کیا کہوں! – ارشاد بھٹی
کیا کہوں، مقبوضہ کشمیر کے بے بسوں کا غم ابھی تازہ، اوپر سے دلی نے دل چھلنی چھلنی کر دیا، آر ایس ایس کے جنونی ہندوؤں نے پولیس کے تعاون سے غریب، بےبس، نہتے مسلمانوں پر جیسے ظلم ڈھائے، ایسے تو جانور بھی نہ کریں، زندہ لوگوں کو دفن کرنا، ہجوم کا گھروں میں گھس کر لوگوں کو ڈنڈے، پتھر مار مار کر مار دینا۔
پہلے خواتین سے اجتماعی زیادتی پھر برہنہ گھمانا اور پھر تیل چھڑک کر آگ لگا دینا، گھروں، دکانوں، مسجدوں کو جلا دینا، ایک ہفتے کے دوران دلی میں کیا جو نہ ہوا، یہ مسلم دشمنی، مسلم نسل کشی تو ہے ہی لیکن ایک تاثر یہ بھی، دلی کو سزا دی گئی اروند کیجروال کو جتوانے، بی جے پی کو ہرانے کی، گزرے سات دنوں میں دلی کی سٹرکیں، گلیاں، محلے جے شری رام اور ’دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو ‘ کے نعروں سے گونجتے رہے اور قتل ہوتے رہے۔
مودی سرکار یوں ملی ہوئی کہ دلی ہائیکورٹ کے جسٹس مرلی دھر نے جب وڈیوز دیکھ کر بی جے پی کے مقامی غنڈے کپل مشرا سمیت 4جنونی ہندوؤں کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا تو چند گھنٹوں بعد ہی جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ دلی سے ہریانہ ہائیکورٹ کر دیا گیا۔
کیا کہوں، ابھی چند روز پہلے نریندر مودی جلسے سے خطاب کرتے لوگوں کو بتا رہا تھا ’’کانگریس کے رہنما نے مجھے گندی نالی کا کیڑا کہا ہے، ایک کانگریسی نیتا (لیڈر) نے مجھے گنگو تیلی کہا ہے، کانگریس کے سابق وزیر نے مجھے پاگل کتا کہا ہے، ایک سیاسی مخالف مجھے بندر اور ایک سیاسی مخالف مجھے وائرس کہہ چکا ہے۔‘‘
گجرات سے آسام اور مقبوضہ کشمیر سے دلی تک مودی جو کر چکا، اس کے بعد موصوف کیلئے گندی نالی کا کیڑا، گنگو تیلی، پاگل کتا، بندر، وائرس جیسے الفاظ چھوٹے پڑ جائیں، ہاں لفظ وائرس یوں استعمال ہو سکے کہ مودی وہ وائرس جو انسانیت کو لگ چکا، کرونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک وائرس، کیا کہوں، مقبوضہ وادی میں کرفیو کو سوا دو سو دن ہو چکے، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت، آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کے خاتمے کے بعد 37نئے قوانین نافذ ہو چکے۔
ہندو سرمایہ کار منصوبہ بندی کے تحت کشمیر میں زمینیں خرید رہے، مقبوضہ وادی میں بڑی خاموشی سے ہندوؤں کی آباد کاری ہو رہی، فوج اور پولیس کی وردی میں ہزاروں آر ایس ایس غنڈے مقبوضہ کشمیر پہنچ چکے، نام نہاد مہذب دنیا مفادات کی چادر تانے سو رہی، مسلم دنیا بےحسی کی بکل مارے بیٹھی ہوئی، جانے کب ہوں گے کم، اس دنیا کے غم ۔
کیا کہوں، ادھر امریکہ، طالبان امن معاہدہ ہوا، اُدھر حسبِ توقع اشرف غنی، بھارتی لابی اور سازشی سب ایکٹیو ہوئے، سب اپنی اپنی بولیاں بولنے، معاہدے کے فل اسٹاپ، کاموں سے نئے نئے مطلب نکالنے لگے، لہٰذا امن معاہدہ کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہو پائی اور صورتحال یہ، امریکہ دھمکی دے چکا، طالبان حملے شروع ہو چکے، ایران تنقید کر چکا، بھارت کیڑے نکال چکا، اشرف غنی کی بھارتی زبان دراز سے دراز ہو رہی، شاید افغانیوں کی قسمت ہی ایسی، امن نصیب میں نہیں، نسلیں اجڑ گئیں، ملک تباہ و برباد، ہزاروں معذور، ہزاروں بھکاری، ہزاروں یتیم، لاکھوں دربدر، کوئی حال نہ مستقبل، پتا نہیں اور کتنی تباہی و بربادی باقی۔
