کیا عروج، کیا زوال ! – ارشاد بھٹی
ہم سب کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں، وہیل چیئر پر بیٹھے کبھی وہ سخاوت ناز کا سر سینے سے لگا کر پیار کرتے اونچی آواز میں ہنسنے لگ جاتے، کبھی وہ حسن مراد کا منہ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر چومتے ہوئے رونے لگ جاتے، کبھی اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپاکر نہ سمجھ آنے والی آوازیں نکالتے ہوئے سسکیاں بھرنے لگ جاتے، پچھلے 10منٹ سے یہی چل رہا تھا، جب انہوں نے اپنے ساتھ تھیٹر میں کام کرنے والے سخاوت ناز اور اپنے فلموں کے ساتھی حسن مراد کے سر اور منہ باری باری سینے سے لگا کر خوب پیار کرلیا، پھر وہ وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے دونوں بازوئوں کو اُٹھا اُٹھا کر، گھما گھما کربلکہ اوپر والے دھڑ کو گھما گھما کر وہیل چیئر پر بیٹھے ناچنے لگے، سخاوت ناز، حسن مراد بھی ان کا ساتھ دے رہے تھے، سخاوت ناز اور حسن مراد کے ساتھ منٹ دو منٹ ناچنے کے بعد منہ سے عجیب وغریب آوازیں نکالتے ہوئے انہوں نے ہمیں اپنے فارم ہاؤس کی طرف اشارہ کرکے یہ بتانا، سمجھانا شروع کیا کہ دیکھو یہ سار افارم ہاؤس میرا ہے، دیکھو میرا فارم ہاؤس کتنا بڑا ہے، جب بات سمجھ آنے کے بعد ہم سب نے مسکرا مسکرا، تالیاں بجا بجا کر کہا ماشاء ﷲ خوبصورت فارم ہاؤس ہے، تب پہلے وہ ہنسے اور پھر جب آٹھ دس کوششو ں کے باوجود کوئی ایک بات چھوڑیں، ایک لفظ بھی ہم سے نہ کہہ پائے تو
اچانک ہنستے ہنستے رونے لگے اور ہم سب انہیں چپ کرانے، ان کا دھیان کسی اور طرف لگانے لگ گئے۔دوستو!پتا ہے یہ کون ہیں جو فالج ہونے پر پچھلے 20سال سے وہیل چیئر پر ہیں، پتا ہے یہ کون ہیں جو اشاروں کی بات سمجھ لیتے ہیں، بات سمجھا لیتے ہیں مگر ایک لفظ نہیں بول پاتے، پتا ہے یہ کون ہیں جنہیں بیوی، بیٹیاں چھوڑ کر جا چکیں، جنہیں مرشد مرشد کہنے والے اب پلٹ کر خبر نہیں لیتے، جنہیں ہروقت شاہ جی شاہ جی کہنے والے اب بھول چکے جو آج اپنے تھیٹر، فلم کے ساتھیوں کو دیکھ کر خوشی وغم کا اظہا رکرتے ہوئے بے قابو ہوئے جارہے تھے، یہ سید افضال احمد، افضال چٹا مطلب نامور اداکار افضال احمد ہیں، جھنگ میں پیدا ہوئے، سید گھرانہ، ایچی سن سے تعلیم، پرکشش شخصیت، شوبز کا شوق، گھرانہ چونکہ مذہبی ، خاندان کی مخالفت، گھر بار چھوڑ کر شوبز کی دنیا میں آنا، اشفاق احمد کے ڈرامے اُچے برج لاہور دے (کارواں سرائے ) میں 18سالہ افضال احمد کا 50 سالہ بوڑھے کا کردار ادا کرنا، پھر منو بھائی کے ڈرامے جزیرہ میں کمال اداکاری، دھڑا دھڑ فلمیں ملنا شروع ہو گئیں، تیس 35سالہ فلمی کیریئر، اردو،پنجابی، پشتو اڑھائی سو فلمیں، بنا رسی ٹھگ، جیر ابلیڈ، سید ھا راستہ، نوکرو وہٹی دا، شریف بدمعاش، وحشی جٹ، چن وریام، ملے گا ظلم دا بدلہ جیسی لاتعداد سپر ہٹ فلمیں، 90کی دہائی عرو ج کا زمانہ، مذہب، صوفی ازم سے لگاؤ، حج، درجنوں عمرے، پھر ایک روز فالج کا شدید اٹیک ہوا، جان بچ گئی مگر بولنا گیا، معذور ہوگئے، وہیل چیئر پر آگئے، اورپچھلے 20سال سے وہیل چیئر پر، حکومتی بے حسی، سب ادارے انہیں بھلا ئے بیٹھے، رہ گئی فلم انڈسٹری، اس نے کسی کے لئے کیا کرنا ہے، خود کب کی مرحومہ، مغفورہ ہوچکی، ہاں وہ اداکار، ہدایتکار، فلم ساز جو کبھی افضال احمد کے گھر سے اُٹھتے نہیں تھے، آج ان کا رستہ بھول گئے، افضال احمد کی بہن بتا رہی تھیں کہ اداکار محمد علی جب تک زندہ رہے، ہفتے میں ایک کھانا افضال احمد کے ساتھ کھایا کرتے، اداکار ندیم لاہور آئیں تو ملنے آتے ہیں ورنہ کوئی نہیں ۔افضال احمد اس حال تک پہنچے کیسے، یہ لمبی کہانی، خلاصہ یہ کہ
