈ نے والد سے چھپ کر وہاں داخلہ لے لیا اور ایکسر سائز شروع کر دی۔
وہ چاق سے دیوار پر لکیریں لگاتا تھا اور ایک ایک مسل کے چھبیس چھبیس سیٹ کرتا تھا‘ وہ رگ پارک سے ملنے امریکا جانا چاہتا تھا لیکن اس زمانے میں پاسپورٹ آسانی سے نہیں ملتے تھے‘ اسے کسی نے بتایا تم اگر فوج میں بھرتی ہو جاؤ تو تمہیں پاسپورٹ مل جائے گا‘ وہ اگلے ہی دن فوج میں بھرتی ہو گیا اور ٹینک ڈرائیور کی ٹریننگ لینے لگا‘ ٹینک ڈرائیور بننے کی واحد وجہ کم ’’ورک لوڈ‘‘ تھا‘ ٹینک ڈرائیوروں کے ’’ڈیوٹی آورز‘‘ کم ہوتے تھے اور یوں اسے ایکسرسائز کا وقت مل سکتا تھا‘ آرنلڈ چھاؤنی میں اینٹوں اور کرسیوں کے ذریعے ایکسرسائز کرتا تھا‘ قدرت نے قد اور مسلز اچھے دیے تھے چناں چہ اس کا جسم بنتا چلا گیا‘ وہ ہر صورت خود کو رگ پارک دیکھنا چاہتا تھا‘ اس نے اس کے بارے میں اتنا سوچا کہ وہ ویسا بنتا چلا گیا۔
آرنلڈ کے آرمی کیریئر کے دوران 1965میں جرمنی کے شہر ’’اسٹڈ گارڈ‘‘ میں جونیئر چیمپیئن شپ تھی‘ اسے چھٹی نہ ملی لیکن وہ اس کے باوجود چھپ کر وہاں چلا گیا اور 28 باڈی بلڈرز میں سے مقابلہ جیت لیا‘ واپس آیا تو اسے بطور سزا ملٹری جیل میں بند کر دیا گیا‘ وہ سیل میں بھی مسلسل ایکسرسائز کرتا رہا‘ بہرحال قصہ مختصر اسے جوں ہی پاسپورٹ ملا‘ اس نے نوکری چھوڑ دی اور میونخ بھاگ گیا اور ایک جم میں نوکری کر لی‘ وہ چوبیس گھنٹے جم میں رہتا تھا‘ وہیں سوتا تھا‘ وہیں ایکسرسائز کرتا تھا اور دوسروں کو ایکسرسائز کرا کر اتنے پیسے کما لیتا تھا جن سے اس کا گزارہ ہو جاتا تھا‘ وہ روزانہ تین گھنٹے ایکسرسائز کرتا تھا۔
اس زمانے کے بارے میں اس کا کہنا تھا ’’میں غلطی سے بھی غلطی نہیں کر سکتا تھا‘‘ 1967 میں لندن میں مسٹر یونیورس کا مقابلہ ہوا اور آرنلڈ نے وہ جیت لیا‘ اس وقت اس کی عمر 20 سال تھی‘ وہ اس کے بعد جیتتا چلا گیا‘ پہلے مقابلے کا جج وے بینٹ تھا‘ اسے آرنلڈ بہت معصوم اور اچھا لگا اور اس نے اسے امریکا لے جانے کا فیصلہ کر لیا‘ آرنلڈ کے پاس ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے‘ وے بینٹ نے اسے سپورٹ کیا اور یہ امریکا آ گیا‘ امریکا پہنچ کر یہ بری طرح ناکام ہو گیا‘ اسے جیتنے کی عادت تھی‘ اسے ہار نے بری طرح توڑ پھوڑ دیا اور یہ ساری رات کمرے میں اکیلا روتا رہا مگر اگلے دن یہ کمرے سے نکلا اور سیدھا اس فرینک زین کے پاس چلا گیا جس نے اسے مقابلے میں ہرایا تھا‘ اس نے اس کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا‘ اسے کام یابی کی مبارک باد دی اور اسے اپنا استاد مان لیا۔
