خربوزہ فلاسفی- جاوید چوہدری
میانوالی کے نیازی قبیلے کے کسی کسان نے عارف والا سے خربوزے خریدے‘ خربوزے میٹھے بھی تھے‘ خوشبودار بھی اور بڑے بھی‘ وہ بہت متاثر ہوا‘ اس نے دکاندار سے پوچھا ’’مجھے ان خربوزوں کا بیج کہاں سے مل سکتا ہے‘‘ دکاندار نے اسے بیجوں کی دکان پر بھجوا دیا‘ نیازی نے خربوزہ دکھایا اور اس کا بیج مانگ لیالیکن پھر اس کے ذہن میں آیا‘ مجھے کیا پتہ یہ بیج واقعی ان خربوزوں کا ہے بھی یا نہیں‘ اس نے دکاندار کو سلام کیا اور خربوزہ اٹھا کر اس کھیت کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا جہاں سے وہ آیا تھا‘ وہ تلاش کرتا کرتا بالآخر اصل کسان تک پہنچ گیا۔
اس نے اس سے بیج خریدے‘ میانوالی آیا‘کھیت تیار کیا اوریہ بیج زمین میں بو دیے‘ وہ چھ ماہ زمین‘ بیلوں اور خربوزوں پر محنت کرتا رہا‘ وقت پر پانی دیا‘ وقت پر کھاد اور کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کیا اور وقت پر خربوزے توڑے لیکن جب خربوزہ کاٹ کر کھایا تو عارف والا اور میانوالی کے خربوزے میں زمین آسمان کا فرق تھا‘ میانوالی کے خربوزے میں خوشبو تھی اور نہ مٹھاس‘ وہ پریشان ہو گیا‘ خربوزہ اٹھایا اور سیدھا عارف والاچلا گیا‘اس نے جس کسان سے بیج خریدے تھے وہ اس سے ملا‘ اس کے کھیت کا پھل توڑا‘ خربوزے کے ساتھ خربوزہ رکھا اور پھر پوچھا ’’بیج ایک‘ کھوالی اور محنت ڈبل لیکن دونوں کے سائز‘ خوشبو اور مٹھاس میں فرق‘ میں وجہ پوچھنے آیا ہوں‘‘۔
عارف والا کے کسان نے قہقہہ لگاکر جواب دیا ’’خان صاحب پھل میں مٹھاس اور خوشبو بیج سے نہیں آتی‘ مٹی سے آتی ہے‘ عارف والا کے خربوزے عارف والا کی مٹی کی وجہ سے میٹھے اور خوشبودار ہیں‘ صرف بیج کی وجہ سے نہیں‘ یہ بیج جب بھی عارف والا کی مٹی میں لگے گا تو اس میں خوشبو بھی ہو گی اور مٹھاس بھی‘ آپ یہاں کا بیج میانوالی لے جا سکتے ہیں لیکن آپ یہاں کی مٹی ساتھ نہیںلے جا سکتے چنانچہ یہ ایشو رہے گا‘‘۔
میں پچھلے پندرہ برسوں سے صحافت کے ساتھ ساتھ موٹی ویشن‘ سیلف ہیلپ اور پرسنیلٹی ڈویلپمنٹ کا کام بھی کررہا ہوں‘ میں جب بھی بزنس مین‘ صنعت کاروں یا کمپنی کے مالکان کے سیشن لیتا ہوں تو یہ عموماً دو شکایتیں کرتے ہیں‘ ان کی پہلی شکایت ملازمین کے بارے میں ہوتی ہے‘ یہ کہتے ہیں ہم تین چار سال لگا کر بڑی مشکل سے لوگ تیار کرتے ہیں لیکن پھر کوئی دوسری کمپنی زیادہ تنخواہ دے کر انھیں لے جاتی ہے اور دوسری شکایت ہم فلاں فلاں کمپنیوں سے فلاں فلاں ٹیم لے کر آئے‘ یہ ٹیمیں وہاں ٹھیک پرفارم کر رہی تھیں لیکن یہ لوگ جوں ہی ہمارے پاس آئے ان کی پرفارمنس ختم ہو گئی‘ یہ یہاں ڈیلیور نہیں کر پا رہے‘ کیا وجہ ہے؟ میں ان دونوں سوالوں کے جواب میں انھیں یہ خربوزہ فلاسفی سناتا ہوں اور پھر عرض کرتا ہوں۔
