کوٹھے سے کوٹھی تک – اوریا مقبول جان
تین مارچ 2021ء کی شام ’’جمہوریت پرست‘‘ پاکستانی میڈیا کا ہیرو صرف اور صرف آصف زرداری تھا۔ کون تھا جو اس شخص کو پاکستان کی جمہوری سیاست کی شطرنج کا بہترین کھلاڑی نہیں کہہ رہا تھا۔ پاکستانی اشرافیہ جس میں سیاست دان، بیوروکریٹس، اعلیٰ بزنس مین، بڑے زمیندار، جج، جرنیل اور مالدار صحافی شامل ہیں، ان سب کے ’’عزائم بلند‘‘ اور شوق ’’نرالے‘‘ ہیں۔ ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جن کی صبحیں دولت سیمٹنے میں گذرتی ہیں اور راتیں رنگین ہوتی ہیں ۔ یہ اشرافیہ شوق ’’نئی منزلیں‘‘ تلاش کرتا رہتا ہے۔ آپ پاکستان کے پانچوں مراکزِ اقتدار کی ’’اشرافیہ‘‘ کی خاص محفلوں تک رسائی حاصل کر لیں تو آپ کو ان کے اردگرد منڈلاتے ہوئے چند مخصوص کردار ضرور نظر آئیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اشرافیہ کے ہر شوق کی تسکین سے لے کر بنیادی سرمائے کی فراہمی تک ہر قسم کی ’’ڈیوٹی‘‘ سر انجام دیتے ہیں۔ یہ اپنی ’’ڈیوٹی‘‘ میں ماہر بھی ہوتے ہیں اور اپنے پیشے میں ایماندار بھی۔ ان میں ہر کوئی اپنے اپنے ’’شعبے‘‘کا کہنہ مشق سمجھا جاتا ہے۔
کاروباری معاملات، ٹیکس کی چوری، منی لانڈرنگ اور سرکاری افسرانِ بالا سے معاملات طے کرنے والوں کا ایک شعبہ ہے اور یہ سیاست دانوں، بزنس مینوں، بیوروکریٹس اور جرنیلوں کے درمیان ایک شاندار ’’پل‘‘ کے ’’ماہرانہ‘‘ فرائض ادا کرتا ہے اور دونوں کو سرمائے کی ندی میں غوطہ زن کر کے اپنے حصے کی ’’خون پسینے‘‘ کی کمائی لے کر زندگی گذارتا ہے۔ان ماہرین میں سے اکثر ’’کثیر المقاصد مہارت‘‘ رکھنے والے (Multi Tasker)ہوتے ہیں۔ یہ اپنے عزت دار ’’مؤکل‘‘ (Client)کے گناہوں کی کالک بھی اپنے منہ پر مل لیتے ہیں اور ہر وہ جرم ماننے کو تیار رہتے ہیں، جس کوماننے سے ان کے مؤکل کا دامن صاف ہو جائے اور یوں مستقبل میں ان کے ’’گاہک‘‘ بھی بڑھیں اور پہلے والے بھی ان پر مزید بھروسہ کریں۔ آپ نے ان کو وزیروں کے اردگرد، بیوروکریٹس کی محفلوں، جرنیلوں کے ذاتی فارموں ، عدالتوں کی راہداریوں اور چیمبر آف کامرس کی عمارتوں میں ضرور دیکھا ہوگا۔ یہ بظاہر ’’معزز‘‘ نظر آنے والا گروہ خوش لباس بھی ہوتا ہے اور چرب زبان بھی۔ اس گروہ کے درمیان ایک فقرہ سالوں سے ایک ’’نعرے‘‘، ’’سلوگن‘‘، ’’مشن سٹیٹمنٹ‘‘، یا ’’پنچ لائن‘‘ کے طور پر بولا جا رہا ہے۔ یہ فقرہ جدید دنیا کے ہر جمہوری اور غیر جمہوری معاشروں کی پیشانی پر تحریر ہے۔
