کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے – اوریا مقبول جان
پہلی افغان جنگ کی ذلت آمیز شکست اور 13جنوری 1842ء کو کابل میں بیس ہزار برطانوی ہند فوج کے سورمائوںکے قتلِ عام کے بعد تلملاتا ہوا ’’گورا‘‘ صبر سے نہیں بیٹھا اور 1878ء میں اس نے ایک اور جنگ چھیڑ دی جو دو سال تک جاری رہی۔ اس جنگ کے آخر میں گندمک کے مقام پر افغانستان کے امیر یعقوب خان اور برطانوی افواج کے سربراہ سرلوئی کیوگناری کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت کوئٹہ، پشین، ہرنائی، سبی، کرّم اور خیبر کے علاقے برطانوی تسلط میں آگئے اور برطانیہ نے افغانستان کو ایک خود مختار سلطنت کے طور پر تسلیم کرلیا۔ اس جنگ کی اصل وجہ یہ تھی کہ امیریعقوب خان کا والد شیر علی خان، برطانیہ اور روس کی جنگ میں غیر جانبداری کی پالیسی پر عمل پیرا تھا کہ ’’گورے‘‘ نے شاطرانہ طریقے سے کابل پر حملہ کر دیا۔ شیر علی روس میں پناہ لینے کے لئیے بھاگ نکلا، لیکن مزار شریف کے مقام پر فوت ہوگیا۔ اس کا بیٹا یعقوب خان افغان تخت پر بیٹھا تو اس نے انگریز فوج سے معاہدہ کر لیا جس کے نتیجے میں برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن وجود میں آئی۔
اس معاہدے کی ایک شق ایسی تھی جس سے افغان رہنما ناراض تھے۔ اس شق کے مطابق آئندہ سے افغانستان کی خارجہ پالیسی برطانیہ نے طے کرنا تھی۔ افغان فوج کے کچھ نوجوان اس معاہدے سے اسقدر ناراض ہوئے کہ صرف دو مہینے کے اندر انہوں نے کیوگناری کے برطانوی فوجی مشن کے تمام ارکان کو قتل کر دیا۔ انگریز نے خفت مٹانے کے لئے اپنی سازشوں اور ایجنٹوں کے ذریعے امیر یعقوب خان کے چچازاد امیر عبدالرحمٰن کو تخت پر بٹھایا اور اس نے اس معاہدے کی تمام شقوں پر عملدرآمد کو تسلیم کرلیا۔ اس معاہدے کے تحت جنم لینے والے بارڈر کو ڈیورنڈ لائن کہتے ہیںجسے بعد میں تیسری افغان جنگ کے بعد 8اگست1919ء کو امیرِ افغانستان نے برطانیہ کے ساتھ معاہدے کے تحت ایک عالمی سرحد کے طور پر تسلیم کر لیا۔ برطانوی ہندوستان اور افغانستان کے درمیان یہ سرحد دومقامات پر تاریخی راستوں کی وجہ سے بہت اہم تھی، ایک تورخم اور دوسرا چمن۔ اسی لئے ان دونوں علاقوں کے پاس کوئٹہ اور پشاور کے بڑے بڑے کنٹونمنٹ آباد کئے گئے اور دونوں علاقوں تک دشوارگزار راستوں اور قلیل آبادی کے باوجود ریلوے لائن بچھائی گئی۔ چمن کا شہر اورخوجک کا پہاڑ اس سلسلے میں بہت اہم تھا۔ یہ پہاڑ تقریباً ساڑھے سات ہزار فٹ بلند ہے اور افغانستان اور برطانوی ہندوستان کے درمیان ایک قدرتی سرحد کا کام دیتا تھا۔ اس کی چوٹیوں پر انگریز نے پختہ مورچے قائم کئے، لیکن افغانستان کے عوام کو اپنے انتظام و انصرام سے متاثر کرنے اور ان سے براہِ راست رابطے کے لئے چمن شہر کو بھی معاہدے کے تحت اپنے پاس رکھا اور اسے آباد کیا۔ چمن تک آمدورفت کے لئے 1891ء میں ہندوستان ریلوے کی سب سے لمبی، 3.9کلومیٹر طویل خوجک سرنگ تعمیر کی گئی جو شیلاباغ سے چمن تک آج بھی موجود ہے۔
چند ہزار کی آبادی والے شہر تک پہنچنے کے لئے اتنی بڑی ’’انوسٹمنٹ‘‘ صرف اور صرف پڑوسی افغان آبادی پر اپنی ٹیکنالوجی اور برتری کی دھاک بٹھانے کے لئے تھی، ورنہ ہندوستان کا دفاع تو خوجک پہاڑ سے بھی کیا جا سکتا تھا۔ اصل وجہ یہ تھی کہ چمن سے دوبندی کے میدانوں تک کے علاقے میں افغانستان سے لوگ سردیوں کے چھ ماہ گزارنے آتے، پھلوں کے باغات میں کام کرتے اور پھر گرمیوں کے چھ ماہ واپس قندھار اور ملحقہ علاقوں میں گزارتے۔ برطانوی حکومت ان خانہ بدوشوں کو اپنا سفیر سمجھتی تھی جو واپس جا کر بتاتے کہ چمن کے علاقے میں کسقدر امن، انصاف اور ترقی ہے اور انگریز حکمران انتہائی قابل ہیں۔ جب میں اسسٹنٹ کمشنر چمن تعینات ہوا، تو پرانی دستاویزات اور ڈائریوں کے مطالعہ سے ایک ایسا واقعہ نظر سے گزرا جس نے انتظامی مہارت کی کئی جہتیں مجھ پر کھولیں۔ چمن کے پہلے اسسٹنٹ کمشنر آغا سرور شاہ 1901ء میں وہاں تعینات ہوئے۔ یہ بلوچستان کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آغا سرورشاہ کے دور میں چمن کے عوام میں یہ خبر عام ہوگئی کہ اسسٹنٹ کمشنر نے اپنے ریڈر کو ایک مقدمے کا جو فیصلہ لکھوایا تھا، ریڈر نے صرف آٹھ آنے لیکر اگلے دن سنائے جانے والا فیصلہ ایک فریق کو پہلے ہی سے بتا دیا ہے۔ صبح تک پورے چمن شہر کو یہ علم ہو چکا تھا کہ کیا فیصلہ سنایا جانے والا ہے۔ یہ ایک ایسی بات تھی جو انتظامیہ کے لئے ندامت اور پریشانی کا باعث تھی۔ خبر پورے شہر میں عام ہو چکی تھی، مگر اس کا کوئی گواہ میسر نہ تھا کہ ریڈر کو سزادی جاتی۔ آغا سرور شاہ نے پورا معاملہ لکھ کر بذریعہ خصوصی پیغام رساں کوئٹہ میں موجود انگریز چیف کمشنر کو بھجوادیا۔ چند دنوں کے اندر چیف کمشنر نے چمن کا دورہ رکھا اور وہاں پر ایک عام دربار سے خطاب کرنے کے لئے اسسٹنٹ کمشنر کو لوگوں کو جمع کرنے کے لئے کہا۔ دربارِ عام یا کھلی کچہری میں چیف کمشنر نے خطاب کیا اور سب کے سامنے اس ریڈر کو سٹیج پر بلایا، اس کی تعریف میں کچھ کلمات کہے اور اپنی جیب سے کچھ سونے کے سکے نکال کر اسے انعام کے طور پرعطا کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اہل کاروں کی خدمات سے ہی تاجِ برطانیہ کی عزت ہے، اس لئے میں اس کی کوئٹہ تعیناتی کا حکم دیتا ہوں۔
اس پوری روئیداد کو لکھنے کے بعد آغا سرور شاہ نے ایک نوٹ تحریر کیا تھا، جس میں انہوں نے لکھا کہ ’’انگریز چیف کمشنر نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ، چمن کے سرحدی شہر کی تمام باتیں افغانستان کے عوام تک براہِ راست پہنچتی ہیں۔ اگر اس بددیانت ریڈر کی بات افغانستان کے عوا م تک پہنچ گئی، تو وہاں اس خبر سے ایسی لاتعداد کہانیاں جنم لیں گی اور لوگ سمجھنے لگیں گے کہ برطانوی ہند میں انصاف نام کو نہیں ہے اور وہاں رشوت کا بازار گرم ہے۔دیکھو دشمن کے مقابلے میں تمہارا مجموعی تصور بہت اہم ہے۔ اگر تم نے دشمن کی زبان کو اپنی کمزوریاں دے دیں تو وہ تمہاری ساری دھاک ، رعب اور دبدبے کو زمین بوس کر دے گا۔ اس لیئے یہ ضروری تھا کہ تاجِ برطانیہ کے وسیع تر مفاد کے لیئے اس اہل کار کے جرم پر پردہ ڈالا جائے‘‘۔ آج تقریباً ایک سو انیس سال کے بعد جب پاکستان کی پارلیمنٹ میں وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے پاکستانی پائلٹس کی ڈگریوں کے معاملے کو جس طرح نمک مرچ لگا کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا تو مجھے وہ چیف کمشنر بہت یاد آیا۔
وہی ہوا جو ایسی ناسمجھی کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں پہلے یورپی یونین اور پھر امریکہ نے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگائی اور آخر میں ایتھوپیا جیسے ملک نے بھی ہماری دیانت پر سوال اٹھا دئیے۔ سیانے کہتے ہیںکہ ایسے نادان دوست کسی لڑکی کے لئے آئے رشتے کو یہ کہہ کر بھگا دیتے ہیں کہ، ’’ اب تو یہ ٹھیک ہو گئی ہے لیکن پہلے اس کی بہت شکایات ملتی تھیں‘‘۔ حیرت اس بات کی ہے کہ جس وزیر نے یہ حماقت کی ہے وہ گذشتہ دو دہائیوں سے اسمبلی میں منتخب ہوتا آیا ہے، لیکن تحریکِ انصاف کے بچگانہ ماحول نے اسے بھی ویسا ہی بنا دیا ہے۔ ملک سنبھالنا، چلانا اور اس کی عزت کو قائم رکھنا، ایک تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے۔ سنبھل سنبھل کر پائوں رکھنا پڑتے ہیں۔ لیکن خان صاحب نے حکومت میں ایسے ہی فاسٹ بائولر لگا رکھے ہیں، جن کا کام ہی لوزبال کروانا ہے۔ یہ ایک ایسا بال ہوتا ہے جس پر دشمن بے پرواہ ہو کر چھکا لگاتا ہے۔ انگریزی زبان میں احمقانہ حرکتیں کر کے اپنے ہی مفاد تباہ کرنے والے شخص کو لوز بالرکہا جاتا ہے۔ آپس کی لڑائی اور طعن و تشنیع کی سیاست نے پاکستانی حکومت میں بے شمار لوز بالرز کو جنم دے دیا ہے، جو ہر روز ایک نیا تماشہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ بقول جون ایلیاء کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
Source: 92 news
Must Read Urdu column Kon is Ghar ki Dekh Bhaal kare By Orya Maqbool jan