کنگ کینسر – جاوید چوہدری
باباجی اچانک ٹھیک ہو گئے اور میرا دوست اس معجزے پر حیران ہو گیا جب کہ ہم سب بھی سرپرائز میں چلے گئے‘ آپ خود سوچیے‘ آپ کے والد اسی سال کے بزرگ ہوں‘ یہ دس سال سے صاحب فراش ہوں‘ آپ انھیں کبھی ایک ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ہوں اور کبھی دوسرے ڈاکٹر کے کلینک پر‘ آپ انھیں ہر مہینے دو تین دن کسی پرائیویٹ اسپتال میں رکھتے ہوں۔
آپ نے گھر پر نرس اور ڈاکٹر رکھا ہو اور یہ دونوں روزانہ آپ کے والد کا چیک اپ کرتے ہوں‘ آپ بیرون ملک سے ان کے لیے ادویات منگواتے ہوں‘ آپ اپنے والد سے بے انتہا محبت کرتے ہوں اور آپ انھیں کبھی تنہا نہ چھوڑتے ہوں مگر آپ کے والد صحت یاب نہ ہوں‘ یہ جسم کے ایک حصے میں درد کی شکایت کرتے ہوں اور کبھی دوسرے حصے میں اور آپ ان کی وجہ سے ہمیشہ پریشان رہتے ہوں لیکن پھر ایک دن وہ اچانک ٹھیک ہو جاتے ہوں‘ وہ اٹھ کر چلنا بھی شروع کر دیتے ہوں‘ کھانا پینا بھی‘ ہنسنا بھی اور پڑھنا لکھنا بھی تو کیا آپ حیران نہیں ہوں گے اور اس سارے کارنامے کا سہرا آپ کے ایک عام جاننے والے کے سر پر بندھتا ہو تو آپ کی حیرت یقینا سرپرائز میں تبدیل ہو جائے گی اور میرا دوست اور ہم سب دوست اس معجزے پرسرپرائزڈ تھے۔
یہ معجزہ ہوا کیسے؟ آپ اس سے قبل وہ واقعہ سنیے جس کے بطن سے اس معجزے نے جنم لیا‘ میرا دوست والد کو لے کر ڈاکٹر کے کلینک پر جا رہا تھا‘ راستے میں اسے اچانک باس کا فون آگیا‘ باس نے اسے ایمرجنسی میں آفس طلب کر لیا‘ یہ مجبوری واقعی مجبوری تھی اور میرے دوست نے ہر صورت بینک بند ہونے سے قبل آفس پہنچنا تھا‘ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ والد کو کہاں چھوڑ کر جائے‘ کلینک اور گھر دونوں دور تھے جب کہ آفس اس جگہ سے نزدیک تھا‘ وہ چند لمحوں کے لیے سڑک پر رک گیا‘ اس نے سڑک کے دائیں بائیں پلازوں کی طرف دیکھا‘ اسے اچانک یاد آیا یہاں اس کے ایک جاننے والے کا دفتر ہے‘ اس نے فون پر اس سے رابطہ کیا‘ اس کا جاننے والا اس وقت دفتر میں موجود تھا‘ اس نے اسے اپنی مجبوری بتائی‘ والد کو گاڑی سے اتارا‘ جاننے والے کے دفتر میں بٹھایا اور اس سے درخواست کی آپ ایک گھنٹے کے لیے میرے والد کو اپنے پاس بٹھا لیں‘ میں آفس سے واپس آتا ہوں۔
اس کے جاننے والے نے کرسی کھینچی اور اس کے والد کے پاس بیٹھ گیا‘ میرا دوست اپنے دفتر چلا گیا‘ وہ گھنٹے کے بجائے ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس آیا تو اس نے ایک عجیب منظر دیکھا‘ اس کے والد کمرے میں ٹہل رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے جب کہ اس کا جاننے والا کرسی پر آرام سے بیٹھ کر باباجی کو دیکھ رہا تھا‘ دوست اس کایا کلپ پر حیران ہو گیا‘ اس نے جاننے والے کا شکریہ ادا کیا‘ والد کو ساتھ لیا اور کلینک چلا گیا‘ اس کے والد نے اسے راستے میں بتایا ’’ تمہارا یہ دوست بہت اچھا ہے‘ میں کل اس سے دوبارہ ملنے آئوں گا‘‘ دوست نے یہ بات سنی ان سنی کر دی‘ اس نے ڈاکٹر سے معائنہ کروایا اور والد کو گھر لے گیا‘ والد کی وہ رات نسبتاً اچھی گزری‘ میرا دوست اگلے دن دفتر چلا گیا‘ وہ شام کو واپس آیا تو اس کی بیوی نے بتایا‘ ابا جی دوپہر کے وقت آپ کے اس دوست کے پاس چلے گئے تھے جن کے پاس آپ انھیں کل چھوڑ کر گئے تھے‘ دوست حیران ہوا مگر خاموش رہا۔
