کتابوں کی دنیا – حسن نثار
ہنستی مسکراتی، چہکتی مہکتی کتابوں کے علاوہ زندگی ہے کیا؟ آسمانی الہامی کتابیں بھی تو کتابیں ہی ہیں ناں اور اس دنیا کی سب ناقابل فراموش کتابیں بھی دراصل انہی الہامی کتابوں کی اپسرائوں سے زیادہ خوبصورت و خوب سیرت کنیزیں ہیں۔ بچپن، لڑکپن، جوانی سرعام دغا دے جاتی ہے۔ ماں باپ اپنی چھائوں اور دعائوں سمیت رخصت ہو جاتے ہیں۔ بچے تعلیم، کیریئر اور تتلیوں کی تلاش اور تعاقب میں محو ہو جاتے ہیں۔ پیارے دوست بکھر جاتے ہیں یا بچھڑ جاتے ہیں…. آخر پہ صرف کتابیں ہی رہ جاتی ہیں۔
سچ کہتا ہے صوفی شاعر:
سدا ناں باغیں بلبل بولے سدا ناں موج بہاراں
سدا ناں ماپے، حُسن جوانی سداناں صحبت یاراں
صرف یادیں اور کتابیں ہی رہ جاتی ہیں۔ کتاب سب سے وفادار، باوقار اور باحیا ساتھی ہے جو موت کے بعد بھی ساتھ دیتی ہے کیونکہ اسی نے آدمی کو انسان بنایا اور جینا سکھایا ہوتا ہے۔ بڑوں کی مہربانی اور خوش بختی تھی کہ زندگی زیادہ تر کتابوں کے درمیان، رومان میں ہی گزری اور گزر رہی ہے۔
میں خود تو گھر سے نکلتا نہیں، اللہ پاک صحت زندگی عطا فرمائے سلیم شہاب جیسے نوجوان دوستوں کو جو میرے لئے کتابیں ’’شکار‘‘ کرتے ہیں۔ دکانیں کھنگالتے ہیں، فون پر بریف کرتے ہیں اور پسندیدہ کتابیں خرید لاتے ہیں۔ دوسرا ذریعہ بیرون ملک میری بہنیں، بچوں کے ماموں اور خالائیں ہیں جو باہر سے خوب صورت کتابیں لے آتے ہیں۔ تیسرا ذریعہ مہربان دوست، احباب، اجنبی یا مصنفین جو مجھے کتابوں جیسے تحفے کے قابل سمجھ کر عزت افزائی کرتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب فکشن، شاعری کی دیوانگی عروج پر تھی جو بتدریج گھٹتی چلی گئی۔ موضوعات کے حوالہ سے ترجیحات تبدیل ہوتی چلی گئیں اور آج میرے اردگرد ایسی کتابیں ہوتی ہیں جنہیں پڑھنے کے لئےمانگنے کی زحمت بھی کوئی نہیں کرتا کہ یہ بہت ’’خشک‘‘ سمجھی جاتی ہیں۔
گزشتہ ڈیڑھ دو ہفتوں میں جو کتابیں تحفے میں ملی ان میں سرفہرست ہیں ’’داستانِ عزم‘‘ اور ’’نوادرات‘‘ جن کے لئے میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کا ممنون ہوں۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کی وجہ سے ہم سب جان چکے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر قابل فخر سائنسدان ہی نہیں باکمال لکھاری بھی ہیں۔ ’’نوادرات‘‘تو ڈاکٹر صاحب کا وہ انتخاب ہے جس کا تعلق ممتاز ترین شعراء کے کلام سے ہے۔ ریاض خیر آبادی اور ولی دکنی سے شروع ہو کر میر تقی میر، غالب، مومن، داغ، اقبال، ساحر، شکیل بدایونی، اختر شیرانی، مجاز، جگر، جوش، آرزو، عدم، ابن انشا، احمد فراز، پروین شاکر، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی اور منیر نیازی سے لے کر جاں نثار اختر اور صوفی تبسم تک جاپہنچتا ہے۔
