خیرات – جاوید چوہدری
حضرت علی ہجویریؒ کا دربار لگا تھا‘ آپ درمیان میں تشریف فرما تھے اور مریدین آپ کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھے تھے‘ ایک مرید نے ادب کے ساتھ عرض کیا ’’حضور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں افضل ترین عبادت کیا ہے‘‘ حضرت داتا صاحب مسکرائے اور دیر تک اس شخص کی طرف دیکھتے رہے اور مسکراتے رہے۔
ہمارے نبیؐ علم کی ترویج‘ علم کے پھیلاؤ کے اس طریقے کے موجد ہیں‘ ہمارے رسولؐ روزانہ مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے‘ صحابہؓ آتے تھے اور آپؐ کے گرد پروانوں کی طرح بیٹھ جاتے تھے‘ وہ سوال پوچھتے جاتے تھے اور اللہ کے رسولؐ جواب دیتے جاتے تھے اور یوں علم ٹرانسفر ہوتا جاتا تھا‘ علم کی ترویج کا یہ سلسلہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد بھی جاری رہا‘ خلفاء راشدین بھی روزانہ مسجد نبوی تشریف لے جاتے تھے‘ وہ بھی سنت کے مطابق وہاں بیٹھ جاتے تھے۔
لوگ آتے تھے‘ سوال کرتے تھے اور فہم و فراست کے وہ عظیم مینار بھی ان سوالوں کے جواب دیتے تھے‘ یہ روایت حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد مدینہ منورہ سے نکلی اور پورے عالم اسلام میں پھیل گئی‘ صحابہ اکرامؓ‘ آئمہ اکرام اور مشائخ حضرات دمشق‘ بصرہ‘ کوفہ‘ قاہرہ اور فلسطین کی بڑی مساجد میں بیٹھ جاتے تھے‘ یہ صبح اور رات دو وقت اپنے حجروں‘ اپنی درگاہوں کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھول دیتے تھے‘ علم کے پیاسے دور دور سے آتے تھے‘ سوال کرتے تھے اور اپنی پیاس بجھا کر واپس چلے جاتے تھے‘ وقت تبدیل ہوتا رہا‘ ادوار بدلتے رہے لیکن علم کے پھیلاؤ کا یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ اولیاء کرام کا زمانہ آ گیا۔
صوفیاء کرام نے علم کی اس روایت کی مشعل تھام لی جس کے بعد سمرقند‘ بخارا‘ خیوا‘ فرغانہ‘ قونیہ‘ اصفہان‘ ہرات‘ استنبول‘ بغداد‘ قاہرہ‘ قرطبہ‘ اوچ شریف‘ اجمیر شریف اور دہلی دینی اور دنیاوی علوم کے مراکز بن گئے‘ لوگ سیکڑوں میل کا سفر طے کر کے آتے‘ اپنی پسند کے صوفی کی درگاہ پر بیٹھتے اور جب تک تھک نہ جاتے علم حاصل کرتے رہتے‘ انھیں ان درگاہوں پر رہنے کی جگہ بھی ملتی‘ کھانا بھی ملتا اور علم کے بحر بیکراں سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ملتا تھا۔ یہاں تک کہ علم پھیلانے کا یہ سلسلہ باقاعدہ ادارہ بن گیا‘ فاطمی بادشاہ المعزالدین اللہ کے حکم پر 970ء میں قاہرہ میں اسلامی دنیا کی پہلی یونیورسٹی جامعہ الازہر کی بنیاد رکھ دی گئی۔
یہ یونیورسٹی علم کی اس ترویج کا پہلا وارث تھی‘ اسلامی دنیا کے تمام بڑے مدبر‘ محقق اور عالم جامعہ الازہر سے منسلک ہو گئے‘ یہ لوگ دن بھر طالب علموں کو پڑھاتے تھے‘ طالب علم عصر کے بعد ہاسٹلوں میں چلے جاتے تھے‘ اساتذہ گھریلو ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے چند گھنٹے گھر جاتے تھے اور عشاء کی نماز کے بعد دوبارہ جامعہ آ جاتے تھے‘ یہ اپنی اپنی کلاس میں بیٹھ جاتے تھے اور پھر یونیورسٹی کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھول دیے جاتے تھے۔
