کون کہاں کھڑا ہے؟ – سہیل وڑائچ
پاکستانی سیاست دلچسپ صورت حال سے دو چار ہے۔ مختلف ایشوز پر اہل سیاست کاموقف انتہائی دلچسپ ہے۔ کیا آپ یہ سن کر حیران نہیں ہوں گے کہ کئی معاملات میں مریم نواز اور عمران خان کا موقف ایک ہے اور کئی معاملات پر زرداری، پرویز الٰہی اور مقتدرہ کا نقطہ نظرایک ہے ۔ آیئے ذرا جائزہ لیں کہ کون کہاں کھڑا ہے اور پھر سیاست کی نیرنگی پر سردُھنئے۔
ہفتہ رفتہ میں یہ افواہ گرم رہی کہ وزیر اعلیٰ بزدار کو رخصت کیا جا رہا ہے مگر متبادل نام فائنل نہ ہونے کی وجہ سے یہ افواہ دم توڑ گئی ۔ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ عمران خان اور نواز شریف دونوں پنجاب میں تبدیلی نہیں چاہتے۔
عمران خان اس لئے تبدیلی نہیں چاہتے کہ بزدار ا ن کا پسندیدہ ہے اور نواز شریف بزدار کو بدل کر پرویز الٰہی کو لانے کے حق میں نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں بزدار کی موجودگی میں بیڈگورننس سے تحریک انصاف کا نام بدنام ہو رہا ہے۔
مزیدار بات یہ ہے کہ پنجاب میں تبدیلی کے حوالے سے مقتدرہ اور جناب آصف زرداری کے عزائم بھی ایک ہیں دونوں ہی یہ چاہتے ہیں کہ پنجاب میں تبدیلی لائی جائے ، زرداری بزدار کی جگہ پرویز الٰہی کو لانے کےحامی ہیں جبکہ مقتدرہ بزدار کو ہٹا کر کسی بھی اور چہرے کو لانے کی حامی ہے۔ چودھریز آف گجرات کا موقف بہت ہی دلچسپ ہے وہ بھی فی الحال بزدار کو برقرار رکھنے کے حامی ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اگر بزدار ہے تو پھر یقینی طورپر ان کی باری آئے گی چنانچہ وہ کسی اور کو بزدار کا متبادل بننے نہیں دینا چاہتے۔
سیاست کا ایک اہم ترین سوال نئے الیکشن ہیں نواز شریف اور مریم نواز شریف بار بار نئے الیکشن کی بات کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی اسی مطالبے کے حامی ہیں لیکن دوسری طرف پی ڈی ایم میں ان کے اتحادی آصف زرداری فی الحال نئے الیکشن کے حامی نہیں، اسی لئے وہ فی الحال اجتماعی استعفے دینے کے حق میں بھی نہیں نظر آتے۔
اچنبھے کی بات ہے کہ نئے الیکشن کے حوالے سے چاہے غصے میں ہی سہی جو بات آئی ہے وہ خود وزیراعظم عمران خان کی طرف سے آئی ہے۔ سینیٹ الیکشن کے بعد ہونے والی میٹنگ میں ان کی اس بات کی باز گشت سنائی دی کہ اگر وہ دبائو میں آئے تو اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کی طرف جائیں گے۔ گویا اس ایک معاملے پر بھی ن لیگ اور عمران خان کا موقف مل جاتا ہے۔
ملک کی مقتدرہ، آصف زرداری اور عمران خان چاہتے ہیں کہ سسٹم چلے جبکہ نواز شریف، مریم اور مولانا فضل الرحمٰن چاہتے ہیں کہ سسٹم ناکام ہو جائے مسلم لیگ ن کا مفاہمتی گروپ بھی یہ چاہتا ہے کہ سسٹم چلتا رہے اور سسٹم کے اندر ہی سے تبدیلیاں ہوں۔
وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے یہ بات وثوق سے کہی جارہی ہے کہ ان کا رجحان روحانیت کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ مادہ پرستی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ایک رہنما کو حال ہی میں کافی عرصے کے بعد بنی گالہ جانے کا موقع ملا تو اس نے وہاں بہت بڑی بڑی تبدیلیاں نوٹ کیں۔
بنی گالہ کا ماحول مکمل طور پر روحانی ہو چکا ہے۔ بابا فریدؒ کی تعلیمات اور ان کے فرمودات کے عکس جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ بنی گالہ سربراہ حکومت کی رہائش گاہ سے زیادہ روحانی درگاہ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے اور ظاہر ہے کہ اس تبدیلی کے اثرات وزیراعظم کی شخصیت پربھی منعکس ہو رہے ہیں۔
سینیٹ الیکشن کے بعد سے سیاست کی نئی بساط بچھنی شروع ہو رہی ہے۔ مہرے نئے سرے سے کھڑے کئے جائیں گے اور کھیل بھی نیا ہوگا۔ سب سے پہلا مرحلہ تو ظاہر ہے لانگ مارچ کا ہوگا۔