میں نے ان سب کو پڑھا ہوا تھا لیکن اس ’’انتخاب‘‘ کی لاجواب بات یہ ہے کہ اسے پڑھ کے یہ معلوم ہوا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں کلیدی ترین کردار ادا کرنے والی شخصیت شعر نواز ہی نہیں، اعلیٰ ترین شعری ذوق بھی رکھتی ہے یعنی ایک عالی دماغ کا اعلیٰ شعری انتخاب۔ ڈاکٹر قدیر کی دوسری کتاب ’’داستانِ عزم‘‘ پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کی انتہائی انسپائرنگ داستان ہے جسے ایک کالم میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
تین کتابیں کرنل (ر) جاوید مرزا کا تحفہ ہیں جو بطور کائرو پریکٹر (CHIROPRACTOR) ریفلیکسو لوجسٹ (REFLEXOLOGIST)، ایکسپرٹ آکوپریشر، ہر بل ایکسپرٹ برسوں سے پریکٹس نہیں ’’معجزے‘‘ کر رہے ہیں۔ ایک کتاب جنرل ہیلتھ گائیڈ، دوسری خوبصورتی اور بڑھاپے جبکہ تیسری حیرت انگیز کتاب کا عنوان ہے”REIKI & JAVEDAAN” جو واقعی ایک خاص قسم کے علاج کو خود آپ کی فنگر ٹپس پر لے آتی اور آپ کو ’’خودکفیل‘‘ کرسکتی ہے۔ میں ان معالات میں جاہل مطلق تھا لیکن اب کچھ بنیادی ہیلتھ پرابلمز کو کچھ کچھ سمجھنے کے قابل ہوگیا ہوں۔
اس کے بعد ہیں ڈاکٹر سعد خان کی دو کتابیں جو قائد اعظمؒ پر اپنی نوعیت کی انوکھی کتابیں ہیں۔ ایک کا عنوان ہے ’’قائد اعظمؒ کی نجی زندگی، مسلک، شادی، اولاد‘‘ اور دوسری کا عنوان ہے ’’محمد علی جناحؒ دولت جائیداد وصیت‘‘۔ پہلی پر تو محبی و محترمی مجیب الرحمٰن شامی تفصیل لکھ چکے اور میں اتنا بے وقوف یقیناً نہیں کہ سورج کے سامنے سگریٹ لائٹر جلا کر بیٹھ جائوں۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔
رہ گئی دوسری کتاب ’’محمد علی جناحؒ دولت جائیداد و وصیت‘‘ جسے پڑھ کر قبضہ گروپ، کک بیک کمیشن خور سیاستدانوں سے میری نفرت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ اپنے آپ پر بھی شرم آئی کہ ہم کس جگاڑ کو جمہوریت اور کن ٹھگوں کو سیاستدان سمجھ کر ان کے ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔ ہم جو آسمان سے شروع ہوئے، آج پاتال کو بھی کھود کر کہیں اور جا رہے ہیں۔ بلندی سے پستی تک کا یہ سفر خون کے آنسو رلاتا ہے اور اس وقت سے خوف آتا ہے جب نہ خون رہے گا نہ آنسو۔ میں سستی اور مصروفیت کے باعث اس کا فلیپ نہ لکھ سکا جس کے لئے ڈاکٹر سعد سے لکھ کر معذرت کر رہا ہوں۔
آخری کتاب ڈاکٹر حسین پراچہ نے اپنے والد حضرت مولانا گلزار احمد مظاہری، ان کی زندگی اور قید و بند پر لکھی، ابھی مکمل نہیں کرسکا لیکن سوچ رہا ہوں کہ ایسی دیانت اور استقامت والے لوگ ہم سے روٹھ کیوں گئے۔ یہ کتاب پوری پڑھ لوں تو شیئر کروں گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Kitabon ki Dunya By Hassan Nisar