قاہرہ کے عام لوگ‘ راج مزدور‘ دکاندار‘ غلام‘ کنیزیں اور مسافر آتے تھے‘ تاریخ کے عظیم اساتذہ کی کلاسوں میں بیٹھتے تھے‘ سوال کرتے تھے‘ جواب لیتے تھے اور اپنے باطن کو علم کے ٹھنڈے پانیوں سے سیراب کر کے واپس چلے تھے‘ جامعہ الازہر کی یہ عظیم روایت آج تک قائم ہے‘ مجھے 2012ء میں قاہرہ جانے کا اتفاق ہوا‘ میں نے عشاء کی نماز مسجد حسینیہ میں ادا کی اور میں نماز کے بعد جامعہ الازہر کے اولڈ کیمپس میں داخل ہو گیا‘ اساتذہ کے حجرے آباد تھے‘ پروفیسر حضرات قالینوں پر بیٹھے تھے اور ان کے گرد قاہرہ شہر کے عام لوگوں‘ گھریلو خواتین اور بچوں کا مجمع لگا تھا۔
لوگ سوال کر رہے تھے اور پروفیسر ان کے جواب دے رہے تھے‘ میں بھی چپ چاپ ایک حجرے میں بیٹھ گیا‘ مجھے عربی نہیں آتی تھی لیکن میں نے لوگوں کے اشاروں اور پروفیسروں کی باڈی لینگویج سے اندازہ لگا لیا یہ سیاسیات کی کلاس ہے اور لوگ حسنی مبارک کا مستقبل جاننے کی کوشش کر رہے ہیں‘ التحریر اسکوائر کا دھرنا ختم ہو چکا تھا‘ حسنی مبارک اقتدار سے فارغ ہو چکے تھے‘ وہ اس وقت جیل میں پڑے تھے لیکن وہ عوام کے سوالوں میں ابھی تک آزاد تھے‘ میں دیر تک وہاں بیٹھا رہا‘ میری طرف کسی نے کوئی توجہ نہ دی‘ یہ جامعہ الازہر کی ہزار سالہ روایت ہے‘ لوگ کسی اجنبی کی طرف توجہ نہیں دیتے‘ وہ صرف پروفیسر کی طرف دیکھتے ہیں اور پروفیسر صرف سوال پر توجہ دیتا ہے۔
یہ روایت صرف جامعہ الازہر تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ روایت خوارزم شاہ کے دور میں خیوا‘ سلجوقیوں کے دور میں قونیہ‘ امیر تیمور کے دور میں سمر قند‘ بخارہ اور شہر سبز اور مغلوں کے دور میں ہندوستان میں بھی موجود تھی‘ امام بخاریؒ ہوں یا پھر امام غزالیؒ وہ بھی شام کے وقت عوامی ہو جاتے تھے اور عام راہ چلتے غلام اور کنیزیں ان کا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی تھیں‘ ہندوستان میں اولیاء کرام یہ روایت نبھاتے رہے‘ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ ہوں‘ خواجہ معین الدین چشتیؒ ہوں‘ قطب الدین بختیار کاکیؒ ہوں یا پھر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ ہوں یہ تمام اولیاء کرام یونیورسٹیوں کی حیثیت رکھتے تھے‘ یہ دن کو اپنے شاگردوں کی پیاس بجھاتے تھے اور شام کے وقت خود کو جنرل پبلک کے لیے وقف کر دیتے تھے۔
میں نے آج کے دور میں یہ روایت نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں دیکھی‘ یہ یہودیوں کی یونیورسٹی کہلاتی ہے لیکن اس کے دروازے دنیا بھر کے پیاسوں کے لیے کھلے رہتے ہیں‘ آپ کوئی بھی ہیں‘ آپ کسی بھی ملک‘ نسل اور رنگ سے تعلق رکھتے ہیں آپ کولمبیا یونیورسٹی کے گیٹ سے داخل ہوں اور کسی بھی کلاس میں بیٹھ جائیں‘ آپ سے کوئی شخص نہیں پوچھے گا‘ آپ یونیورسٹی میں مہینوں پڑھتے رہیں‘ آپ سال دو سال کلاسز اٹینڈ کرتے رہیں انتظامیہ آپ سے سوال کرے گی اور نہ ہی ساتھی طالب علم آپ سے پوچھیں گے ’’جناب آپ کون ہیں اور آپ روزانہ کیوں آ جاتے ہیں‘‘۔
بس آپ کے لیے چند چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے مثلاً آپ امتحان نہیں دے سکیں گے‘ آپ کو ڈگری نہیں ملے گی اور آپ استاد اور طالب علموں کو ڈسٹرب نہیں کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ آپ اگر فارغ ہیں‘ آپ اگر امریکا جا سکتے ہیں اور آپ اگر ایک آدھ ماہ کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں تو میرا مشورہ ہے آپ نیویارک جائیں‘ کولمبیا یونیورسٹی کے قریب کرائے پر فلیٹ لیں‘ دنیا کے بہترین اساتذہ اور نوبل انعام یافتہ اسکالرز کی کلاسز میں بیٹھ جائیں‘ آپ ان سے جدید ترین علم سیکھیں اور آپ عالم فاضل ہو جائیں‘ کولمبیا کا جے اسکول (جرنلزم ڈیپارٹمنٹ) اور اسکول آف پبلک آفیئرز پوری دنیا میں مشہور ہیں‘ آپ ان دونوں ڈیپارٹمنٹ سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
