کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا – حسن نثار
اِن میں سے کوئی کم بخت اپنے کارخانے، مل، فیکٹری، پلانٹ وغیرہ پر ایک بھی فالتو ملازم برداشت نہیں کرتا لیکن اپنے اپنے نام نہاد ووٹ بینک قائم رکھنے یا بڑھانے کیلئے ہر ادارہ برباد کر دیتا ہے بلکہ کر چکا ہے۔
پاکستان سٹیل ملز کے 4544ملازمین فارغ کر دیے گئے۔ یہی وبا ریلوے اور پی آئی اے تک کو لے بیٹھی یا یوں کہہ لیجئے کہ اُن سب کا بیڑہ غرق کرنے میں بھی اِس احمقانہ اور غلیظ روایت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ جاننے کیلئے سقراط، بقراط یا ارسطو، افلاطون ہونا ضروری نہیں کہ جہاں ہزار کی جگہ دو، تین یا چار ہزار بندہ ٹھونس دو گے وہاں بالآخر جینوئن ہزار بھی ذلیل و خوار بےروزگار ہو جائے گا کیونکہ پورے کا پورا ادارہ ہی کھچک جائے گا۔
مجھے یاد نہیں، کچھ عرصہ پہلے کس بھیدی نے بتایا کہ لاہور کارپوریشن میں بھی اِسی قسم کی لُٹ مار جاری ہے بلکہ سچ یہ کہ تقریباً ہر ادارہ ہی اِس وبا کی لپیٹ میں ہے بلکہ بہت سوں کے بارے میں تو گھوسٹ ملازمین کلچر کے عام ہونے کی خبر ہے۔ مجھے آج بھی ایک دو سابق وزراء اعظم کے یہ گھٹیا اور فلمی قسم کے ’’ڈائیلاگز‘‘ یاد ہیں کہ اگر لوگوں کو روزگار فراہم کرنا جرم ہے تو ہم یہ جرم بار بار کریں گے۔
اللہ جانے سیاست دان نامی یہ مخلوق کس قسم کی مٹی سے بنی ہے کہ یہ ’’نیکی‘‘ بھی کریں تو وہ اصل میں ’’بدی‘‘ ہوتی ہے۔ ’’خیر‘‘ بھی اُن کے نزدیک سے گزرے تو ’’شر‘‘ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اِسی بدصورتی کا اک اور پہلو اِس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک ہے۔ پچھلے دنوں اک سرکاری ہسپتال کے سربراہ نے بتایا کہ اکثر سرکاری ڈاکٹرز یہاں صرف تنخواہ وصولنے آتے ہیں جبکہ کام پرائیویٹ ہسپتالوں میں کرتے ہیں۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا کہ کوئی پوچھنے والا نہیں؟ اکائونٹیبلٹی کا کوئی نظام نہیں تو موصوف نے شکستہ لہجے میں کہا ’’اُن کی یونینز ہیں جن کی موجودگی میں ڈسپلن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔
قدم قدم پر بھیانک ترین تضادات کے بدبودار ڈھیر ہیں۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا قانون ہے جو کسی معاشرہ یا فرد کو خودکشی سے روک سکے؟ اگر ایک گروہ خود اپنی تباہی پر تلا ہو تو کون سی طاقت اُسے اِس ’’کارخیر‘‘ سے روک سکتی ہے؟
ایک طرف مجھے موجودہ ملکی حالات میں 4544لوگوں کے بےروزگار ہو جانے کا دکھ ہے تو دوسری طرف میں یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوں کہ یہ لوگ خود بھی اِس ’’جرم‘‘ میں شریک تھے جنہوں نے اپنی اپنی اوقات بساط کے مطابق اپنا چھوٹا موٹا سیاسی مسل یا اثرورسوخ استعمال کرکے ناجائز طور پر خود کو ادارہ پر مسلط کرکے اُس کا بھی ستیاناس کیا، خود بھی سڑکوں پر آ گئے ۔
کسی بھی معاشرہ کی سب سے بڑی بدبختی، سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں ظالم اور مظلوم، سچ اور جھوٹ، صحیح اور غلط، جائز اور ناجائز وغیرہ کے درمیان فرق جاننا اور تمیز کرنا مشکل ہو جائے۔ کوئی شخص بیک وقت ظالم بھی ہو اور مظلوم بھی، صحیح بھی ہو اور غلط بھی، سچا بھی ہو اور جھوٹا بھی تو کوئی مجھے سمجھائے کہ بندہ کیا کرے اور کدھر جائے؟
ہماری نام نہاد ایلیٹ اور ’’کریم آف دی سوسائٹی‘‘ بھی ذہنی طور پر نارمل نہیں۔ میں اب تک لاتعداد سینئر بیوروکریٹس سے یہ جملہ سن چکا ہوں کہ ’’بس جی ریٹائرمنٹ میں دو، چار، پانچ سال ہی رہ گئے ہیں، اُس کے بعد ہمیں کس نے پوچھنا ہے؟‘‘
اِس بظاہر بےضرر، معصوم، سادہ سے جملہ کا پوسٹ مارٹم کریں تو بندے کے حواس گم ہو جاتے ہیں یعنی حضرت صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ آپ نے اپنی ’’نوکر شاہی‘‘ کے دوران لوگوں کے ساتھ مہربانی، محبت، شفقت، عدل، احسان، صلہ رحمی سے کام نہیں لیا، اِس لئے فراغت کے بعد کوئی اُن پر لعنت بھیجنے کا بھی روادار نہ ہوگا، کوئی اُن کے سلام کا جواب دینا بھی پسند نہیں کرے گا… لیکن اُس کے باوجود بھی کوئی اپنے رویہ پر نظرثانی کرنے کو تیار نہیں۔
’’بیوروکریسی کا ماہر‘‘ ہمارا ایک صحافی دوست ہوتا تھا رحمت علی رازی مرحوم، جو مدتوں روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے ساتھ بھی وابستہ رہا۔ اللہ بخشے مرحوم اکثر یہ کہا کرتا تھا کہ ’’بیوروکریٹ جب تک ریٹائر نہ ہو جائے، چھوٹا موٹا فرعون ہوتا ہے لیکن ریٹائر ہو جانے کے بعد اُس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ گلی کا آوارہ کتا بھی اُس پر بھونکنا پسند نہیں کرتا‘‘۔
عرض کرنے کا مقصد یہ کہ ایسا ہرگز نہیں کہ ہم بےخبر ہیں اور جانتے نہیں کہ کر کیا رہے ہیں اور اِس کا انجام کیا ہوگا؟ لیکن پھر بھی اپنے رویوں پر نظرثانی کرنے پر آمادہ نہیں۔ ارادہ ہی خودکشی کا ہو تو کون کسی کو روک سکتا ہے۔
کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا
میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
سیاست دان رول ماڈل ہوتا ہے
اور اسی نے سب کچھ ’’رول‘‘ کے رکھ دیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Kash koi Mujhko Samjhata By Hassan Nisar