کہا کہوں، دائروں میں گھومتی ہماری سیاست، کل بیمار نواز شریف کو لندن بھجوانے کے قصے چھڑے ہوئے تھے، آج بیمار نواز شریف کو لندن سے واپس بلانے کی کہانیاں چھڑی ہوئیں، تشویشناک حد تک بیمار نواز شریف جنہیں بقول خواجہ حارث لندن نہ بھجوایا گیا تو سڈن ڈیتھ ہو سکتی ہے، اسی نواز شریف کو لندن پہنچے 17ہفتے ہو گئے، ابھی تک صرف ٹیسٹ، معائنے، ایک دن اسپتال میں داخلہ نہیں، کوئی باقاعدہ علاج نہیں، وہ نواز شریف جنہیں 7اسٹنٹ پڑ چکے، جن کی دوہارٹ سرجریاں ہو چکیں، جنہیں 12بیماریاں لگی ہوئیں اور جو روزانہ 17دوائیاں کھارہے ہیں۔
وہ نواز شریف لندن جاکر بھی اپنے گھر میں رہ رہے، اللّٰہ نواز شریف کو صحت عطاکرے، زندگی، موت اللّٰہ کے ہاتھ میں مگر کبھی سنا نہ دیکھا کہ ایک ایسا مریض جو ڈیتھ بیڈ پر ہو، جس کی سڈن ڈیتھ کی باتیں ہو رہی ہوں، جو انتہائی ایمرجنسی میں علاج کیلئے لندن پہنچا ہوا، 17ہفتے گزر جائیں اوروہ ایک دن بھی اسپتال میں رہے نہ اس کا علاج شروع ہو، کیا کہوں، اتنا جھوٹ، اتنی منافقت، اتنی دو نمبری، خدا کی پناہ۔
کیا کہوں، ایک طرف مریض کا یہ حال، دوسری طرف تبدیلی سرکار خط لکھ چکی حکومتِ برطانیہ کو، مجرم نواز شریف کو واپس بھجوایا جائے، یوں ظاہر کیا جا رہا جیسے خود ملکہ برطانیہ اس خط کے انتظار میں، اِدھر ان کا خط بکنگھم پیلس پہنچے گا، اُدھر ملکہ برطانیہ خود یہ خط لے کر وزیراعظم بورس جانسن کے پاس جائیں گی اور پھر ملکہ اور بورس جانسن مل کر نواز شریف کو اگلی فلائٹ پر بٹھا کر پاکستان بھجوا دیں گے۔
بندہ پوچھے، تمہارے خطوں پر کوئی واپس آسکتا تو اب تک اسحٰق ڈار، حسن، حسین، سلمان شہباز اور علی عمران پاکستان میں ہوتے مگر کیا کریں، جھوٹ بمقابلہ جھوٹ، منافقت بمقابلہ منافقت، دو نمبری بمقابلہ دو نمبری، سنتے جاؤ، سر دھنتے جاؤ۔
کیا کہوں، جب سے بلاول بھٹو کے پنجاب پھیرے شروع ہوئے، قوم ایسے ایسے بیانات سے مستفید ہو رہی کہ ’روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی، اس بار لاہور آئے، فرمایا، نواز شریف علاج یا کرپشن کی وجہ سے نہیں، عمران خان کے سیاسی انتقام کی وجہ سے لندن میں، یہ ایسا قولِ زریں کہ نواز شریف بھی سن لیں، ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جائیں، کیا دور کی کوڑی، یہی بلاول بھٹو تھے جو کبھی کہا کرتے، پاناما لیکس نے مسلم لیگ کو لیک کر دیا۔
پانامہ جے آئی ٹی نے شریفوں کی 3نسلوں کو ایکسپوز کر دیا، نواز شریف کرپشن کا سردار، نواز شریف کو فراڈ پر نکالا گیا، آج فرما رہے، نواز شریف، آصف زرداری پر مقدمات کرپشن کی وجہ سے نہیں،سیاسی انتقام کی وجہ سے بنے، کیا کہوں، شاید ہمارے نصیب ہی ایسے،ہمیں ہی ملنے تھے یہ نمونے، دماغ نہ ضمیر، زبانیں ہی زبانیں، جس کا جو جی چاہے کہہ دے، تالیاں بجانے، دفاع کرنے والے غلام موجود، سورج مشرق سے نکلتا ہے، واہ واہ، سورج مغرب سے نکلتا ہے واہ واہ، سورج نکلتا ہی نہیں، واہ واہ، سورج تو غروب ہی نہیں ہوتا واہ واہ، پلے نئیں دھیلا، کر دی میلا میلا۔
کیا کہوں، جنہیں ڈھنگ سے بات کرنا نہ آئے، قوم ان کی شعلہ بیانیوں پر واری واری جارہی، کیا کہوں، جنہیں اپنی کہی باتیں یاد نہ رہیں، قوم ان کے حوالے اپنی نسلیں کررہی۔
Source: Jung News
Read Urdu column Kia Kahun By Irshad Bhatti