کوئی قانون کو ہاتھ میں نہ لے – انصار عباسی
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وزیر مذہبی امور صاحبزادہ نور الحق قادری اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے عورت مارچ سے متعلق ملنے والی شکایات اور سوشل میڈیا میں شیئر کیے جانے والے متنازعہ مواد کے متعلق انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ ایک طرف تو اس انکوائری کا مقصد عورت مارچ کے دوران اُن بینرز، پلے کارڈز، نعروں وغیرہ کا جائزہ لینا ہے جو مبینہ طور پر ہماری دینی، آئینی اور قانونی حدود و قیود کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہوں گے تو دوسری طرف یہ انکوائری اُن افراد کو بھی بےنقاب کرے گی جنہوں نے جان بوجھ کر عورت مارچ میں لگائے جانے والے نعروں کی ایک وڈیو کو تبدیل کر کے سوشل میڈیا کے ذریعے شیئر کیا جس کا مقصد لوگوں کے مذہبی جذبات کو اُبھارنا تھا۔ حکومت کی طرف سے اس معاملے کی انکوائری کروانے کا فیصلہ خوش آئند ہے تاکہ سچ تک پہنچا جائے اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ عورت مارچ کے دوسرے ہی دن وزیراعظم عمران خان کے مشیر مولانا طاہر اشرفی نے اس کے خلاف ایک پریس کانفرنس کی۔ بعد ازاں پاکستان علماء کونسل کی اپیل پر گزشتہ جمعہ کے روز ملک بھر کے علماء و مشائخ نے عورت مارچ سے متعلقہ متنازع معاملات پر احتجاج بھی کیا۔ دوسری طرف عورت مارچ والوں کی طرف سے کہا گیا کہ اُن کی ایک وڈیو کو بدلا گیا، ایک بینر کی عبارت کو اُس طرح پڑھا اور سمجھا گیا جو اُن کا مقصد نہ تھا جس کی وجہ سے اُن پر سنگین الزامات لگائے گئے اور یوں اُن کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔
گزشتہ تین چار سال سے خواتین کے حقوق اور آزادی کے نام پر عورت مارچ کے نام پر جو ہوتا رہا میں اُس کا سخت ناقد ہوں۔ گزشتہ جمعرات کو شائع ہونے والا میرا کالم بھی میرے انہی خیالات کا مظہر تھا جس میں میں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ ہماری دینی اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہونے کے باوجود ریاست اس عورت مارچ کو کیوں نہیں روکتی؟ ہر سال اس مارچ کی وجہ سے ایک تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ میرے انہی خیالات کی وجہ سے عورت مارچ کے منتظمین میرے خلاف ہیں اور اس بار نہ صرف میرے خلاف نعرے لگائے بلکہ مجھ پر اُنہوں نے عورت مارچ میں لگائے جانے والے نعروں کی تبدیل شدہ وڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا جھوٹا الزام بھی لگایا۔ میں نے ٹویٹر پر جو لکھا وہ میرا ایک محتاط ردِعمل تھا، میں نے نہ کوئی وڈیو شیئر کی نہ کوئی دوسرا متنازعہ بینر وغیرہ، جو سوشل میڈیا پر پہلے ہی وائرل ہو چکا تھا۔ اس تفصیل میں جائے بغیر کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مواد کی کیا نوعیت ہے، میں نے حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تاکہ سچائی تک پہنچ کر جو ذمہ دار ہیں اُنہیں سزا دی جائے۔ میری ذاتی رائے میں جو کچھ عورت مارچ کے نام پر ہوتا رہا، اُس بنا پر پاکستان میں اس مارچ پر پابندی لگنی چاہئے۔ پابندی لگانا، کسی قانون کی خلاف ورزی پر عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف قانونی کارروائی کرنا یہ سب ریاست کا کام ہے اور اس کے لئے کسی فرد کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں۔ البتہ کسی کو بھی شکایت کرنے کا حق حاصل ہے لیکن شکایت پر تحقیقات کرنا اور عملی کارروائی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان کے تناظر میں یہ بات درست ہے کہ کسی سنگین الزام خصوصاً اگر اُس کا تعلق مذہب سے ہو تو خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی فرد اُٹھ کر قانون اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔ دوسری طرف ایسا بھی ممکن نہیں کہ کسی کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے خطرہ کی بنا پر مذہب مخالف کسی عمل پر بات ہی نہ کی جائے اور نہ ہی شکایت کی جائے۔ ان معاملات میں ریاست اگر اپنا کردار وقت پر ادا کرے تو کسی فرد کی طرف سے قانون کو ہاتھ میں لینے اور پرتشدد ردِ عمل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت نے عورت مارچ سے جڑے معاملات پر فوری انکوائری کا حکم دے کر ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کو عورت مارچ کے خلاف شکایتوں کو آئین و قانون کی نظر میں جانچنے کا موقع ملے گا اور ذمہ داروں کا تعین ہوگا تو دوسری طرف جنہوں نے عورت مارچ کے نعروں کی وڈیو کو بدلا، وہ بھی قابلِ گرفت ہوں گے۔ اس لئے حکومت کی اس انکوائری کا سب کو خیرمقدم کرنا چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Koi Qanon ko Hath mian na lay By Ansar Abbasi