کیا ہم ناشکری کی سزا کیلئے تیار ہیں – اوریا مقبول جان
اس سے زیادہ ناشکرے پن اور اللہ پر توکل کی کمی کا کیا اظہار ہو گا کہ جب سے پاکستان کی سرزمین پر کورونا نے اپنے قدم رکھے ہیں‘ اقتدار کی مسند پر بیٹھے ہوئے سیاست دان اور ان کے ’’مواصلاتی حواری‘‘ صرف ایک ہی راگ الاپے جا رہے ہیں کہ ہم بھوک سے مر جائیں گے۔ اگر اس خوف کا اظہار زمبیا‘ چاڈ‘ یا مڈاگاسکر جیسے ممالک کا وزیر اعظم یا ان کے اہل اقتدار کرتے تو دنیاوی وسائل کے اعتبار سے بھی سمجھ آنے والی بات تھی کہ یہ ممالک خوراک کی کمی کے اعتبار سے بنائے گئے عالمی ادارہ خوراک کے انڈیکس میں سب سے آخر میں آتے ہیں۔ پاکستان تو ان ممالک میں سے ہے جہاں خوراک انسانوں کی ضروریات سے زیادہ پیدا ہوتی ہے۔ جو ملک ہر سال تقریباً ڈیڑھ کروڑ میٹرک ٹن چاول پیدا کرے اور ضروریات سے زیادہ تقریباً 45لاکھ میٹرک ٹن غیر ملکی منڈیوں میں بیچے‘ جو تقریباً پونے تین کروڑ میٹرک ٹن گندم پیدا کرے لوگ پیٹ بھر کر کھائیں اور پھر پندرہ لاکھ میٹرک ٹن ایکسپورٹ بھی کر دیں۔جہاں ہر سال تقریبا پچاس لاکھ میٹرک ٹن دالیں پیدا ہوں اور ان میں سے بھی ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن بیرون ملک بیچنے کے لئے بچ جائیں۔ ایسے ملک میں اگر دن رات یہ راگ الاپا جائے کہ یہاں لوگ بھوک سے مر جائیں گے تو ارباب اختیار کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ہر روز چند چہرے ٹیلی ویژن پر آ کر یہی خوف پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے پاس اس خوف کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہے۔ کوئی پوچھے کہ آپ کے پاس معلومات ہیں کہ پاکستان کے پاس اس وقت کتنے دنوں تک کی خوراک میسر ہے‘ کتنی گندم‘ دالیں اور سبزیاں موجود ہیں اور کتنے ہفتوں کے بعد اس ملک میں فاقے شروع ہو جائیں گے اور کب لوگ بھوک سے مرنے والوں کی لاشیں اٹھا کر قبرستانوں کا رخ کرنے لگیں گے۔ ان تمام سوالوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ یہ وہ ڈھنڈورچی ہیں جو وزیر اعظم کے منہ سے نکلے ہوئے اس فقرے کو بار بار دھراتے پھرتے ہیں کہ اگر لاک ڈائون جاری رہا تو ہم بھوک سے مر جائیں گے۔ کسی کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں۔ کوئی منصوبہ بندی نہیں۔
پاکستان کا بیورو کریٹ جسے گزشتہ تیس سالوں میں دیوار کی مکھی بنا دیا گیا تھا۔ وہ خان صاحب کے زمانے میں بھی ناراضگی کے خوف سے سچ نہیں بولتا۔ حقیقت بیان نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا انتظام و انصرام مغرب پلٹ ماہرین کے قبضے میں جا چکا ہے۔ جنہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس ملک کی گائوں کی معیشت (Villege Economey)کیسی ہوتی ہے۔ ایک ایسی خود مختار معیشت جسے اپنی ضروریات کیلئے صرف نمک باہر سے منگوانا پڑتا ہے اور وہ اس حالت میں کئی سالوں تک زندہ رہ سکتے ہیں کیونکہ وہ ایسے ہی صدیوں سے زندہ رہتے چلے آئے ہیں۔ کوئی بھی ان لوگوں میں سے ایسا نہیں جو روز اس ملک کو خوف کا یہ ’’بھاشن‘‘ دینے والوں کو کہ ہم بھوک سے مر جائینگے‘ یہ بتا سکے اعداد و شمار کے مطابق اتنے دن ‘ ہفتے‘ مہینے کے بعد موت کا فرشتہ اس ملک میں بھوکوں کو اپنے ساتھ لے جانا شروع کریگا۔ لیکن اس سب کے برعکس دنیا بھر کے ماہرین اور پاکستان کے ڈاکٹرز اور ماہرین صحت یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ اگر پاکستانی عوام نے کورونا کے معاملے میں احتیاط نہ کی اور حکومت نے لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی تو ایک دن ایسا آئے گا کہ لوگ سڑکوں اور راستوں پر تڑپتے ہوئے جان دینے لگیں گے کیوں کہ ہسپتالوں میں اتنے بستر میسر ہوں گے اور نہ ہی اتنے ڈاکٹر اور دیگر سٹاف جو ان کا علاج اور دیکھ بھال کر سکے۔ عالمی ادارہ صحت سے لے کر دیگر تمام غیر جانبدار ذرائع اس خوف کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام میں خود احتیاطی کا عنصر بالکل نہیں ہے‘ اس لئے اگر حکومت نے سخت اقدام نہ کئے تو مئی کے بعد اموات کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن شاید ہم اس ملک کو چلانے کی صلاحیت سے عاری ہو چکے ہیں یا پھرہماری نیتوں میں کوئی فتور آ چکا ہے کہ ہم ڈھنگ سے اس نعمتوں سے مالا مال ملک میں آفت سے نمٹنے کی بھی منصوبہ بندی نہیں کر پا رہے۔آج سے دو ماہ قبل پوری دنیا پر واضح ہو چکا تھا کہ کورونا کس قدر خطرناک ہے اور اسے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک نے اپنے وسائل کاجائزہ لیا‘ صحت کی سہولتوں کا اندازہ لگایا‘ پھر سخت قوانین کے ذریعے وہ تمام شاپنگ مالز‘ تفریحی سہولتیں ‘ کاروباری مراکز اور صنعتیں وغیرہ مکمل بند کر دیں۔یہ تمام مراکز اتنے بڑے تھے کہ ان کے ایک شہر کی معیشت میں پورے پاکستان کی معیشت سما جائے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے لوگوں تک خوراک کے لئے کم سے کم سرمایہ پہنچانے کا بندوبست کیا۔ چونکہ وہاں سب لوگ بنکوں اور کریڈٹ کارڈ وغیرہ کے ساتھ منسلک ہیں اس لئے یہ کام بہت آسان تھا۔
ٹرمپ نے ایک خاص آمدنی والوں کے بنکوں میں بارہ سو ڈالر فی کس جمع کروا دیے۔ پاکستان میں تو کمال ہو گیا۔ ہر کوئی اپنا پرچم لے کر اٹھا اور کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے دوڑ پڑا۔خیراتی ادارے راشن کی تقسیم میں لگ گئے۔ عام آدمی نے بھی راشن اٹھائے اور غریبوں میں بانٹنے لگا۔ حکومت نے بیوائوں کو بڑے ہالوں میں کیمروں کی چکاچوند میں جمع کیا اور خیراتی رقم کی تقسیم کر دی۔ ہسپتالوں کی جانب دیکھا تو کچھ بھی پلے نہ تھا۔ ڈاکٹروں کے لئے حفاظتی لباس تک نہ تھے۔ پندرہ ڈاکٹر شہید ہو گئے اور چھ سو کے قریب کورونا کا شکار۔