کارناموں سے کورونا تک – حسن نثار
کورونا تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ اخبار انگار بن گئے ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ آج ہی کسی اخبار میں کسی انڈین شہری کی تصویر دیکھی جو ایمبولنس نہ ہونے کی وجہ سے اپنی سورگباشی ماتاجی کی لاش کو موٹر سائیکل پر شمشان گھاٹ لے جا رہا تھا۔ مریخ پر پہنچ چکے انسان کی بے بسی اور بے چارگی بھی مریخ پر پہنچی ہوئی ہے۔ انسان اپنا انجام جانتا لیکن حیرت ہے کہ پھر بھی بے خبر۔
سائنس نے انسان کو بہت کچھ دیا، اس کیلئے بہت کچھ کیا لیکن یہ فیصلہ کرنا تقریباً ناممکن کہ ’’گرینڈ ٹوٹل‘‘ کیا بتاتا ہے، ان ساری عقل مندیوں اور ظفر مندیوں کی باٹم لائن کیا ہے؟ کہیں ’’باٹم‘‘ ہی تو اس کی باٹم لائن نہیں۔ یہ زندگی زمین سے زیر زمین تک سفر کے سوا ہے ہی کیا؟ وہ درخت تو آج بھی موجود ہے جس کا سیب ٹوٹ کر زمین پر گرتے ہوئے دیکھ کر نیوٹن جیسے نابغہ نے کشش ثقل جیسی پراسرار پہیلی بوجھ لی تھی لیکن نیوٹن خود بھی تو صدیوں سے پیوند خاک اور زیر زمین ہے۔
بقول یووال ’’1500میں انسان صرف زمین کی سطح تک محدود تھے۔ وہ مینار بنا لیتے، پہاڑ عبور کر لیتے لیکن آسمان پرندوں، فرشتوں اور دیوتائوں کیلئے مخصوص تھے، پھر 20جولائی 1969ء کو انسان چاند پر اتر گیا۔ یہ صرف ایک تاریخی کارنامہ نہیں تھا بلکہ ایک ارتقائی اور شاید کائناتی فتح تھی۔ ارتقا کے گزشتہ چار ارب سالوں میں کوئی حیات زمین کے ہوائی کرہ سے بلند نہیں اڑ سکی تھی۔
تقریباً تمام تاریخ انسانوں کو 99.99فیصد اس زمینی حیات کا علم ہی نہیں تھا جسے مائیکرو آرگنزم (جرثومہ) کہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہم انسانوں کا ان سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ہم میں سے ہر فرد اربوں یک خلیاتی حیات اپنے اندر مہمان رکھتا تھا جو مفت میں نہیں پل رہے تھے۔ وہ ہمارے بہترین دوست ہونے کے ساتھ ساتھ بدترین دشمن بھی تھے اور ہیں۔ ان میں سے کچھ ہماری غذا کو ہضم ہونے میں مدد دیتے ہیں اور ہماری آنتیں صاف کرتے ہیں جبکہ دوسرے بیماری اور وبائوں یعنی کورونائوں کا باعث بنتے ہیں لیکن انسانی آنکھ نے پہلی بار کسی جرثومے کو 1674میں دیکھا تھا جب انٹون لیوین ہوک (ANTON VAN LEEUWENHOEK) نے اپنے گھر میں تیار کردہ مائیکرو سکوپ میں جھانکا تو پانی کے ایک معمولی سے قطرے میں اس نے لاکھوں اقسام کی زندگی کو پھرتے دیکھا۔ آئندہ تین سو سالوں میں انسان نے بڑی تعداد میں مائیکرو سکوپ سپیسی سے تعلق قائم کیا۔ ہم ان میں سے بیشتر بیماریوں کو شکست دینے میں کامیاب رہے اور جرثوموں کو طب اور صنعتی فوائد کے لئے اپنا ’’غلام‘‘ بنا لیا۔ آج ہم جرثوموں پر انجینئرنگ سے دوائیں بناتے ہیں، حیاتیاتی ایندھن تیار کرتے ہیں اور پیرا سائٹس کو ہلاک کر دیتے ہیں۔
گزشتہ 500برسوں کا اہم ترین لمحہ 16جولائی 1945کو 5بجکر 29منٹ اور 45 سیکنڈز پر آیا جب امریکی سائنس دانوں نے ایلا موگورڈو نیو میکسیکو میں پہلی بار ایٹمی تجربہ کیا اور یہی وہ لمحہ تھا جب انسان کو یہ طاقت مل گئی کہ وہ نہ صرف تاریخ کا رخ موڑ سکے بلکہ اسے ختم بھی کر سکے۔
قارئین!
انسانی کارناموں اور کورونائوں کے درمیان رسہ کشی کی یہ تاریخ طویل اور انتہائی پیچیدہ ہی نہیں بہت سہانی اور ڈرائونی بھی ہے جس پر ہزاروں نہیں کروڑوں صفحے سیاہ کئے جا چکے۔ یہ تو چند اشارے بھی نہیں لیکن پھر دھیان کہیں اور پلٹ جاتا ہے۔ وہ شخص عبدالملک جس کی قیادت میں حجاج بن یوسف نے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی، جب بستر مرگ پر تھا تو اس نے کہا ’’میں نے حکومت کا بوجھ اس لئے اٹھایا کہ حکمرانی انسانی ترقی کی معراج ہے لیکن میں نے دھوکہ کھایا۔ جو کچھ کیا اس پر سخت نادم اور متاسف ہوں مگر ندامت و تاسف کا وقت گزر چکا اور میں ناکام و نامراد بار گناہ لئے دنیا سے جا رہا ہوں۔‘‘
مامون الرشید نزع کے عالم میں تھا جب جاحظ عیادت کیلئے حاضر ہوا۔ کسی جانور کی کھال کا بچھونا تھا جس پر ریت پڑی تھی، خلیفہ ریت پر لوٹ رہا تھا اور تاریخ کے مطابق یہ لفظ اس کی زبان پر تھے
’’اے وہ کہ جس کی بادشاہی کبھی زائل نہ ہو گی، اس پر رحم فرما جس کی بادشاہی جا رہی ہے، اے وہ جو کبھی نہیں مرے گا، اس پر رحم فرما جو مر رہا ہے۔‘‘
رہے نام ﷲ کا
سب کارنامے اور کورونے قصۂ پارینہ بننے کیلئے ہیں۔
رہے نام ﷲ کا
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Karnamo se Corona Tak By Hassan Nisar