آپ یہ بات پلے باندھ لیں‘ آپ کے ٹرینڈ ملازمین صرف بیج ہیں‘ دوسری کمپنی آپ کے بیج لے جا سکتی ہے لیکن یہ آپ کی مٹی نہیں اور وہ مٹی آپ ہیں‘ آپ جب تک موجود ہیں‘ آپ جس بھی بیج (شخص) کو اپنے کھیت میں بوئیں گے وہ فصل دے گا چنانچہ آپ بیجوں کے جانے پر پریشان نہ ہوں‘ آپ اصل طاقت پر توجہ دیں اور وہ اصل طاقت آپ ہیں‘ آپ نے ایک شخص ٹرینڈ کر لیا آپ مزید ہزاروں لوگ ٹرینڈ کر سکتے ہیں اور وہ ہزاروں ان جانے والوں سے زیادہ پرفارم کریں گے‘ دوسراایشو آپ دوسری کمپنیوں کے بیج چوری کر رہے ہیں‘ مٹی وہیں موجود ہے لہٰذا آپ خواہ کچھ بھی کر لیں‘ آپ زیادہ محنت کر لیں‘ زیادہ پانی‘ زیادہ کھاد اور ادویات کا زیادہ چھڑکاؤ کر لیں لیکن آپ کے خربوزے میٹھے نہیں ہوسکیں گے۔
ہم اگراس خربوزہ فلاسفی کا دائرہ مزید بڑھا لیں تو اس میں ملک بھی آ جائیں گے اور سسٹم بھی‘ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا چھوٹے ملک بڑے ملکوں سے سی ای اوز اورسسٹم امپورٹ کرتے ہیں لیکن یہ سسٹم اور یہ سی ای اوز دوسرے ملکوں میں پرفارم نہیں کر پاتے مثلاً آپ مہاتیر محمد کے ماڈل کو لے لیں‘ یہ ماڈل آج تک صرف ملائیشیا میں کامیاب ہوا‘ دنیا کے جس ملک نے بھی اسے کاپی کرنے کی کوشش کی اسے نقصان ہوا‘ طیب اردگان ماڈل بھی صرف ترکی‘ چینی ماڈل صرف چین‘ نیلسن مینڈیلا ماڈل صرف جنوبی افریقہ اور امام خمینی انقلاب صرف ایران میں کامیاب ہوا‘ یہ ماڈل دوسرے ملکوں میں پہنچ کر بری طرح ناکام بھی ہوئے اور ان ملکوں نے نقصان بھی اٹھایا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ماڈلز ان ملکوں کی مٹی میں پیدا ہوئے تھے اور دوسرے ملکوں نے صرف ان کے بیج امپورٹ کیے تھے اور یہ بیج وہاں پہنچ کر اگے ضرور‘ فصل بھی تیار ہوئی مگر پھل میں خوشبو اور ذائقہ نہیں تھا چنانچہ بیج بھی اہم ہوتے ہیں لیکن مٹی ان سے زیادہ اہم ہوتی ہے‘ یہ نہ ہو تو پھل میں ذائقہ اور خوشبو پیدا نہیں ہوتی۔
وزیراعظم عمران خان نے ایک اچھا قدم اٹھایا‘ یہ 10اپریل کو لاہور گئے‘ پنجاب کی حالت دیکھی اور میاں شہباز شریف کی بیورو کریٹک ٹیم واپس لانے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ فیصلہ خوش آیند ہے‘ ملک بوئنگ کے جہاز کی طرح ہوتے ہیں‘ آپ جہاز میں ساڑھے پانچ سو مسافر بٹھا کراسے آن جاب ٹرینی پائلٹ کے حوالے نہیں کر سکتے‘ ملک چلانا ایکسپرٹس کا کام ہوتا ہے اور یہ ایکسپرٹس کتنے اہم ہوتے ہیں؟ آپ مثال ملاحظہ کیجیے‘ شوکت خانم اسپتال عمران خان کی دوسری بڑی اچیومنٹ تھا‘ عمران خان نے زندگی کے 30سال اس اسپتال کو دیے‘ یہ ایک کامیاب ماڈل ہے لیکن عمران خان دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کیا یہ عثمان بزدار کو شوکت خانم اسپتال کا سی ای او بنا دیں گے یا یہ اسپتال کا معاشی انتظام اسد عمر کے حوالے کر دیں گے۔
مجھے یقین ہے ان کا جواب ناں ہو گا‘ عمران خان نے یہ دونوں عہدے ڈاکٹر فیصل سلطان اور تسنیم بیگ (چیف فنانشل آفیسر)جیسے ماہرین کے حوالے کر رکھے ہیں‘یہ دونوں دنیا کے بہترین اداروںکے گریجویٹ ہیں لیکن آپ نے ملک کا سب سے بڑا صوبہ عثمان بزدار اور دنیا کی واحد اسلامی جوہری طاقت کی معیشت اسد عمر کے حوالے کر دی اور یہ لوگ آن جاب پائلٹس کی طرح بوئنگ اڑانے لگے اور یہ حقیقت ہے دنیا میں جب بھی کسی نااہل‘ نالائق اور ناتجربہ کارشخص کو حساس کرسی پر بٹھایا جاتا ہے تو وہ کسی تجربہ کار‘ لائق اور اہل شخص کو قریب نہیں پھٹکنے دیتا اور یوں پورے سسٹم کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور وزارت خزانہ میں بھی یہی ہوا‘ عثمان بزدار اور محمود خان نے ناتجربہ کار‘ نالائق اور نااہل بیوروکریٹس کی ٹیم بنا لی اور یہ ٹیم دونوں صوبوں کو لے کر بیٹھ گئی جب کہ اسد عمر کی ٹیم نو ماہ میں آئی ایم ایف کا پیکیج فائنل نہ کر سکی‘ یہ دن رات محنت کے باوجود ایمنسٹی کا ڈرافٹ بھی مکمل نہ کر پائی چنانچہ پرانی ایمنسٹی اسکیموں کے ڈرافٹ ’’کٹ پیسٹ‘‘ کر کے نئی اسکیم بنا دی گئی۔
آپ جب یہ ڈرافٹ پڑھیں گے تو آپ کو پورے پورے پیراگراف پرانے ملیں گے لیکن بہرحال عمران خان نے پرانی ٹیمیں واپس لانے کا فیصلہ کر کے اچھا قدم اٹھایا‘ پنجاب میں چوہدری سرور کے آئی جی امجد جاوید سلیمی کو ہٹا کر میاں شہباز شریف کے آئی جی عارف نواز کو لگا دیا گیا‘ یہ 25جولائی2017 سے13 جون2018تک آئی جی پنجاب رہے اور یہ ٹھیک پرفارم کرتے رہے‘ یوسف نسیم کھوکھر چوہدری پرویز الٰہی کی سفارش پر چیف سیکریٹری بنائے گئے تھے‘ یہ بھی ہٹائے جا رہے ہیں‘ ان کی جگہ اعظم سلیمان چیف سیکریٹری بن رہے ہیں‘یہ بھی میاں شہباز شریف کے ٹرینڈہیں‘ میاں شہباز شریف کے کو آرڈی نیشن سیکریٹری عبداللہ سنبل کو سیکریٹری سروسزاینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن لگا دیا گیا‘ نسیم صادق بھی میاں شہباز شریف کے بہت قریب تھے‘یہ شاندار فیلڈ آفیسر سمجھے جاتے ہیں‘ یہ فوڈ سیکریٹری بنا دیے گئے ہیں‘ اورنج لائن پراجیکٹ کے سربراہ اور شہباز شریف کے فنانس سیکریٹری شوکت علی کو ایگری کلچر ریفارم کی ذمے داری سونپ دی گئی۔
