کون کون نقصان اٹھائے گا؟ – حامد میر
اس کھیل میں کچھ بھی نیا نہیں صرف کردار بدل چکے ہیں ۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اسمبلی توڑنے اور پھر اسے بحال کرانے کے کھیل کا آغاز پاکستان بننے کے 16ماہ بعد ہی ہو گیا تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم ؒ محمد علی جناح کی وفات کو صرف چار ماہ گزرے تھے کہ وزیر اعظم کے مشورے پر پنجاب کے گورنر رابرٹ فرانسس موڈی نے صوبائی اسمبلی توڑ کر صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا اور وزیر اعلیٰ پنجاب افتخار ممدوٹ کو گھر بھیج دیا۔گورنر نے اسمبلی توڑنے کی بڑ ی وجہ کرپشن کو قراردیا اور پھر کرپشن کو جواز بنا کر پاکستان میں اسمبلیاں توڑنے کا وہ کھیل شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے ۔یہ کھیل وزیر اعظم لیاقت علی خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب افتخار ممدوٹ کے درمیان شروع ہوا،پھر اس کھیل کو آگے بڑھانے کیلئے عدلیہ کی خدمات حاصل کی گئیں ۔افتخار ممدوٹ کو پروڈا کے تحت نااہل قرار دیا گیا اور عدالتوں میں ان کا دفاع حسین شہید سہروردی نے کیا جنہیں مرکزی دستور ساز اسمبلی کی رکنیت سے محروم کیا گیا تھا۔ اس کھیل کے آغاز میں پنجاب کے معتوب وزیراعلیٰ افتخار ممدوٹ کے ساتھ ایک مظلوم بنگالی سیاست دان کھڑا تھا، ممدوٹ کو ہٹاکر ممتاز دولتانہ کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا لیکن اسی دولتانہ کے دور میں وزیراعظم لیاقت علی خان راولپنڈی میں قتل ہوگئے۔ ان کی جگہ خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بنے تو انکی ممتاز دولتانہ سے لڑائی شروع ہوگئی اور 1953ء میں لاہور میں مارشل لاء لگا کر فوج کو پورے ملک میں مارشل لاء لگانے کا راستہ دکھایا گیا، پہلا مارشل لاء لگا کر فوج کو پورے ملک میں مارشل لاء لگانے کا راستہ دکھایا گیا، پہلا مارشل لاء سیاست دانوں نے لگوایا پھر فوج نے یہ کام بار بار کیا۔
پنجاب میں اسمبلی توڑنے کے کھیل کا ایک دلچسپ مرحلہ 1993ء میں آیا جب نواز شریف وزیراعظم اور غلام حیدر وائیں وزیراعلیٰ تھے۔ وزیراعظم اور صدر غلام اسحاق خان کے درمیان اختلافات شدید چکے تھے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے سپیکر صوبائی اسمبلی میاں منظور احمد وٹو کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہ تھے۔ صدر غلام اسحاق خان نے وٹو کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کرکے انہیں اپنے ساتھ ملالیا۔ 1993ء میں انہوں نے قومی اسمبلی تو توڑ دی لیکن صوبائی اسمبلیاں نہ توڑیں۔ پنجاب میں منظور وٹو کے ذریعہ غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرایا گیا۔ وٹو وزیراعلیٰ اور چودھری الطاف حسین گورنر پنجاب بن گئے۔ چند ماہ کے بعد سپریم کورٹ نے نواز شریف حکومت کو بحال کردیا تو وٹو مشکل میں پھنس گئے، محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں صوبائی اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیا اور وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر گورنر نے پنجاب اسمبلی توڑ دی۔
یہ وہ مرحلہ تھا جب چودھری پرویز الٰہی نے نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا اور لاہور ہائیکورٹ میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے خلاف درخواست دائر کر دی ۔چودھری پرویز الٰہی کی وکالت میاں ثاقب نثار اور اشتر اوصاف علی نے کی ۔16جون 1993ء کو پیپلز پارٹی نے لاہور ہائیکورٹ کے باہر اسمبلی کی بحالی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ پیپلز پارٹی روزانہ لوٹے اٹھا کر عدالت کے باہر پہنچ جاتی تھی اور الزام لگاتی کہ نواز شریف اراکین اسمبلی کے علاوہ ججوں کو بھی خرید رہے ہیں۔28جون 1993ء کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ میاں محبوب احمد نے پنجاب اسمبلی بحال کر دی ۔ عدالتی فیصلے کے ٹھیک سات منٹ کے بعد گورنر چودھری الطاف حسین نے دوبارہ اسمبلی توڑ دی، اس شام گورنر صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ مبارکبادیں وصول کر رہے تھے۔ فواد چودھری اس زمانے میں طالب علم تھے اور اپنے تایا کے ساتھ گورنر ہائوس میں رہائش پذیر تھے، شاید انہیں یاد ہو کہ جب چودھری الطاف نے دوبارہ اسمبلی توڑ دی تو میں نے انکی موجودگی میں گورنر صاحب کو کہا تھا ’’لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کرکے‘‘ پنجاب اسمبلی کے دوبارہ ٹوٹنے کے بعد پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا۔ آئین کی دفعہ 234کے تحت پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا لیکن گورنر کا اختیار حماد اظہر کے والد گرامی میاں محمد اظہر کے سپرد کردیا گیا۔ وٹو اور چودھری الطاف حسین نے پارلیمنٹ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا ۔چیف سیکرٹری جاوید قریشی اور آئی جی پنجاب چودھری سردار گورنر راج نافذ کرنے میں ناکام ہو گئے کیونکہ صدر غلام اسحاق خان نے چودھری الطاف حسین سے کہا کہ وہ کام کرتے رہیں ۔دوسری طرف وفاقی کابینہ نے صدر کو پارلیمنٹ کا حصہ ماننے سے انکار کر دیا ۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا اور فوری طور پر نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا، اس مرحلے پر آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کے پاس مارشل لاء نافذ کرنے کا سنہری موقع تھا لیکن انہوں نے محض نرم مداخلت پر اکتفا کیا، انہوں نے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کو استعفے دینے پر راضی کیا اور نئے انتخابات کا اعلان ہوگیا۔
نئے انتخابات میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ جونیجو اور دیگر پارٹیوں نے پی ڈی ایف کے نام سے حصہ لیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو معمولی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بن گئیں اور منظور وٹو ایک دفعہ پھر وزیر اعلیٰ بن گئے لیکن کچھ عرصے کے بعد بے نظیر صاحبہ اور وٹو کی لڑائی شروع ہو گئی ۔وٹو سے کہا گیا کہ آپ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں، انہوں نے انکار کردیا، اس دوران چودھری الطاف حسین کا انتقال ہوگیا۔ وٹو کو نکالنے کیلئے صدر فاروق لغاری نے ایک دفعہ پھر گورنر راج نافذ کر دیا جسے لاہور ہائیکورٹ نے مسترد کر دیا۔ چنانچہ تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں شروع ہوگئیں اور گورنر راجہ سروپ نے وٹو کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا ۔وٹو اعتماد کا ووٹ نہ لے سکے اور فارغ ہو گئے، نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو پرویز الٰہی نے عارف نکئی کے مقابلے پر دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا ۔1996ء میں دوبارہ انتخابات ہوئے، نواز شریف وزیراعظم بن گئے لیکن پنجاب میں وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کی بجائے شہباز شریف کو مل گئی جس کے بعد پرویز الٰہی نے کبھی شریف برادران پر اعتبار نہیں کیا۔ یہ 2022ء کی نہیں 1996ء کی کہانی ہے، اس وقت پی ڈی ایف تھی، آج پی ڈی ایم ہے، اس وقت نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی لڑائی تھی، آج نواز شریف اور عمران خان کی لڑائی ہے۔ جو کام غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری کیا کرتے تھے وہ کام آج کل عمران خان کرنا چاہتے ہیں، جب بھی اسمبلیاں توڑی گئیں تو معاملہ نئے انتخابات پر ختم ہوا لیکن نئے انتخابات سے سیاسی افراتفری اور بے یقینی ختم نہیں ہوئی کیونکہ سیاست دانوں نے خود ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرکے جمہوری اداروں کو کمزور کر دیا ہے ۔آصف علی زرداری نے بطور صدر پاکستان 18ویں ترمیم کے ذریعہ قومی اسمبلی توڑنے کا اختیار سرنڈر کردیا اور صوبوں میں گورنر راج نافذ کرنے کاطریقہ کار بہت مشکل بنا دیا ۔اس ترمیم نے ہارس ٹریڈنگ کو بھی مشکل کر دیا لہٰذا زرداری صاحب، شہباز شریف اور عمران خان یاد رکھیں کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کا سب سے زیادہ نقصان ان تینوں کو ہوگا کیونکہ 1949ء سے 2022ء تک کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔
Source: Jung
Must Read Urdu Column Kon kon Nuxan Uthaye ga by Hamid Mir