فرینک زین حیران رہ گیا‘ یہ اس کی زندگی کا پہلا باڈی بلڈر تھا جس نے ہارنے کے بعد اسے استاد بنا لیا تھا‘ زین نے اسے پریکٹس کرانی شروع کر دی‘ آرنلڈ نے اس سے سیکھا‘ اسپورٹس میں وہ لوگ بہت اہم ہوتے ہیں جن کے ساتھ آپ پریکٹس کرتے ہیں‘ آپ اگر ورلڈ چیمپینئز کے ساتھ پریکٹس کریں گے تو آپ چیمپیئن بن جائیں گے‘ آپ اگر اس کے برعکس ناکام اور کم زور لوگوں کے ساتھ مشق کریں گے تو کبھی کام یاب نہیں ہو سکیں گے‘ آرنلڈ نے اس کے بعد ہمیشہ اعلیٰ درجے کے لوگوں کے ساتھ پریکٹس کی اورپھر کمال کر دیا۔ 1970میں اس کا مقابلہ اپنے اس ہیرو رگ پارک سے ہوا جسے دیکھ کر وہ اس فیلڈ میں آیا تھا‘ اس نے رگ کو ہرا دیا‘ اس جیت کے بعد اسے خوش ہونا چاہیے تھا لیکن وہ اداس ہو گیا‘ وہ اپنے ہیرو کو ناکام نہیں دیکھنا چاہتا تھا‘ اس کا خیال تھا اسے رگ پارک کے خلاف مقابلے میں نہیں اترنا چاہیے تھا‘ اس جیت نے اسے احساس گناہ کا شکار کر دیا اور اس نے باڈی بلڈنگ کی فیلڈ چھوڑ دی۔
آرنلڈ اس وقت تک امریکا میں مشہور ہو چکا تھا لیکن اسے اعلیٰ سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھنے اور بولنے چالنے کی تمیز نہیں تھی‘ اسے انگریزی کے بھی صرف تیس فقرے آتے تھے اور وہ بھی یہ غلط بولتا تھا‘ قدرت کی کرنی یہ ہوئی کینڈی فیملی کی ایک لڑکی ماریا شرائیور اس پر عاشق ہو گئی‘ کینڈی امریکا کے بڑے سیاسی اور کاروباری لوگ تھے‘ آرنلڈ نے اس سے شادی کر لی اورماریا نے اسے اعلیٰ سوسائٹی میں اٹھنا بیٹھنا سکھا دیا‘ یہ باڈی بلڈنگ کے بعد فلمی دنیا میں آیا اور باڈی بلڈنگ سے زیادہ محنت شروع کر دی‘ یہ بار بار فیل ہوتا رہا‘ ایک کے بعد دوسری فلم فلاپ ہوتی رہی‘ اسے پانچ سال کام نہیں ملا مگر یہ ڈٹا رہا‘ اس کا فقرہ تھا سٹے ہنگری (بھوکے رہو) تم کبھی نہ کبھی ضرور کام یاب ہو جاؤ گے۔
یہ کہتا تھا اپنی کم زوری کو اپنی طاقت بناؤ‘ تم ضرور کام یاب ہو گے‘ اسے انگریزی نہیں آتی تھی‘ اس کی آواز بھی بھدی تھی لیکن اس نے اپنی ان کم زوریوں کو طاقت بنا لیا‘ ایک کردار نبھانے کے لیے اس شخص نے ڈیڑھ سال مسلسل گھڑ سواری اور تلوار بازی کی اور پھر یہ ہالی ووڈ اسٹار بن گیا‘ ٹرمینیٹر فلم نے اسے ورلڈ اسٹار بنا دیا اور پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا لیکن پھر آرنلڈ نے اچانک فلم کیریئر چھوڑ کر سیاست میں آنے کا اعلان کر دیا‘ پورے امریکا میں ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جس نے اس کے اس فیصلے کو سپورٹ کیا ہو‘ سب کا دعویٰ تھا سیاست اس کا میدان نہیں‘ یہ مار کھا جائے گا لیکن یہ شخص جسے انگریزی نہیں آتی تھی اور جو آسٹریا سے بھاگ کر امریکا آیا تھا یہ 2003 سے 2011 تک 8 سال امریکا کی امیر ترین ریاست کیلیفورنیا کا گورنر رہا‘ اس نے اس میدان میں بھی کمال کر دیا۔