اپوزیشن کی کوشش ہوگی کہ وہ بڑے سے بڑا کرائوڈ اسلام آباد لے کر جائے اور وہاں متاثر کن مظاہرہ کرے، وہاں زیادہ دن بیٹھنے یا دھرنا دینے پر فی الحال اپوزیشن کا اتفاق نہیں لیکن اگر مجمع زیادہ ہوا تو پھر حالات خراب بھی ہوسکتے ہیں۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی تلاطم رک جائے گا یا حالات نارمل ہو جائیں گے فی الحال دو طرفہ تماشا جاری رہنے کا امکان ہے۔
اڑھائی سال گزرنے کے بعد عمران خان حکومت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے، گورننس کے سنجیدہ ایشوز میں تقرر اور تبادلوں میں عقل و فہم کی بجائے وقتی ضرورت کو مدنظر رکھا جاتا ہے، سیاسی فیصلوں میں جو دور اندیشی نظر آنی چاہئے وہ موجود نہیں۔
مہنگائی اور بے روزگاری کے تدارک کے لئے کوئی بھی قدم کارگر نہیں ہو پا رہا۔ معیشت کی بہتری کے لئے کافی اصلاحاتی فیصلے کئے گئے لیکن ان کا دائرہ بہت ہی محدود ہے ، ملکی معیشت پر ان کا بہت زیادہ اثر نہیں پڑ سکا، یہی وجہ ہے کہ اس ناکامی سے مایوسی بڑھ رہی ہے اور حکومت سے جو امیدیں باندھی گئی تھیں وہ آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں۔
پاکستان میں کون کہاں کھڑا ہے، سے قطع نظر اگر ہم یہ جائزہ لیں کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے تو بڑی افسوسناک صورتحال درپیش نظر آتی ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک سے امیدوں کا ایک طوفان آیا تھا آخر اسے کس کی نظر لگ گئی ہے کہ سی پیک کی رفتار آہستہ سے آہستہ ہوگئی ہے جبکہ اسی سی پیک کا نواز شریف کے زمانے میںایک غلغلہ تھا۔
افغانستان کی وجہ سے پاکستان امریکہ اور مغربی ممالک کی طر ف سے نگرانی کی صورتحال سے دو چار ہے گو پاکستان امریکہ اور مغربی دنیا کی خواہشات کے عین مطابق افغان امن ڈائیلاگ کے لئے بھرپور مدد کر رہا ہے مگر پھر بھی بہت سی مغربی نگاہیں پاکستان اور طالبان کے تعلقات کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
ہمارے پڑوسی بھارت سے ہمارے تعلقات کی بہتری کا کوئی چانس نہیں، بدقسمتی یہ ہوئی ہے کہ اسلامی بلاک میں ہمارے اتحادی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی ہم سے روٹھے روٹھے نظر آتے ہیں ہم نے ملائشیا، ترکی اور ایران کے ساتھ دوستی کی نئی پینگیں بڑھانے کی کوشش کی لیکن اخلاقی امداد کے علاوہ کہیں سے بھی مالی امداد اور اقتصادی تعاون کا اشارہ تک نہیں ملا۔ حد تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کے دورہ سری لنکا پر خوشیاں منائی جارہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمیں مغربی دنیا اور بڑے ممالک کی طرف سے مدعو نہیں کیا جا رہا اسی لئے تو ہم سری لنکا کا دورہ کرکے بہت مطمئن ہیں۔ پاکستان اس طرح کی تنہائی کا شکار تو کبھی نہیں ہوا تھا۔
ہم جس طر ح کی ملکی اور غیر ملکی صورت حال سے دو چار ہیں ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کے لئے اپنی باقی ماندہ مدت میں چیلنجز اور بڑھیں گے ۔ جتنی آسانی سے انہوں نے پہلے اڑھائی سال گزار لئے ہیں شاید اتنی آسانی سے وہ باقی وقت نہ گزار سکیں۔ اقتصادی دبائو اور حزب اختلاف کا زور، دونوں مل کر عمران خان کو آنے والے دنوں میں پریشان کرتے رہیں گے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان جارحانہ سیاست چھوڑ کر مفاہمتی رنگ اپنائیں، پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کریں، اپنے پانچ سال پورے کریں اور ملک و قوم کے لئے بھی کچھ کر جائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Source: jang News
Must Read Urdu column Kon Kahan Khara hai By Sohail Warraich