کاش ہم بنگالی ہوتے – جاوید چوہدری
جواہر لال نہرو جب بھارت کے وزیراعظم بنے تو وہ حلف لینے کے بعد مہاتما گاندھی کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے پوچھا ’’باپو ہم نے انڈیا کو کیسے چلانا ہے؟‘‘
مہاتما گاندھی نے جواہر لال نہرو کو مشورہ دیا ’’آپ اگر انڈیا کے مقبول ترین وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تو آپ دیش میں کبھی آٹا‘ سائیکل اور سینما کی ٹکٹ مہنگی نہ ہونے دینا‘‘ گاندھی رکے اورپھر کہا ’’آٹا غریب کا کھانا ہے‘ یہ مہنگا ہوگا تو غریب بھوکا ہو جائے گا اور بھوکی عوام حکومت نہیں چلنے دیتی‘ سائیکل غریب کی سواری ہے۔
یہ مہنگی ہو گئی تو غریب کا پہیہ رک جائے گا اور اگر غریب کا پہیہ رک گیا تو حکومت کا کوئی سسٹم نہیں چلنے دے گا اور سینما غریب کی تفریح ہے اور اگر یہ مہنگا ہو گیا تو پھر غریب سرکار کو فٹ بال بنا لے گا لہٰذا آپ کو کچھ بھی کرنا پڑے سینما‘ سائیکل اور آٹا یہ تینوں مہنگے نہیں ہونے چاہییں‘‘ جواہر لال نہرو نے یہ بات پلے باندھ لی لہٰذا آج بھی انڈیا میں سینما‘ سائیکل اور آٹا سستا ہے اور لوگ کہتے ہیں آپ اگر انڈیا کو توڑنا چاہتے ہیں تو آپ بالی ووڈ بند کر دیں اور آٹا مہنگا کر دیں انڈیا ٹوٹ جائے گا جب کہ سائیکل اب موٹر سائیکل میں تبدیل ہو چکا ہے اور یہ بھی بھارت میں سستا ہے۔
بزنس میں ایک ٹرم ہوتی ہے ’’مدر انڈسٹری‘‘ اس کا مطلب ہوتا ہے کوئی ایک ایسی انڈسٹری جو آگے چل کر دوسری انڈسٹریز کو بھی چلا دے مثلاً پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکا خوف ناک معاشی بحران کا شکار ہو گیا تھا‘ حکومت نے ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لیے امریکا کی 50 ریاستوں کو ہائی ویز کے ذریعے جوڑنے کا فیصلہ کیا‘ 1923میں پین امریکن ہائی وے اسٹارٹ ہوئی اور یہ دنیا کی سب سے بڑی ہائی وے بن گئی۔
یہ 45 ہزار کلو میٹر لمبی سڑک ہے اور اس نے یو ایس اے کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکا کے تمام ملکوں کو بھی آپس میں جوڑ دیا‘یہ سڑک دو عظیم جنگوں کے درمیان امریکا کے لیے مدر انڈسٹری ثابت ہوئی اور اس نے پورے امریکا کو معاشی طور پر قدموں پر کھڑا کر دیا‘ کیسے؟ سائنس بڑی سادہ تھی‘ دنیا کی سب سے بڑی ہائی وے کی وجہ سے کنسٹرکشن سے متعلق تمام صنعتیں چلنے لگیں‘صنعتیں چلیں تو کمپنیوں اور فیکٹریوں کو انجینئرز‘ پلانرز اور ورکرز کی ضرورت پڑ گئی۔
اس ضرورت نے یونیورسٹیاں اور ٹیکنیکل ادارے ایکٹو کر دیے‘یونیورسٹیوں سے انجینئرز نکلے تو ہزاروں فیکٹریاں مشینری بنانے لگیں اور یوں مشینری کی انڈسٹری بھی چل پڑی‘ سڑک مکمل ہو گئی تو آٹو موبائل کی صنعت بھی انگڑائی لینے لگی‘ سڑک کے ساتھ ساتھ نئے شہر‘ نئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں‘ نئے انڈسٹریل ہب اور فارم ہاؤسز بننے لگے‘ یہ ایکٹو ہوئے تو لوگوں کے پاس پیسہ آ گیا اور وہ شاپنگ بھی کرنے لگے‘ ریستورانوں میں کھانا بھی کھانے لگے‘ چائے اور کافی کے لیے بھی جانے لگے اور بچوں کو پلے ایریاز میں بھی لے جانے لگے یوں لوگوں میں صحت مند زندگی کا رجحان پیدا ہو گیا۔