آرنلڈ کی زندگی کے تین اصول ہیں‘ خواب دیکھو‘ خواب تمہیں زندگی میں آگے لے کر جاتے ہیں‘ دوسرا ناکامی کے خوف سے کوشش بند نہ کرو‘ زندگی ایک کھیل ہے اور کھیلوں میں کھلاڑی ہارتے رہتے ہیں‘ ہار ہار کر جیتنا سیکھو تم ضرور جیتو گے اور تین اپنے کام کی اتنی پریکٹس کرو کہ یہ تمہارے مسلز‘ تمہارے جینز میں چلا جائے‘ تم کبھی ناکام نہیں ہو گے‘ ہمیشہ آگے بڑھتے رہو خواہ پوری دنیا تمہاری مخالفت کرتی رہے‘ یہ یاد رکھو دنیا میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں۔
آرنلڈ کے اصول صرف زبانی کلامی نہیں ہیں‘ یہ اس کی زندگی کا نچوڑ ہیں‘ اس نے ناکام ہو ہو کر کام یاب ہونا سیکھا‘ تھال گاؤں میں کوئی جم نہیں تھا‘ وہ اگر جم کا انتظار کرتا رہتا تو کبھی باڈی بلڈر نہیں بن سکتا تھا‘ اس نے گھر پر پش اپس اور ڈنڈ شروع کر دیے اور یہ 15 سال کی عمر میں ہزار ہزار ڈنڈ اور پش اپس کر جاتا تھا‘ اس کا پورا گاؤں یہ سمجھتا تھا یہ کبھی مسٹر یونیورس نہیں بن سکتا لیکن یہ چار بار مسٹر یونیورس اور 7بار مسٹر اولمپیا بنا اور پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ پھر پورا امریکا کہتا تھا اتنی کم زور انگریزی اور اتنے بھدے لہجے کے ساتھ یہ ایکٹر نہیں بن سکتا‘ اس کا جواب ہوتا تھا میں ایکٹر بننا ہی نہیں چاہتا میں اسٹار بننا چاہتا ہوں اور یہ اسٹار بنا۔
اور جب اس نے سیاست میں آنے کا اعلان کیا تو اس وقت بھی اس کی ٹھیک ٹھاک مخالفت ہوئی مگر اس نے کام یاب سیاست دان بن کر ایک بار پھر دنیا کو شرمندہ کر دیا‘ ان تینوں کیریئرز کے لیے یہ سیکڑوں مرتبہ ناکام ہوا مگر اس نے کسی ناکامی کو ناکامی تسلیم نہیں کیا‘ اس نے گیو اپ نہیں کیا‘ آرنلڈ ناکامی کو ناکامی نہیں مانتا‘ اس کا خیال ہے دنیا میں صرف کام یابی ہوتی ہے تاہم کچھ لوگ کام یاب ہوتے ہیں اور کچھ کم کام یاب‘ ناکام بہرحال کوئی نہیں ہوتا‘ دوسرا بار بار ٹرائی کرو‘ تم جس کو ناکامی سمجھ رہے ہو وہ پریکٹس ہے‘ یہ تمہیں پختہ کر رہی ہے‘ یہ تمہاری برداشت اور ہمت میں اضافہ کر رہی ہے‘ تم اسے ناکامی نہ سمجھو۔ یہ آج کل اپنے پہاڑی گھر میں رہتا ہے‘ ایکسرسائز کرتا ہے‘ سگار پیتا ہے اور لوگوں کو ناکامیوں کا ماتم کرتے دیکھتا ہے اور پھر سوچتا ہے اگر کسی مسئلے نے تمہیں قتل نہیں کیا‘ تم اس کے باوجود زندہ ہو تو پھر تم ناامید کیوں ہو؟ تم اپنی پریکٹس کو ناکامی کیوں کہہ ر ہے ہو‘ تم اٹھ کر دوبارہ کوشش کیوں نہیں کرتے؟
Source: Express News
Must Read Urdu column Kamyab aur Kam Kamyab By Javed Chaudhry