فقرہ ہے ’’ہر کسی کی ایک قیمت ہوتی ہے‘‘۔ یہ فقرہ انفرادی سطح پر ایک صاحبِ ایمان شخص کیلئے چیلنج، بکنے کے خواہش مند کے لئے ’’قیمت کا تعین‘‘ اور عرفِ عام میں ’’دلال‘‘ کیلئے ایک حکمتِ عملی کا درجہ رکھتا ہے۔ آپ اس گروہ کے کسی اہم فرد کے سامنے کسی بڑے سیاست دان، بیوروکریٹ، بزنس مین، جرنیل عدلیہ کے رکن یا اعلیٰ پائے کے صحافی کا نام لے کر دیکھیں اور پھر اسے اس شخص کو ’’زیرِ دام‘‘ لانے کے لئے کہیں تو وہ فوراً اس چیلنج کو قبول کر لے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر اوقات ایسا شخص کامیاب ہو کر لوٹے گا اور آپ حیرت سے اپنی انگلیاں کاٹ لیں گے کہ ایسا تو ناممکن تھا۔ پاکستانی ’’اشرافیہ‘‘ کا یہ گمنام گروہ اس ملک میں بچھی شطرنج کے کھیل کے ماہرین کا ایسا ’’دستہ‘‘ہے کہ ان کے ہنر پر کتابیں تحریر ہونا چا ہیئں، ڈاکومنٹریاں بننا چا ہیئں اور اینکرز کو انہیں اپنے ٹاک شوز میں ماہرین کی حیثیت سے بلانا چاہیے۔عام زندگی میں یہ طبقہ گمنام ہی رہتا ہے، بلکہ بدنام بھی رہتا ہے۔ اس طبقے کی بدنام ترین مثال ’’جسم فروشی ‘‘کے کاروبار میں ’’دلال ‘‘کی ہے۔ اس کاروبار میں دنیا جسم فروش عورت کے حسن و خوبی سے آگاہ ہوتی ہے اور خریدار کی دولت اور عزت و توقیر کا بھی اسے علم ہو جاتا ہے لیکن وہ شخص جس کی مہارتوں نے دونوں کی خواہشوں کی تکمیل کی ہوتی ہے، وہ گمنام بھی رہتا ہے اور بدنام بھی۔ پیرس کی مشہور سڑک شانزے لیزے جہاں ہر سال تین کروڑ سیاح ٹہلنے آتے ہیں،وہاںیہ گروہ مدتوں سے اپنے ’’فنِ مارکیٹنگ‘‘ کے جادو جگایا کرتا تھا۔ لیکن اب
فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک میں حقوق نسواں کے علمبرداروں نے یہ قانون نافذ کیا ہے کہ اب ایسی سڑکوں پر ایک خاتون اپنا جسم براہ راست فروخت کرکے قیمت وصول کر سکتی ہے اور یہ اس کا ذاتی حق ہے ، لیکن اس عورت کو کوئی دوسرا بازار میں بیچ کر اپنے ’’فنِ مارکیٹنگ‘‘ کے دام وصول نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے برعکس جدید سودی جمہوری معاشروں کا کمال یہ ہے کہ یہاں’’جسم کی دلالی‘‘ ممنوع قرار دے دی گئی ہے لیکن ضمیر، رائے، اختیار، ادارے اور قوتِ فیصلہ کی دلالی ’’آرٹ‘‘ اور ’’فن‘‘ کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ ورلڈ بینک، ایشین بینک، آئی ایم ایف اور دیگر بڑے بڑے بینکوں کے اہم ترین کارندے ’’Economic Hitman‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ وہ کثیر القاصد لوگ ہوتے ہیں جو حکومتیں خریدتے ہیں اور اپنے مؤکلوں کو مالا مال کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر جمہوری نظام میں پارٹیوں کو سرمائے کی فراہمی کے لئے گروہ (Caucus)بنے ہوئے ہیں جو ہر پارٹی کو سودی معیشت سے جنم لینے والی مصنوعی دولت (Atrificial Credit) سے سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور پھر پوری سیاسی پارٹی ان کے مقاصد کی غلام بن جاتی ہے۔ یہ خرید و فروخت انتہائی معزز اور محترم ہے اور اسے ’’پارٹی فنڈنگ‘‘کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ سب خاموش طریقے سے ہوتا ہے لیکن اس جمہوری کاروبار میں کبھی کبھی ایک منڈی ایسی بھی سجانا پڑ جاتی ہے کہ خرید و فروخت میں سے کچھ صیغہ راز میں نہیں رہ پاتا۔ لوگ تولے اور خریدے جاتے ہیں اور یہ محاورہ سچ کر کے دکھایا جاتا ہے کہ ’’ہر شخص کی ایک قیمت ہوتی ہے‘‘۔
ایسے ہنر اور فن کو اس سودی جمہوری سیاسی طرزِ معاشرت میں ’’لابنگ‘‘ (Lobbying) جیسے مقدس نام سے یاد کیا جاتا ہے اور لابنگ کے ماہر کو بساطِ سیاست کی شطرنج کا کھلاڑی کہا جاتا ہے۔ تین مارچ 2021ء کی شام بھی عجیب تھی۔ حفیظ شیخ شطرنج کی بساط کا وہ مہرہ تھا جسے اس کھیل کے ماہر کھلاڑی آصف زرداری نے 2006ء میں پیپلز پارٹی کی جانب سے سینٹ میں پہنچایا، پھر 2012ء میں دوبارہ اسے سینٹ کی بساط پر قائم رکھا، اور آج اسے اپنی مخصوص ’’مہارت‘‘ کے بل بوتے پر ’’شہہ مات‘‘دے دی۔ شطرنج کا یہ کھیل اگست 2019ء میں بھی کھیلا گیا جب چودہ ’’معزز‘‘ جمہوری رہنماؤں (سینیٹرز) نے ’’ہر شخص کی ایک قیمت‘‘ والے محاورے کی سچائی کو ثابت کرتے ہوئے صادق سنجرانی کو منتخب کیاتھا اور آج بھی ایک درجن کے قریب ’’جمہوری شخصیتیں‘‘ بازارِ حصص میں تولی گئیں۔ اس شام کا ہیرو آصف زرداری تھا اور ’’ضمیر کی آواز پر لبیک‘‘ کہنے والے وہ درجن بھر ممبرانِ اسمبلی تھے جن کا ضمیر کیاصرف اور صرف حفیظ شیخ کے خلاف جاگا اور پھر یہی ضمیر صرف چند لمحوں کے بعد ہی مردہ ہو گیا اور انہوں نے پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد کے نام کے سامنے ’’ٹک‘‘ لگا دی۔ شورش کاشمیری کی مشہور کتاب ’’بازارِ حسن‘‘ کا ایک فقرہ ہے کہ ’’جب طوائف بکتی ہے تو ایک جسم بکتا ہے، لیکن جب قلم بکتا ہے تو پوری قوم بکتی ہے‘‘۔ یہ کتاب آج سے ستر سال پہلے لکھی گئی تھی اب اس محاورے میں قلم کے ساتھ ساتھ کیمرہ کو بھی شامل کر لینا چاہیے۔ کارپوریٹ معاشرے کی علامت سرمایہ دار راک فیلر نے کہا تھا ’’کوئی شخص کارپوریٹ سرمائے اور کارپوریٹ میڈیاکی مدد کے بغیر امریکی صدر نہیں بن سکتا‘‘۔۔ ’’انسان اور آدمی‘‘فلم میں اداکار محمد علی نے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ایک ڈائیلاگ بولا تھا، ’’جج صاحب! طوائف کے کوٹھے سے کوٹھی تک آتے آتے یہ سب کچھ فن اور آرٹ کا درجہ کیسے حاصل کر لیتاہے‘‘ کاش محمد علی زندہ ہوتا اور آج جج صاحب اسے ضرور یہ جواب دیتے کہ کوٹھے کی ذلت سے کوٹھی تک کی عزت تک کا سفر میڈیا کے کندھوں پر سوار ہو کر کیا جاتا ہے۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Khotay se Khoti Tak By Orya Maqbool jan