ازدواجی زندگی اتنی خوشحال نہ تھی، رشتے دار لالچی تھے، اپنی کل جمع پونجی لگا دی تماثیل تھیٹر کی تعمیر پر، یہ منصوبہ جیسا سوچا تھا، ویسا کامیاب نہ ہوا، مزاجاً حساس، ہمیشہ دینے والوں میں سے تھے، مقروض ہوئے، لوگوں سے مانگنا پڑا، اپنوں کی آنکھیں بدلیں، بات دل ودماغ پر لے گئے، برین ہیمرج پلس فالج کا حملہ ہوا، اپنے تماثیل تھیٹر کے باتھ روم سے اسپتال اور تمام تر کوششوں کے باوجود بولنا گیا، چلنا، پھرنا گیا، وہیل چیئر پر آگئے، مزے کی بات سنیے، اب حکومت بجائے اس کے افضال احمد کا خیال رکھتی، ان کا ساتھ دیتی، پہلے حکومتی اداروں نے 5سال ان کےتماثیل تھیٹرہال میں خاندان کورُلایا، اب ایل ڈی اے افضال احمد کے فارم ہاؤس کی آدھی زمین دبا کر بیٹھا ہوا ہے، یہاں مجھے اداکار علی اعجاز مرحوم یادآگئے، ایک بار اسلام آباد میں ایک دوست کے ہاں ملاقات ہوگئی، تھوڑی دیر بعد یہ بتاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر روپڑے کہ میرے گھر پر قبضہ گروپ نے قبضہ کر لیاہے اور حکومت یاحکومتی ادارے کچھ نہیں کررہے، مجھے اچھی طرح اداکارہ، ہدایتکارہ شمیم آرا بھی یاد جنہوں نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ ایک زمانے کی بے وفائی کے درجنوں قصے سنائے، اوروہ اداکارہ روحی بانو،جوان بیٹے کی موت،حکومتی بے حسی، اپنوں کی منافقت، گلی گلی پھری اور وہ خالدہ ریاست جسے بے وفائی نے کینسر بن کر مارڈالا۔افضال احمد کیا عروج تھا، کیا اداکار،کیا اداکاری، کئی بار فلمی سیٹ پر انہیں اداکاری کرتے ہوئے دیکھا، آواز، ڈائیلاگ ڈلیوری، چہرے کے تاثرات، بے رنگ سین میں بھی رنگ بھر دیا کرتے تھے، کیا گرج دار بلکہ پاٹ دار آواز اور بولتی آنکھیں پائیں، یہ تب کی بات جب انکے اسٹیج ڈرامے ’’جنم جنم کی میلی چادر‘‘ کی دھوم مچی ہوئی تھی، یہ اسلام آباد آئے، ایک ہوٹل میں ان سے ملاقات ہوئی، آدھے گھنٹے کی یہ ملاقات اڑھائی گھنٹے پر پھیلی اور ان اڑھائی گھنٹوں میں ایک موقع پر انہوں نے ایک جملے کوپانچ بارمختلف انداز سے بول کر دکھایا، سنایا، یقین جانیے، ہر بار یہ وہی ایک جملہ بولتے، جملے کے معنی بدل جاتے، شاید یہی وجہ کہ میں جب سے ان سے ملا، تب سے یہی سوچ رہا ہوں کہ انہیں تلفظ، مکالمے کا بادشاہ کہا جاتا تھا، وہ اداکاری کرتے، لگتا ہی نہیں تھا اداکاری ہورہی، وہ ایسے مکالمے بولتے، مخالف اداکار تک تالیاں بجانے پر مجبورہوجاتے، وہی مکالمے، ڈائیلاگ ڈلیوری کا بادشاہ افضال احمد، آج ایک فقرہ چھوڑیں ایک لفظ نہیں بول سکتا، بار بار سورہ رحمان کی آیت یاد آرہی،کُلُّ مَن عَلَیہَا فَانٍٍ، زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں، وَّ یَبقٰی وَجہْ رَبِّکَ ذْو الجَلٰلِ وَ الاِکرَامِ، صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی ۔
Source: Jung News
Read Urdu column Kia Arooj, Kia Zawal By Irshad Bhatti