اسکول آف پبلک افیئرز دنیا بھر کے دانشوروں‘ صدور‘ وزراء اعظم اور وزراء کو دعوت خطاب دیتا رہتا ہے‘ دنیا کے مختلف ملک اسکول میں نمائش بھی لگاتے رہتے ہیں‘ آپ وہاں کے مہمانوں اور نمائشوں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں‘ یونیورسٹی دنیا بھر کے ایکسپرٹس کو بھی بھرتی کرتی رہتی ہے‘ یہ لوگ پروفیسر آف پریکٹس کہلاتے ہیں‘ یہ پی ایچ ڈی نہیں ہوتے‘ یہ اپنے اپنے شعبوں کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں اور یونیورسٹی ان کا پروفائل دیکھ کر انھیں پروفیسر بھرتی کر لیتی ہے‘ یہ طالب علموں کو وہ سب کچھ سکھاتے ہیں جو انھیں روایتی استاد نہیں سکھا سکتے مثلاً مجھے کولمبیا یونیورسٹی میں تبت کا ایک ترکھان پروفیسر ملا۔
وہ شخص پچاس سال اخروٹ کی لکڑی کا فرنیچر بناتا رہا‘ یونیورسٹی نے اس کی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر اسے پروفیسر منتخب کر لیا‘ وہ ان دنوں تعمیرات کے شعبے کے طالب علموں کو اخروٹ کی لکڑی میں کندہ کاری کا طریقہ سکھارہا تھا۔کولمبیا یونیورسٹی کی یہ دونوں روایات قابل تقلید ہیں‘ ہمیں بھی اپنی یونیورسٹیوں‘ میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ عام لوگوں کے لیے کھول دینے چاہئیں‘ یہ علم کے سمندر ہیں‘ یہ ہر شخص کے لیے عام ہونے چاہئیں‘ لوگ آئیں اور پروفیسروں کی کلاسیں اٹینڈ کریں۔
ہمیں یونیورسٹیوں میں بھی مختلف شعبوں کے ماہرین کو پروفیسر آف پریکٹس کی حیثیت سے بھرتی کر لینا چاہیے‘ یہ لوگ طالب علموں کو وہ پریکٹیکل علم سکھائیں گے جو کتابوں کے ذریعے ممکن نہیں‘ میں موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔ حضرات داتا گنج بخشؒ بھی شام کے وقت عام مریدوں کے لیے درس و تدریس کا اہتمام کرتے تھے‘ لوگ آتے تھے‘ سوال کرتے تھے اور علم کی پیاس بجھاتے تھے‘ آپ ایک روز مریدوں کے درمیان بیٹھے تھے‘ لاہور کا ایک مرید آیا اور آپ سے پوچھا ’’حضور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں افضل ترین عبادت کیا ہے‘‘ حضرت داتا صاحب نے مسکرا کر دیکھا اور فرمایا ’’خیرات‘‘۔
اس شخص نے دوبارہ عرض کیا ’’اور افضل ترین خیرات کیا ہے؟‘‘ آپ دیر تک سر دھنتے رہے اور پھر فرمایا ’’معاف کر دینا‘‘ آپ چند لمحے رک کر دوبارہ گویا ہوئے ’’دل سے معاف کر دینا دنیا کی سب سے بڑی خیرات ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ خیرات سب سے زیادہ پسند ہے‘ آپ دوسروں کو معاف کرتے چلے جاؤ‘ اللہ آپ کے درجے بلند کرتا چلا جائے گا‘‘۔
حضرت داتا گنج بخشؒ نے درست فرمایا تھا‘ تصوف کی یونیورسٹی میں صوفی کب صوفی بنتا ہے؟ یہ اس وقت صوفی بنتا ہے جب اس کا دل نفرت‘ غصے اور انتقام کے زہر سے پاک ہو جاتا ہے‘ جب یہ معافی کے ڈٹرجنٹ سے اپنے دل کی ساری کدورتیں دھو لیتا ہے‘ اہل تصوف کے بارے میں کہتے ہیں‘ قاتل کو صوفی کا خون تک معاف ہوتا ہے اور یہ معافی کی وہ خیرات ہے جو صوفیاء اکرام دے دے کر بلند سے بلند ہوتے چلے جاتے ہیں‘ ان کے درجے بڑھتے چلے جاتے ہیں‘ میرا بابا کہتا تھا‘ تم معاف کرنا سیکھ لو‘ تمہیں کسی استاد کی ضرورت نہیں رہے گی‘ سارے حجاب اورسارے نقاب اتر جائیں گے۔ میرا بابا اور حضرت داتا گنج بخشؒ دونوں درست فرماتے تھے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Kherat By Javed Chaudhry