میاں شہباز شریف کے سیکریٹری عمل داری احمد جاوید قاضی کو سیکریٹری زراعت بنا دیا گیا‘ شہباز شریف کے خصوصی سیکریٹری ڈاکٹر شعیب اکبر کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا سیکریٹری بنا دیا گیا‘ شہباز شریف کے سیکریٹری کوآرڈی نیشن ڈاکٹر راحیل احمد صدیقی کو سیکریٹری فنانس بنا دیا گیا اور میاں شہباز شریف کے سیکریٹری اطلاعات مومن آغا کو عثمان بزدار حکومت میں بھی سیکریٹری اطلاعات کی ذمے داری سونپ دی گئی۔
یہ تمام لوگ میاں شہباز شریف کی قریبی ٹیم تھے اور میاں شہباز شریف ان کی وجہ سے پنجاب اسپیڈ کہلاتے تھے‘ ان افسروں کی واپسی اچھا قدم ہے لیکن میاں شہباز شریف کے دور میں اصل کمال ڈاکٹر توقیر اور احد چیمہ نے کیا تھا‘ یہ میاں شہباز شریف کی پرفارمنس کی گاڑی کے اگلے ٹائر تھے ‘ یہ دونوں اس وقت بھی اپنے آپ سے اپنے پتے پوچھ رہے ہیں‘ احد چیمہ ناکردہ جرائم میں 14ماہ سے کیمپ جیل میں پڑے ہیں جب کہ ڈاکٹر توقیر کہاں ہیں کوئی نہیں جانتا‘حکومت جس دن ان کے لیے دروازے کھولے گی یہ اس دن پرفارم کرنا شروع کردے گی۔
بیوروکریٹس حکومتوں نہیں ریاستوں کے ملازم ہوتے ہیں‘یہ بڑی مشکل سے ٹرینڈ ہوتے ہیں‘ سو افسروں میں سے ایک کارآمد افسر نکلتا ہے اور آپ اگر اس کارآمد اور ٹرینڈ افسر کو سائیڈ پر کر دیں گے اور ناتجربہ کار اور نالائق کھلاڑیوں کو پچ پر کھڑا کر دیں گے تو پھرکیا نتیجہ نکلے گا؟اور وہ نتیجہ نکل رہا ہے‘ عمران خان نے اہل بیوروکریٹس کے لیے دروازہ کھول کر عقل مندی کا مظاہرہ کیا‘ یہ اب مہربانی فرما کر صوبائی کیپٹن بھی بدل لیں‘ یہ اناڑیوں کو جہاز کی پائلٹ سیٹ سے اٹھا دیں ورنہ عملہ جتنا بھی اچھا اور اہل ہو جائے لیکن اگر پائلٹ نالائق ہو گا تو جہاز تباہ ہو کر رہے گا۔
وزیراعظم صرف اتنا کام کر لیں یہ جس شخص کو شوکت خانم کا سی ای او نہیں بنا سکتے یہ اسے وزارت اور وزارت اعلیٰ کی کرسی پر نہ بٹھائیں‘ ملک میں واقعی تبدیلی آ جائے گی اور دوسرا آپ نے میاں شہباز شریف کی ٹیم لے لی‘ آپ نے اچھا کیا لیکن آپ اس ٹیم کو چلانے کے لیے شہباز شریف کہاں سے لائیں گے کیونکہ خربوزہ فلاسفی بہرحال حقیقت ہے اور یہ حقیقت ثابت کرتی ہے خربوزوں میں مٹھاس اور خوشبو بیجوں کی وجہ سے نہیں ہوتی مٹی کی وجہ سے ہوتی ہے اور وہ مٹی ہم مانیں یا نہ مانیں بہرحال شہباز شریف ہے!
Must Read urdu column Kharboozah philosophy By Javed Chaudhry