اس سے جم بھی بنے اور کلینک اور اسپتالوں میں بھی اضافہ ہوا‘ غرض حکومت کے صرف ایک فیصلے نے پورے امریکا کو بدل کر رکھ دیا‘ ہم اگربھارت کو بھی دیکھیں تو ہمیں دو بڑے فیصلے نظر آئیں گے‘ پہلا فیصلہ جواہر لال نہرو نے بھارت میں پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ بنائے تھے‘ ان اداروں سے فارغ التحصیل طالب علم یونیورسٹیوں میں پروفیسر بنے اور ان لوگوں نے بعدازاں سندر پچائی‘پراگ اگروال‘ ستیانڈیلا اور اروند کرشنا جیسے آئی ٹی ٹائی کونز پیدا کر دیے‘ دوسرا فیصلہ راجیو گاندھی نے 1984 میں بنگلور میں سلیکان ویلی کی بنیاد رکھی۔
بھارت نے اس سال کمپیوٹر ٹیکس فری پالیسی بھی لانچ کر دی‘ ان دو فیصلوں نے انڈیا کی معاشی بنیادیں بدل دیں اور آج بھارت میں 237 کھرب پتی موجود ہیں لیکن یہ فیصلے بھی اصل فیصلے نہیں تھے‘ بھارت کی اصل مدر انڈسٹری بالی ووڈ تھی لہٰذا کرکٹ ہو یا سلیکان ویلی ہو یہ تمام انڈسٹریز بالی ووڈ کی پراڈکٹ ہیں‘ انڈیا میں اگر بالی ووڈ نہ ہوتا تو آج وہاں ٹاٹا بھی نہ ہوتا‘ برلا بھی نہ ہوتا اور ریلائنس اور امبانی جیسے گروپ بھی نہ ہوتے‘ یہ تمام گروپس بالی ووڈ کی بائی پراڈکٹس ہیں۔
بالی ووڈ کتنی بڑی اور موثر انڈسٹری ہے آپ اس کا اندازہ پاکستان کے ایک فیصلے سے لگا لیجیے‘ جنرل مشرف نے 2007میں پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت دی تھی‘ اس ایک فیصلے نے پاکستان میں شاپنگ مالز کی انڈسٹری بھی ڈویلپ کر دی‘ ریستوران اور کافی شاپس کا کلچر بھی متعارف کرا دیا‘ فیشن انڈسٹری بھی بنا دی اور ساتھ ساتھ پاکستان کی مدفون فلم انڈسٹری میں بھی جان ڈال دی لیکن پھر ہم نے فروری 2019میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگا دی اور اس کے نتیجے میں پاکستان فلم انڈسٹری سے لے کر شاپنگ مالز تک پوری چین بیٹھ گئی۔
ہماری معیشت اس کے بعد اٹھ نہیں سکی‘ آپ اسی طرح پاکستان کی بزنس اینڈ انڈسٹری کی تاریخ کا فلمی دور سے تقابل کر لیں‘ ہماری فلم انڈسٹری تھی تو ملک میں بزنس بھی چل رہا تھا اور انڈسٹری بھی اور سوسائٹی میں برداشت‘ آرٹ‘ کلچر اور محبت بھی تھی لیکن جوں ہی فلم انڈسٹری ختم ہوئی اس کے ساتھ ہی پورے ملک کا کلچر بھی برباد ہو گیا چناں چہ آپ دیکھ لیں ایک انڈسٹری‘ ایک فیصلہ کس طرح پورے ملک کی معیشت اور کلچر دونوں کا مقدر طے کردیتا ہے۔
ہم نے پاکستان میں بھی تین انڈسٹریز بنائی تھیںاور پوری دنیا ان شعبوں میں ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی‘ ہم نے دفاع پر وسائل لگائے‘ آج پاکستان دنیا کی بہترین فوج کا مالک بھی ہے اور ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ ہم نے 1980کی دہائی میں مجاہدین کی پرورش کی اور ان لوگوں نے دنیا کی دونوں سپر پاورز کی ناک رگڑ کر رکھ دی‘ آج دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے اس کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح 1980 کی افغان روس جنگ سے جا ملتے ہیں اور ہم نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں ملک میں مذہبی اور مسلکی اختلافات کی انڈسٹری بنائی اور آپ اسکی لہلہاتی ہوئی فصلیں دیکھ لیں۔