اگر کورونا مریضوں کی دیکھ بھال اراکین اسمبلی کے ذمہ ہوتی اور ان میں سے پندرہ شہید اور چھ سو کورونا کا شکار ہوتے تو اب تک کہرام مچ چکا ہوتا۔ اب آخری فیصلہ یہ ہوا ہے کہ لاک ڈائون جو پہلے ہی نرم تھا اسے قانونی طور پر نرم کرنے کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے سب کچھ عوام پر چھوڑ دیا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ٹریفک چلانے کے لئے ڈرائیونگ لائسنس کی شرط ختم کر دی جائے اور عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ پاکستانی عوام کے مزاج کو اگر کوئی جانتا ہوتا تو ایسا فیصلہ نہ کرتا۔ لیکن کیا کریں ہم تو مغرب پلٹ ماہرین کے ہاتھوں یرغمال ہیں جو کتابیں اور رپورٹیں دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ کس قدر آسان ہے ایسے ملک کو آفت میں سنبھالنا جو زرعی طور پر خود کفیل ہو۔ پورے ملک کو فوری طور پر ایسے انتظامی یونٹس میں تقسیم کر دیا جاتا جو زیادہ سے زیادہ ایک سو گھروں پر مشتمل ہوتے۔ پاکستان میں اس وقت تین کروڑ بائیس لاکھ گھرانے آباد ہیں۔ سو گھرانوں پر مشتمل یونٹس بنائے جاتے تو تین لاکھ بائیس ہزار یونٹس بنتے۔ ان میں پچاس ہزار کے قریب گائوں ہیں جو اوسطاً ایک ہزار فی گائوں کی آبادی والے ہیں یعنی اوسطاً سو گھروں پر مشتمل ایک گائوں ہوتا ہے۔ یہاں علاقائی طور پر ایک مکمل انتظامی بندوبست موجود ہوتا ہے۔ یعنی آپ کو پورے ملک میں صرف ڈھائی لاکھ ایسے یونٹس بنانے تھے۔ مثلاً کراچی میں تیرہ لاکھ گھرانے ہیں تو تیرہ ہزار یونٹس اور لاہور میں ستر لاکھ گھرانے ہیں تو سات ہزار یونٹس۔ ان سو گھرانوں میں زیادہ سے زیادہ 20گھر ایسے ہوتے جو وسائل کی کمی کا شکار ہوتے۔ اول تو ان کی یونٹس کے اندر ہی سے مخیر حضرات مدد فرما دیتے اور ضرورت پڑتی تو صوبائی اور مرکزی حکومت مدد کرتی۔ ان ڈھائی لاکھ یونٹس کیلئے مسجد اور سکول میسر تھے جنہیں مرکز بنایا جاتا۔ ملک بھر میں دس لاکھ اساتذہ ایک لاکھ لیڈی ہیلتھ ورکر اور پانچ لاکھ دیگر محکموں کے علاوہ ہر علاقے کے صاحب ثروت موجود تھے۔ ہر سو گھرانوں کا یونٹ کئی ماہ تک اپنا بندوبست خود کر سکتا تھا۔ تعیش کے مقامات تو مزید کئی ماہ نہ کھل سکیں۔ آدمی کو وبا سے لڑنے کیلئے ایک گھر میں سونے کی جگہ ‘ پانی اور کھانا چاہیے ہوتا یہ سب آسانی سے میسر ہو سکتا تھا۔ کورونا سے لڑنے کیلئے ملک کو ایک بڑی جیل میں بدلنا پڑتا ہے‘ تو وہاں صرف بنیادی ضروریات ہی مہیا کی جاتی ہیں اور وہ تو اس ملک میں وافر تھیں اور ہیں۔ لیکن جب زبان ناشکری کے کلمات ادا کرنا شروع کر دے کہ ہم بھوک سے مر جائینگے‘ تو اللہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ ان سے بے پروا ہو جاتا ہے ۔ عقل سلب کر لیتا ہے۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Kia Hum Nashukeri ki Saza k liye tyar hain By Orya Maqbool jan