اگلے دن بابا جی دوبارہ وہاں چلے گئے اور یوں یہ معمول بن گیا‘ باباجی وہاں جاتے‘ دو‘ تین گھنٹے وہاں گزارتے اور واپس آ جاتے‘ میرے دوست نے والد کے مزاج میں اس دوران بڑی تبدیلی دیکھی‘ اس کے والد خوش باش رہنے لگے‘ ان کی ادویات بھی چھوٹنے لگیں اور ڈاکٹروں کے پھیرے بھی کم ہو گئے‘ میرا دوست اس معجزے پر حیران تھا‘ وہ ایک دن شکریہ ادا کرنے کے لیے اپنے جاننے والے کے پاس چلا گیا‘ اس نے دوست کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد پوچھا ’’تم نے میرے والد پر کیا جادو کیا‘ یہ ہر وقت تمہاری تعریف کرتے رہتے ہیں‘ یہ خوش بھی بہت ہیں اور یہ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں‘ تمہارے پاس کیا جادو ہے؟‘‘
میرے دوست کے دوست نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور جواب دیا ’’جادو‘ کیا مطلب‘ تمہارے والد جب بھی میرے پاس آتے ہیں‘ میں تو ان کے سامنے ایک لفظ نہیں بولتا‘‘ میرا دوست مزید حیران ہو گیا‘ اس نے پوچھا ’’ کیا تم واقعی کوئی لفظ نہیں بولتے‘‘ اس نے جواب دیا ’’ ہاں میں دو دو‘ تین تین گھنٹے خاموش بیٹھا رہتا ہوں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’ پھر میرے والد تمہاری اتنی تعریف کیوں کرتے ہیں؟‘‘ میرے دوست کے دوست نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ تمہارے والد کو باتیں کرنے والا نہیں‘ باتیں سننے والا شخص چاہیے اور میں پوری توجہ سے دو دو گھنٹے ان کی باتیں سنتا ہوں اور یہ توجہ میرا جادو ہے‘‘ میرا دوست حیرت کی انتہا کو چھونے لگا‘ اس نے دوست سے کہا ’’لیکن میں تو اپنے والد کو بہت وقت دیتا ہوں‘‘۔
دوست کے دوست نے جواب دیا ’’ آپ یقینا وقت دیتے ہوں گے مگر آپ ان کی بات نہیں سنتے‘ آپ انھیں بتانے اور سمجھانے میں لگ جاتے ہو اور بزرگوں کو سمجھانے اور بتانے والے لوگ نہیں چاہیے ہوتے ‘ انھیں صرف اور صرف توجہ سے سننے و الے چاہئیں‘ آپ کسی بزرگ کی بات توجہ سے سننا شروع کر دیں‘ وہ چند لمحوں میں آپ کا دوست بن جائے گا اور آپ کسی بزرگ کو سمجھانا شروع کر دو‘ وہ چند لمحوں میں آپ سے اکتا جائے گا‘‘ میرا دوست اپنے دوست سے جادو کا یہ فارمولا لے کر میرے پاس آیا‘ ہم نے یہ نسخہ مختلف دوستوں کے ساتھ شیئر کیا‘ ہم سب نے تجربہ کیا اور ننانوے فیصد وہ نتائج حاصل ہوئے جن کا دعویٰ اس فلسفے کے بانی نے کیا تھا‘ ہم حیران رہ گئے۔