آج حالت یہ ہے پاکستان کی ہر مسجد اور مدرسے میں علامہ اقبال کے شعر پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں اور قائداعظم کو رحمۃ اللہ علیہ لکھا اور بولا جاتا ہے لیکن میں دعوے سے کہتا ہوں علامہ اقبال اگر آج ہوتے اور یہ ’’شکوہ‘‘ جیسی ’’گستاخی‘‘ کردیتے تو یہ معاشرہ انھیں جواب شکوہ لکھنے کی مہلت نہ دیتا‘ علامہ اقبال ہجوم کی نفرت کا شکار ہو جاتے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ شکوہ پڑھ لیں اور اس کے بعد جواب دیں کیا یہ آج کے دور میں لکھا اور پڑھا جا سکتا تھا اور کیا کوئی پبلشر اسے شایع کرنے کی غلطی کر سکتا تھا۔
آج اگر اسی طرح قائداعظم ہوتے تو کیا وہ اپنے کتے کے ساتھ تصویر چھپواسکتے یا سر ظفراللہ اور جوگندر ناتھ منڈل کو اپنی کابینہ میں شامل کر سکتے؟ مجھے یقین ہے وہ اگر ہوتے تو وہ آج عدالتوں میں فلیگ اسٹاف ہاؤس‘ وزیر مینشن اور مالابار ہل ہاؤس ممبئی کی رسیدیں جمع کراتے کراتے ہلکان ہو چکے ہوتے یا اپنے اثاثوں کو اپنی انکم کے برابر کرتے کرتے انتقال کر چکے ہوتے اور قوم ان کے بعد ان کا جنازہ کس مسلک کے تحت پڑھایا جائے جیسی عظیم بحث کا شکار ہو جاتی اور یہ کیا ہے؟ یہ سب جنرل ضیاء الحق کے لیے ملک گیر انتخابی حلقہ پیدا کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔
ہمیں ماننا ہوگا غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتیں‘ یہ ہمیشہ بچے دیتی ہیں اور یہ بچے بھی دن رات بچے دیتے ہیں لہٰذا مہربانی فرمائیں‘ غلطیوں کے بہت بچے جمع ہو چکے ہیں چناںچہ اب چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز بیٹھیں اور آئین کو بڑا مان لیں‘ پورے ملک کو قانون کا پابند بنا دیں اور پھر تین چار بڑے فیصلے کر لیں‘ آپ ایک دو انڈسٹریز کو ہر قسم کی ٹیکس ریلیکس سیشن دے دیں‘ سوشل میڈیا دنیا کی جدید ترین سائنس ہے۔
آپ اس کی پوری انڈسٹری کو تیس سال کے لیے ہر قسم کے ٹیکس سے چھوٹ دے دیں‘ آپ فلم اور میوزک کی انڈسٹری کو بھی ٹیکس فری کر دیں اور آپ کنسٹرکشن انڈسٹری کو بھی دس سال کی ٹیکس ہالی ڈے دے دیں‘ پورے ملک کا معاشی پہیہ چل پڑے گا‘ یہ جو ہم ہر چھ ماہ بعد اپنی پوری پالیسی بدل دیتے ہیں‘ اس نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے‘ آپ پلیز یہ بند کر دیں اور دوسرا مہربانی فرما کر مذہب کو ذاتی فعل قرار دے دیں‘ ملک میں کسی شخص کو دوسرے شخص پر اپنے عقائد تھوپنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ یہ ملک چل پڑے گا ورنہ دو تین برس بعد اس ملک کا ہر شخص اپنے منہ سے کہے گا کاش ہم بنگالی ہوتے‘ آپ اس وقت سے ڈریں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column KAsh Hum Bangali hotay By Javed Chaudhry