خوبصورت خاموش انقلاب!! – انصار عباسی
میرے گزشتہ کالم ’’نیول چیف! بہت اچھا‘‘ پر قارئین کی طرف سے بہت مثبت ردّعمل ملا، لیکن کچھ افراد ایسے بھی تھے جنہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے یہ سوال اُٹھایا کہ بے شک نیول چیف نے اپنی تقریر میں جو باتیں کیں، وہ بہت اچھی تھیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عملاً بھی اُنہوں نے کچھ کیا یا صرف تقریروں پر ہی زور ہے؟
چند ایک افراد کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے بہت سے لوگ پہلے بھی دیکھے جو اسلام پر لیکچر تو بہت دیتے ہیں لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔
پاکستان نیوی میں تعینات میرے جاننے والے ایک اہم افسر سے جب میں نے یہ پوچھا کہ کیا نیول چیف کا صرف تقریروں پر ہی زور ہے یا کہ کچھ عمل بھی ہو رہا ہے تو اس نے مجھے جو بتایا، وہ نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ ایک ایسا خاموش اور خوبصورت انقلاب ہے جس کی تقلید پاکستان آرمی، پاکستان ایئر فورس کے ساتھ ساتھ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی کرنی چاہیے تاکہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کر سکیں جس کی بنیاد اسلام کے سنہری اصولوں پر ہو اور جس کے افراد باکردار اور بہترین مسلمان ہوں۔
مجھے بتایا گیا کہ موجودہ نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی کی ہدایت پر اس وقت پاک بحریہ اور بحریہ فائونڈیشن کے تحت چلنے والے تمام اسکولوں میں قرآن کو فہم کے ساتھ لازمی طور پر پڑھایا جا رہا ہے جس کے لیے اساتذہ کی تربیت کی گئی اور نئے استاد بھی بھرتی کیے گئے۔
اس کے ساتھ ساتھ بحریہ کے رہائشی علاقوں میں قرآن سنٹرز کھولے گئے ہیں جہاں بچے، بڑے اور بوڑھوں‘ سب کو قرآن حکیم کی فہم کے ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور اسلامی اقدار کے فروغ اور مغرب کی ذہنی غلامی سے چھٹکارے پر زور اور تربیت دی جاتی ہے۔
اسلامی لباس اور اسلامی شعائر کو اپنانے پر زور دیا جاتا ہے اور طلبہ کو بالخصوص علامہ اقبال کے فکری انقلاب سے روشناس کروایا جاتا ہے۔
بحریہ یونیورسٹی میں اسی سلسلہ میں اقبال چیئر کا بھی قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ پاک بحریہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اب تک سو Religious Motivation Officersبھرتی کیے جا چکے ہیں۔
ان افسران نے بہترین دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور نیول اکیڈمی کے تربیت یافتہ ہیں۔ ان Religious Motivation Officersکی ذمہ داری ہے کہ وہ نیول افسران اور دوسرے اہلکاروں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی کریں۔ ان افسران کو نیوی کے جہازوں میں بھی تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
ان افسران کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ خطبہ جمعہ دیں اور دورِ حاضر کے ایشوز پر دسترس رکھتے ہوئے عوام کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی کریں۔
بحریہ کے زیر تحت چلنے والی تمام مساجد کی بہترین انداز میں تزین و آرائش کی گئی ہے جبکہ خطیب اور امام مساجد کی تعداد ماضی کے مقابلے میں دو گنا کر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نیوی اکیڈمی کے کیڈٹس کے لیے عربی تعلیم کو لازم کر دیا گیا ہے جبکہ PNSجوہر کی ڈگری میں قرآنی عربی کا نفاذ بھی کر دیا گیا ہے۔
خواتین کو پردہ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، اُن کے لیے خصوصاً پڑھاتے وقت اعضائے ستر کو چھپا کر رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے جبکہ مردوں کو نگاہوں کی حفاظت کرنے اور شائستگی اپنانے پر زور دیا جاتا ہے۔
پرموشن کے لیے پاک بحریہ کے افسران کے کردار کو اب بہت اہمیت دی جاتی ہے یعنی اگر کوئی افسر چاہے لائق ہو لیکن باکردار نہ ہو تو اُسے ترقی نہیں دی جاتی۔
جیساکہ میں نے اوپر بیان کیا ہے یہ سب کسی خوبصورت انقلاب سے کم نہیں، جس پر نیول چیف مبارک باد کے مستحق ہیں اور جس کی لازم طور پر پورے پاکستان میں تقلید ہونی چاہیے کیونکہ نہ صرف ہمارے آئین کی یہی منشا ہے بلکہ یہ سب کچھ وہ ہے جو تحریک انصاف کے اُس وعدے کے مطابق ہے جس کا مقصد پاکستان کو ریاستِ مدینہ کے اصولوں کے تحت چلانا ہے۔
یہاں میری نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی سے درخواست ہوگی کہ اگر پہلے ہی یہ تبدیلی نہیں آ چکی تو لازماً انگریزوں کے غلامی کے دور سے چلنے والے اُس رواج کو کم از کم پاک نیوی کی حد تک تو ختم کیا جائے جس کے مطابق کھانے کے لیے کانٹا الٹے ہاتھ اور چھری کو سیدھے ہاتھ میں تھما کر بائیں ہاتھ سے کھانے کی تعلیم دی جاتی ہے جو اسلامی تعلیمات کے صریحاً خلاف ہے۔
ہو سکتا ہے پاک نیوی کے اس اقدام کو دوسرے بھی نقل کرکے انگریز کی غلامی کے اس غیر اسلامی عمل سے پاکستان کی آزادی کے 72سال بعد‘ اب ہی چھٹکارا حاصل کر لیں۔
جب فوج میں کوئی فوت یا شہید ہوتا ہے تو اُسے دفنانے کے بعد بگل بجایا جاتا ہے جو انگریز نے ہمیں سکھایا اور ہم اُس کی آج تک اندھی تقلید کر رہے ہیں، بغیر سوچے سمجھے کہ کہیں یہ عمل اسلامی تعلیمات کے خلاف تو نہیں؟
اس کالم کا مقصد پاک بحریہ اور نیول چیف کی حوصلہ افزائی کرنا اور دوسروں سے یہ توقع رکھنا ہے کہ وہ ابھی اس خاموش اور خوبصورت انقلاب میں شامل ہوں گے۔
Source: Jung News
Read Urdu column Khoobsurat khamosh inqelab By Ansar Abbasi