آپ نے کبھی سوچا ہم اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ کیوں مانتے ہیں؟ اس کی ہزاروں لاکھوں وجوہات ہو سکتی ہیں اور ان ہزاروں لاکھوں وجوہات میں سے ایک وجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں برداشت کرنا‘ ہمیں سننا بھی ہے‘ اللہ ہماری زندگی کی واحد قوت ہے جو ہماری بات غور اور توجہ سے سنتی ہے اور یہ اس کے جواب میں ہمیں کوئی نصیحت نہیں کرتی‘ اللہ تعالیٰ ہمیں روزانہ کی بنیاد پر برا بھلا بھی نہیں کہتا اور یہ ہمیں بار بار سمجھانے کی کوشش بھی نہیں کرتا‘ ہم میں سے کون ہے جو اللہ کے سامنے بہت معمولی باتوں پر گڑگڑاتا نہیں‘ جو اللہ تعالیٰ کے سامنے ناانصافی‘ زیادتی‘ بے روزگاری‘ بیماری اور سماجی مسائل کا رونا نہیں روتا اور اللہ تعالیٰ جواب میں اس کو خط لکھتا ہو‘ اس سے گفتگو کرتا ہو یا پھر ٹیلی فون‘ فیکس یا ای میل کے ذریعے اس کے اعتراضات کے جواب دیتا ہو۔
اللہ تعالیٰ یا قدرت ہم سب کے اعتراضات‘ دعائوں اور دلائل کے جواب میں مکمل خاموشی اختیار کرتی ہے اور یہ خاموشی وہ مقناطیسی کشش ہے جو ہمارے دلوں کو قدرت یا اللہ تعالیٰ سے جوڑے رکھتی ہے‘ ہم جب بھی اللہ تعالیٰ سے رابطہ کرتے ہیں‘ ہمیں پورا یقین ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہماری پکار‘ ہماری بات پوری توجہ سے سن رہا ہے اور یہ یقین ہم میں حوصلہ بھی پیدا کرتا ہے اور ہمت بھی‘ اللہ تعالیٰ کی یہ خاموشی اور اللہ تعالیٰ کی یہ توجہ خدا کے خدا ہونے کی دلیل ہے‘ توجہ اور خاموشی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور ہم میں سے جو شخص اس سنت پر عمل کرتا ہے اس کی ذات میں مقناطیسیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ مقناطیسیت جادو کی طرح دوسروں پر اثر کرتی ہے۔
ہم سب پوری زندگی دوسروں کی سنتے رہتے ہیں‘ والدین سے لے کر استاد تک اور محلے والوں سے لے کر مولوی صاحب تک اور ہمسائے سے لے کر ڈاکٹرصاحب تک دنیا کے تمام لوگ ہمیں کچھ نہ کچھ بتاتے رہتے ہیں‘ ہمیں کچھ نہ کچھ سمجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘ ہم یہ سب کچھ سن کر تنگ آ جاتے ہیں اور پھر ہمارے دل میں ایک خوفناک خواہش سر اٹھاتی ہے‘ کاش کوئی ہماری بات بھی سن لے‘ کاش کوئی ہم پر بھی توجہ دے دے‘ ہم لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ ہمارے ساتھ بحث شروع کر دیتے ہیں‘ یہ ہمارے سامنے آرگومنٹس کے انبار لگا دیتے ہیں اور یوں ہماری بات کرنے کی خواہش‘ خواہش ہی رہ جاتی ہے اور ادھوری خواہشیں کینسر ہوتی ہیں۔
خواہشوں کا صرف ایک ہی حل ہے‘ آپ انھیں پورا کریں یا پھر مار دیں‘ آپ انھیں ادھورا نہ رہنے دیں کیونکہ ادھوری خواہشیں چند ماہ میں بیماری بن جائیں گی اور ہمارے تمام بزرگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں‘ ان کے اندر توجہ کے حصول کی شاہی خواہش موجود ہوتی ہے‘ ایک کنگ کینسر جو ہمارے بزرگوں کو زندہ رہنے دیتا ہے اور نہ ہی آرام سے مرنے دیتا ہے‘ یہ جی جی کر مرتے ہیں اور مر مر کر جیتے ہیں اور میرے دوست کا دوست اس عارضے کو سمجھ گیا تھا‘ اس نے توجہ اور خاموشی کو اپنا ہنر بنا لیا۔
Source: Express News
Must Read Urdu column King Cancer By Javed Chaudhry